فیشن ایبل نقاب، پردہ نہیں
عورتوں کے مروجہ نقاب سے بے حیائی اوربدنظری کے امکانات زیادہ بڑھ گئے ہیں
معاشرے میں سیکڑوں برائیوں کوجنم دینے والی چیز ہے بد نگاہی۔بدنگاہی اور
چوری چھپے نظربازی ہی انسان کو بدکاری کی طرف ڈھکیلتی اور بدچلنی اور
بدکرداری پرابھارتی ہے۔شریعت مطہرہ اسی بدچلنی وبدکاری اور گمراہی وبدنامی
کے غارمیں گرکربے موت مرنے سے آدمی کوبچاتی اور فوزوفلاح کی طرف بلاتی
ہے،چنانچہ مردوں کوحکم دیاگیا کہ اپنی نگاہوں کواپنے قابومیں رکھواور کبھی
ایسی چیز کوآنکھ بھرکرنہ دیکھوجس کے دیکھنے کی تمہیں اجازت نہیں اورجس چیز
کادیکھناجائز نہیں اس پر نظر نہ ڈالوکہ جب نظربدکسی پرپڑے گی توجذبات میں
اشتعال پیداہوگا۔اور عورتوں سے فرمایاگیاکہ اپنابناؤسنگھار ظاہرنہ کریں۔اس
کے تحت میں ہروہ چیزآجاتی ہے جو مردکے لیے عورت کی طرف رغبت ومیلان کاباعث
ہو،خواہ پیدائشی ہو یامصنوعی۔جس طرح مردوعورت ایک دوسرے سے مکمل
طورپرعلیٰحد گی کی صورت میں ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔یونہی
’’آزادیٔ نسواں‘‘کے نام پر آزادانہ اور غیر مشروط اختلاط نہ پاکیزہ ماحول
پیداکرسکتاہے اور نہ ایسے معاشرہ میں نیک نفس،پاک باطن نسلِ انسانی پروان
چڑھ سکتی ہے انہی حدود میں رہتے ہوئے انسان کو آزاد رکھنے کانام زبانِ
شریعت میں’’حجاب یاپردہ‘‘ہے۔
اس ضمن میں اگر ہم اپنے معاشرے کاجائزہ لیں گے تو ہمیں نظرآئے گاکہ پہلے کی
بہ نسبت موجودہ دور میں برقعہ کااستعمال میں کافی حد تک اضافہ ہواہے۔مگر
سوال یہ پیداہوتاہے کہ نت نئے ڈیزائنوں کے اور انتہائی چست برقعے کیااسلامی
نظام جس پردے کا مطالبہ کرتاہے ان تقاضوں کوپوراکررہے ہیں؟اسلام نے عورتوں
کوایسے کپڑے پہننے سے منع فرمایاہے جس سے جسم کی ساخت وہیئت نمایاں
ہو۔مگرافسوس!!آج پردے کے نام پر ایسے برقعے بنائے اور پہنے جارہے ہیں جونہ
صرف جسم کے نشیب وفراز کونمایاں کرتے ہیں بلکہ غیروں کی نظروں کو اپنی طرف
راغب بھی کرتے ہیں
وہ اندھیراہی بھلاتھاکہ قدم راہ پر تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
شریعت اسلامیہ مردوں سے نگاہوں اور شرمگاہ کی حفاظت کامطالبہ کرتی ہے مگر
عورتوں سے کچھ اور مطالبے بھی کرتی ہے اور عورتوں کو مخصوص احکام کا پابند
بناتی ہے اور انہیں سمجھاتی ہے کہ آرائش وزیبائش کاشوق کہیں تمہیں غلط
راہوں پرنہ ڈال دے۔اور ایسانہ ہوکہ تمہاراشوق تمہیں عزت وناموس سے محروم
کرکے بے حیائی وبے شرمی وآوارگی اور بدچلنی کے اندھیروں میں ڈال کر تمہاری
دنیاوآخرت اور تمہارے دین ومذہب کوتباہ وبرباد نہ کردے اور تسکینِ شوق کے
نشہ میں مخمورہوکرکہیں دین ودنیاہی سے جاتی نہ رہو۔زمانۂ حال میں برقعے کا
مقصد فوت ہوتاجارہاہے یامستقبل قریب میں فوت ہونے کااندیشہ ہے۔آج برقعہ
کااستعمال محض اسلامی رسم کی حیثیت سے کیاجارہاہے۔واضح ہوکہ اسلام پردہ
کامطالبہ کرتاہے نہ کہ محض برقعے کا۔ہاں یہ اور بات ہے کہ برقعہ کے ذریعے
پردہ کے قانون پر عمل کیاجاسکتاہے۔مگر فیشن کہہ لیجئے یاشوق․․․․․برقعے اس
طرزکے استعمال کئے جارہے ہیں جوغیروں کو راغب کرنے کاسبب بن رہے ہیں۔ایسے
لوگوں کے متعلق شاہکارِ دست قدرت مصطفی جان رحمتﷺنے فرمایا:’’دیکھنے والے
اوراس پرجس کی طرف نظرکی گئی اﷲ تعالیٰ کی لعنت‘‘۔(بیہقی)یعنی دیکھنے
والاجب بلاعذر قصداًدیکھے اور دوسرااپنے آپ کو بلاعذر شرعی قصداًدکھائے۔غور
کرنے کامقام ہے کہ کہیں خواتین اسلام آزادیٔ نسواں کے نام پر یا شوق اور
فیشن کے باعث لعنت الٰہی کی مستحق تو نہیں بن رہی ہیں۔ازواج مطہرات میں سے
حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضرتھیں
کہ نابینا صحابی حضرت عبداﷲ ابن مکتوم رضی اﷲ عنہ آگئے۔سرکاردوعالم ﷺنے
پردہ کرنے کاحکم فرمایا،انہوں نے عرض کیاکہ وہ تونابیناہیں(یعنی وہ ہمیں
نہیں دیکھ سکیں گے،نہ ہمیں پہچان سکیں گے)حضورﷺنے فرمایا:تم تو نابینانہیں
ہو۔(ترمذی شریف)اس حدیث سے معلوم ہواکہ غیرمردوں کے سامنے آناجائزنہیں
اگرچہ وہ نابیناہوں۔یعنی عورتیں اپنی پارسائی کی حفاظت کریں،ایسے طریقے
استعمال کریں کہ کسی بدقماش،بدکردارمردکاہاتھ توہاتھ،اس کی للچائی ہوئی
نظریں بھی اس پر نہ پڑنے پائیں۔
ابوداؤد شریف میں حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اﷲﷺکے پاس مصرکی بنی ہوئی باریک ململ آئی۔آپﷺنے اس میں سے ایک ٹکرامجھے
دیااورفرمایا:ایک حصہ کااس میں سے کرتابنالواور ایک حصہ اپنی بیوی کودے
دوکہ وہ دوپٹہ بنالے مگراسے جتادیناکہ اس کے نیچے ایک اور کپڑالگالے تاکہ
جسم کی ساخت اس سے نہ جھلکے۔اس سے بھی پردہ کی اہمیت کا اندازا ہوتا ہے۔
قرآن مقدس میں ہے:اور مسلمان عورتوں کوحکم دواپنی نگاہیں نیچی رکھیں
اوراپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنابناؤنہ دکھائیں مگرجتناخود ہی ظاہر
ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پرڈالے رہیں اوراپناسنگھار ظاہرنہ کریں مگراپنے
شوہروں پریااپنے باپ یااپنے شوہروں کے باپ یااپنے بیٹے یااپنے شوہروں کے
بیٹے یااپنے بھائی یااپنے بھتیجے یااپنے بھانجے یااپنے دین کی عورتیں
یااپنی کنیزیں جواپنے ہاتھ کی ملک ہوں یانوکربشرطیکہ شہوت والے مردنہ ہوں
یاوہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور
سے نہ رکھیں کہ جاناجائے ان کا چھپاہواسنگھارتم فلاح پاؤ۔ (سورۂ
نور،پ۱۸،آیت ۳۰تا۳۱)اس آیۂ کریمہ میں ’’نساء ھن‘‘کالفظ استعمال ہواہے یعنی
اپنے دین کی عورتیں،مسلمان عورتیں،توعورتوں کے سامنے بھی اظہار زینت کی
آزادی غیرمحدود نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کے دائرہ تک محدود ہے۔کافر عورت
اسلامی شریعت میں اجنبی مرد کے حکم میں ہے۔مواضع زینت اور بناؤ سنگھار والے
اعضائے بدن کوان کی نگاہوں سے بچانابھی ایساہی ضروری ہے جیسے کسی اجنبی مرد
کی نظروں سے۔بلکہ فقہائے کرام نے اس دائرے کو اور بھی محدودکردیااور
فرمایا:فاحشہ اور بدنام قسم کی آبروباختہ عورتیں بھی اگرچہ مسلمان
ہوں،پارساعورتیں میں نہ آنے جانے پائیں کہ ان سے فتنہ اور شدیدترہے۔(اسلام
میں پردہ،ص؍۱۰۷)کسی واقعی غرض یاضرورتِ شرعی کے تحت عورت کوگھر سے نکلناہی
پڑجائے یاگھرمیں رہتے ہوئے بھی اجنبیوں کے سامنے واقعی ضرورت کی بناء
پرآناضروری ہوجائے تو حکم ہے کہ وقار وسنجیدگی کو اپناکرقدم بڑھاؤ،اپنی چال
میں غرور اور چھچھورے پن کونہ آنے دو۔تمہاری چال ڈھال ایسی نہ ہوکہ زیور کی
آواز ہواور اجنبی مرد اس کی جانب متوجہ ومائل ہواور نت نئے فتنے پروان
چڑھیں کہ بسا اوقات اس قسم کی آوازیں صورت دیکھنے سے کہیں بڑھ کر خواہشات
نفسانی کوبھڑکاکرشہوانی جذبات کی تکمیل کی محرک بن جاتی ہیں۔اس لیے فقہائے
کرام نے فرمایاکہ عورتیں باجے دار جھانجھن نہ پہنیں۔حدیث شریف میں ہے:اﷲ
تعالیٰ اس قوم کی دعاقبول نہیں فرماتاجن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں اور
اسی سے سمجھناچاہئے کہ جب زیورکی آوازعدم قبول دعاکاسبب ہے۔توخاص عورت کی
آوازاور اس کی بے پردگی کیسی موجب غضب الٰہی ہوگی۔
آخر میں ہم اپنی مائیں اور بہنوں سے گزارش کرتے ہیکہ ہر اس عمل سے پرہیز
کریں جس سے شریعت اسلامیہ نے منع فرمایاہے اور جو امت مسلمہ کی رسوائی کا
سبب بنے۔ساتھ ہی ہماری برقعہ میکر حضرات سے التماس ہے کہ جب بھی ہماری
بہنیں ان سے ایسے برقعے کی فرمائش کریں جو اسلامی نظامِ پردہ کے منافی
ہوتووہ انھیں اس عمل سے روکے اور ایسے برقعے بنانے پررضامندکرے جوپردے کے
تقاضوں کوپوراکرے۔اﷲ پاک ہمیں ایسی ترقی سے محفوظ رکھیں جو اسلام کی رسوائی
کاباعث ہو۔
|