معاملہ کوئی بھی اور کسی بھی نوعیت کا ہو، پاکستان
میں ہر اہم موقع پر باقی تمام عوامل کو نظرانداز کرکے انتہائی سرعت کے ساتھ
بیشتر شہروں میں موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگادی جاتی ہے۔عید،
عاشورہ، بارہ ربیع الاول اور ہر غیرمعمولی موقع پر ڈبل سواری پر پابندی
لگانا حکومت اور وزارت داکلہ کی پریکتس بن چکی ہے، گویا یہ پابندی لگائے
بناامن قائم نہیں ہوسکتا،جیسے موٹرسائیکل پر پابندی لگانے سے پورا ملک ہر
قسم کے خطرے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس سال بھی موجودہ حکومت نے اپنے پیش روﺅں
کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے بارہ ربیع الاول کے موقع پر کراچی ، کوئٹہ،
اسلام آباد ، پشاور، راولپنڈی اور گلگت بلتستان سمیت متعدد شہروں میں موٹر
سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عاید کی، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں موٹر
سائیکل چلانے پرہی پابندی لگائی گئی۔ کسی بھی حکومت کا اپنے ملک کے شہریوں
کے لیے حفاظتی انتطامات کرنا اچھی بات ہی نہیں، فرض کے درجے میں ہے، ان کے
مال و جان کی حفاظت کیے بغیر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوا جاسکتا،
لیکن کسی بہانے اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا اور پہلو تہی اختیار کرنا
حکومت وقت کی نااہلی و کاہلی سمجھی جاتی ہے۔
موٹر سائیکل کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریب اور متوسط طبقے کی سواری
ہے، یہ بات حقیقت پر بھی مبنی ہے، لیکن آئے دن ڈبل سواری پر پابندی عاید
کرکے ملک کے شہریوں کے لیے اس کی افادیت کو شجر ممنوعہ بنادیا جاتا ہے۔ عصر
حاضر میں سب سے سستا اور مطلوبہ مقام تک فوری رسائی کا واحد ذریعہ موٹر
سائیکل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں
کررہی ہیں، اکثر سی این جی بھی بند ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سڑکوں پر بسیں
چیدہ چیدہ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ خصوصاً جن مواقعوں پر موٹرسائیکل کی ڈبل
سواری پر پابندی لگائی جاتی ہے، اس دوران پبلک ٹرانسپورٹ تو پہلے ہی بند
رہتی ہے ۔، ایسے حالات میں صرف رکشا یا ٹیکسی کے ذریعے ہی منزل مقصود تک
پہنچا جاسکتا ہے، جو عوام کے لیے اس مہنگائی کے دور میں بڑا بوجھ ہے۔ ایسے
میں یہ سواری کم آمدنی اور متوسط گھرانے کے دو افراد کے لیے انتہائی موزوں
اور باکفایت ذریعہ آمد و رفت ثابت ہوا ہے۔ویسے بھی ایک ایسے ملک میں جہاں
ٹرانسپورٹ کی شدید قلت ہو، وہاںشہریوں کے لیے ڈبل سواری کے سوا کوئی اور
چارہ بھی نہیں۔ موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہنے پر
مجبور ہے کہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی کے باعث ملک کے شہری
ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کم آمدنی والے حضرات، ملازم پیشہ افراد
اور چھوٹے کاروباری حضرات مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
ملک میں اس وقت موٹرسائیکلوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق اگر کروڑ سے
اوپر بتائی جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔جبکہ صرف کراچی شہر میں روزانہ
12 لاکھ سے زاید موٹر سائیکلیں سڑکوں پر رواں دواں ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے
مطابق ساڑھے چھ لاکھ موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری کی جاتی ہے، لیکن ڈبل
سواری پر پابندی لگنے کے بعد سرکاری اور نجی اداروں میں عملے کی بروقت
حاضری تو بری طرح متاثر ہوتی ہی ہے، اس پابندی سے غریب عوام پر کئی گنا
اضافی مالی بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ڈبل سواری سے ایک عام آدمی کو اور مجموعی
طور پر قومی خزانے کو بے حد نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک موٹر سائیکل استعمال
کرتے ہوئے غریب گھرانے کے دو تین افراد بیک وقت سفر کرکے اپنے کام پر
پہنچتے ہیں۔ اگر یہ افراد ڈبل سواری کی وجہ سے موٹر سائیکل استعمال نہ کریں
تو کم سے کم ساڑھے چھ لاکھ سے زاید افراد کو بسوں میں دھکے کھانا پڑتے ہیں،
وہ بھی اگر میسر ہوں، ورنہ منزل تک پہنچنے کے لیے متبادل انتظام کرنا پڑے
گا، جو یقیناً کافی مہنگا پڑتا ہے۔ صرف کراچی میں ایک دن کی ڈبل سواری پر
پابندی سے دو کروڑ 60 لاکھ روپے یومیہ مجموعی طور پر قومی خزانے پر مزید
بوجھ بڑھتا ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ اگر سفر سیدھا ہے تو کم سے کم 30 روپے
اور اگر ایک سے زاید بسیں تبدیل کرنی پڑیں تو پھر 60 روپے تک کا یومیہ خرچ
بڑھ جاتا ہے۔ اسے 40 روپے اوسطاً رکھا جائے تو 40 روپے ضرب ساڑھے چھ
لاکھ.... دو کروڑ 60 لاکھ روپے یومیہ مجموعی طور پر قومی خزانے پر 78 کروڑ
روپے کا مزید بوجھ بڑھتا ہے۔اس کے علاوہ بس نہ ملنے کی صورت میں( ایسے
مواقع پر اکثر ہوتا ہے) رکشا، ٹیکسی وغیرہ میں اگر جانا پڑے تو خرچ کئی گنا
بڑھ جاتا ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کی صورت میں ایک غریب آدمی پر بے وجہ کا
بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کا فائدہ ٹرانسپورٹ مافیا اور پولیس
کو ہوتا ہے۔ ایک متعین حصہ ان حکام بالا کی جیبوں میں بھی جاتا ہے جن کے
رحم و کرم پر موٹر سائیکل سواری پر پابندی برقرار ہے۔ اسی طرح سی این جی
اور چنگ چی رکشے بھی ایسے مواقع پر بڑے بڑے نوٹ چھاپتے ہیں۔ شہریوں کے حصے
میں صرف نقصان ہی آتا ہے اور اگر باامر مجبوری کہیں ڈبل سواری پر جانا ہی
پڑجائے تو پولیس کے پکڑنے کی صورت میں جو ان کی جیب گرم کرنا پڑتی ہے وہ
الگ رہی۔
موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگنے کے بعد ٹریفک پولیس سے زیادہ اس
معاملے میں کالی وردی والے مستعد ہوتے ہیں،ہر واردات اور عوام کو تحفظ کی
فراہمی میں ہمیشہ موقعے سے غائب رہنے والی پولیس اس پابندی کے لگتے ہی
حفاظتی ناکے چھوڑ چھاڑ کر گلی ، محلوں ، بازاروں اور نکڑوں پر چکر کاٹتی
نظر آرہی ہوتی ہے۔وہ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر موٹر سائیکل اور سواروں کو گاڑی
میں ٹھونس کر پہلے اِدھر ا ±دھر گھماتے ہیں.... مک مکا ہوجائے تو چھوڑ دیتے
ہیں ورنہ تھانے لے جاتے ہیں اور کارکردگی میں شمار ہوجاتا ہے۔ پھر نئے شکار
کی تلاش میں چلے جاتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کے مقام پر اس دوران کوئی بم بھی
رکھ سکتا ہے اور کوئی واردات بھی ہوسکتی ہی، لیکن ان کی بلا سی.... وہ تو
ڈبل سواری والوں کو پکڑ رہے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی، لوٹ مار یا کسی خطرناک
موقع پر پولیس ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتی ہے لیکن بھلاہو اس ڈبل سواری پر
پابندی کا جس کے لگتے ہی پولیس شہریوں کو اس پابندی کی خلاف ورزی کی مد میں
ہر جانب ڈھونڈتی نظر آتی ہے، لیکن دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز ان سے ڈبل سواری
کی وجہ سے کبھی نہیں پکڑے گئے۔کیا ہماری پولیس ان مجرموں کو دیکھ نہیں
پاتی؟ ، پولیس کی ساری مستعدی صرف شہریوں کو تنگ کرنے تک محدود نظر آتی
ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ جو پاکستان میں ہر موقع پر موٹر سائیکل پر ڈبل سواری
ممنوع قرار دے دی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب مجرم نہیں آئیں گے
اور کوئی واردات نہیں کریں گے کیونکہ انتظامیہ نے ڈبل سواری پر پابندی جو
لگادی ہے۔ لیکن پھر واردات ہوجاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ کئی برس سے
کوئی بڑی واردات موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کرنے والوں نے نہیں کی بلکہ یا
تو وارداتی پیدل آتے ہیں، گاڑیوں میں آئے یا بسوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، یا
پھر بم رکھ کر چلے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود حکومت پھر ہر بار بے چارے
موٹر سائیکل پر پابندی لگادیتی ہے۔
قانون کے مطابق صرف بچے ، عورتیں ، بوڑھے اور صحافی ہی اس پابندی سے
مستثنیٰ ہوتے ہیں ؟لیکن کیا کسی ہسپتال ، ایمر جنسی وارڈ کے کمپاؤڈر یا کسی
مدرسے ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی کے استاد کو ڈبل سواری سے روکنے کا کوئی
اخلاقی جواز ہے؟اور کیا کوئی دہشتگرد اس پابندی کی مد میں پکڑا جاتا ہے
؟اگر نہیں تو پھر اس پابندی کا مقصد کیا ہے؟صرف غریب عوام کو تنگ کرنا۔بہت
دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس ایسے چھوٹے اور غیر معروف اخبارات میں کام
کرنے والے صحافیوں کو تنگ کرتے ہیں،حالانکہ جس کے پاس بھی پریس کارڈ ہے
قانونی طور پر اسے ڈبل سواری کی اجازت ہوتی ہے اس کے باوجود ان پولیس والوں
سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کس قانون کے تحت ان کو تنگ کرتے ہیں۔موٹر سائیکل
کی ڈبل سواری پر پابندی کے حوالے سے حکومت ہمیشہ سے یہی راگ الاپتی نظر آئی
ہے کہ اس اقدام سے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے، اس
لیے یہ پابندی عاید ہونی چاہیے۔ عوام الناس کے نزدیک حکومت کا یہ مو ¿قف
”عذر گناہ بدتر از گناہ“ کے مترادف ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر
بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی بجائے ڈبل سواری پر پابندی لگادینا
بالکل لغو سوچ ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ دہشت گرد باآسانی اپنی کارروائیاں
جاری رکھے ہوئے ہیں۔حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ خوف و
ہراس اور دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے موٹر سائیکل پر جدید و خود کار
اسلحہ لے کر نکلتے ہیں انھیں اس بات سے کیا ڈر وخوف ہو سکتا ہے کہ حکومتی
اہلکار انھیں روکیں گے۔ بم دھماکے ، خود کش حملے اور قتل وغارت گری کی بڑی
وارداتیں۔ کئی دہائیوں سے یہ عذاب کسی نا کسی طرح ہمارے عوام سے چمٹا ہوا
ہے، لیکن ڈبل سواری پر پابندی سے ان میں سے کچھ بھی نہیں رکتا۔ کیا ڈبل
سواری کی پابندی سے اس طرح کی کاروائیوں کو روکا جاسکتا ہے ؟یا ان معاملات
میں بھی ڈبل سواری کا استعمال محض ایک ڈھال کے طور پر ہی کیا جا سکتا
ہے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ جرائم کی وارداتیں کرنے والے افراد کار اور دیگر
گاڑیوں کا بھی استعمال کرتے ہیں،اس طرح تو ان پر بھی پابندی لگادینی چاہیے،
صرف موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی سے تو براہ راست صرف متوسط اور
غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ڈبل سواری پر پابندی
لگا کر قانون نافذ کرنے والے ادارے محض ٹامک ٹوئیاں مارر ہے ہیں۔ حکومت کو
اور کچھ نہیں سوجھتا تو لے دے کر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عاید
کرکے اس کبوتر کی طرح خود کو خطرے سے محفوظ تصور کرنے لگتی ہے جو بلی کو
سامنے دیکھ کر بجائے اپنا بچاؤ کرنے کے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔
اس لیے اس تدبیر کو مسئلے کا مستقل حل قرار دینا ہرگز درست نہیں۔ایک طرف
حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگادیتی ہے جبکہ
دوسری طرف حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتی نظر آتی
ہے۔ حالانکہ اس طرح کے اقدامات سے حکومت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا چلا
جاتا ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی اور اس کے نقصانات وفوائد اپنی جگہ لیکن یہ
بات طے ہے کہ حکومت کے اس قسم کے فیصلے حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی پر
مہرثبت کردیتی ہے۔
|