ملک بچانا ہے تو ہرپاکستانی کو اعتزاز حسین بننا ہوگا

وطن عزیز میں ایک اور خوفناک واقعہ پیش آگیا۔ یہ واقعہ بھی دہشت گردی سے جڑا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کرلی ہے۔ اس بار طالبان نے یہ کارروائی راولپنڈی میں ’’انجام ‘‘ دی۔ صبح جب سکول کے بچوں اور دفاتر اور کام کاج پر جانے والے لوگوں کا خوب رش تھا۔ ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے میں طلباء سمیت 14افراد شہید ہوگئے۔ متعدد زخمی بھی ہوئے جن میں بہت سے معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ اس سے ایک روز قبل دہشت گردوں نے بنوں میں ایف سی کے 24 محافظوں کو شہید کردیا۔اس افسوس ناک واقعے میں 20کے قریب اہلکار شدید زخمی بھی ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ بارودی مواد ایف سی کی جانب سے کرائے پر لی گئی نجی گاڑی میں نصب کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بنوں سے ہر ہفتے اور اتوار کو فورسز کے قافلے اہل کاروں کی تعیناتی اور سامان کی ترسیل کے لیے شمالی وزیرستان جاتے ہیں۔ یہ عمل روڈ آپریشنل ڈیپلائے منٹ کہلاتا ہے اور اس مقصد کے لیے نجی گاڑیاں بھی کرائے پر لی جاتی ہیں۔ اتوار کی صبح بھی میران شاہ جانے کے لیے فورسز کے قافلے میں شامل گاڑیاں بنوں کینٹ میں رزمک گیٹ پر جمع ہورہی تھیں۔ اس دوران قافلے میں شامل ایک نجی گاڑی میں دھماکا ہوگیا۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی۔ طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی مولانا ولی الرحمان کی ہلاکت کا انتقام تھا اور یہ ’محسود ساتھیوں‘ نے کی ہے۔جس مراسلے کے ذریعے طالبان نے بنوں میں سیکورٹی فورسز کے قافلے کی ذمہ داری قبول کی اسی کے آخر میں انہوں نے حکومت سے مذاکرات پر آمادگی کا بھی اظہار کیا۔ مراسلے میں میں لکھا ہے کہ اگر حکومت اختیار اور اخلاص ثابت کرے تو طالبان بامقصد مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔چند روز قبل ایک نجی میڈیا گروپ کے کارکنوں پر حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔تحریک کے رکن احسان اﷲ احسان نے اس حملے پر موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے پہلے بھی میڈیا ہاؤسز کو تنبیہ کی تھی کہ وہ ان کی مخالفت بند کردیں لیکن جب تک مخالفت جاری رہے گی ہم ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی غریب یا معصوم شخص کو مارنا نہیں چاہتے لیکن ہم نے حملہ اس لئے کیا کیونکہ وہ ہمارے مخالفت کرنے والے گروپ سے منسلک تھے اور ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈا کا حصہ تھے۔

پاکستان دہشت گردی کی جس گرداب میں پھنس چکا ہے اس سے چھٹکارا اس لیے انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں بحیثیت مجموعی ہماری کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آرہی۔ ایک طرف طالبان ریاست کے تمام ستونوں پرمسلسل حملے کررہے ہیں مگر ہمارے ہاں اب بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔کچھ حلقے اگر مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو کچھ مخالفت میں اپنے گلے پھاڑتے چلے جارہے ہیں۔ کبھی حکومت کی جانب سے مذاکرات کا عندیہ دیا جاتا ہے تو اپوزیشن اسے ڈھونک خیال کرتے ہوئے الزمات کی بوچھاڑ شروع کردیتی ہے۔ یہی حال میڈیا کا ہے۔ میڈیابھی مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کی بحث کو طول دے کر اہل وطن کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کررہا ہے۔ اس تمام بحث کا ماحصل مزید مخمصہ اور کنفیوژن کے ایک گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ البتہ اس تمام صورتحال میں طالبان کی طرف سے مسلسل حملوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ کم از کم ان کی پالیسیاں اور مقاصد واضح ہیں ۔ ان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور یہاں بدامنی پھیلانے کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ طالبان کی طرف سے سیکورٹی فورسز پر حملے تو عام ہیں ۔ اس وقت چھبیس ہزار سے زائد اہلکار دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ وہ بیرونی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک کی اندرونی رگوں میں رچے اس ناسور سے مسلسل برسرپیکار ہیں۔میجر جنرل ثناء اﷲ خان نیازی، چوہدری اسلم جیسے بہت سے فرض شناس اور دلیر افسر کوبھی انہوں نے نشانہ بنایا اور ڈنکے کی چوٹ پر اس کی ذمہ داری قبول کی۔فوج پولیس اور انتظامیہ تو ایک طرف سیاستدان بھی محفوظ نہیں۔ پشاور میں اے این پی ان کا خاص نشانہ بنی رہی۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وزیراعظم کے مشیر امیر مقام ایک خود کش حملے میں بال بال بچے۔اسی طرح پشاور میں تبلیغی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔

طالبان کے حملوں سے صحافی بھی محفوظ نہیں رہے۔ پہلے تو طالبان انفرادی طور پر صحافیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ گزشتہ دنوں تو انہوں نے ایک مرکزی میڈیا گروپ پر حملہ کرنے کے بعد یہ موقف اختیار کرکے کہ جو بھی ان کے نظریے کی راہ میں رکاوٹ بنے گا اسے نشانہ بنایا جائے گا ، ہمارے میڈیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ میڈیا گروپ کے اعلیٰ صحافتی اہلکاروں کی جانب سے جب انہیں مذاکرات کی دعوت دی گئی تو انہیں بھی اسی طرح تنبیہ کی گئی کہ ان کے نظریات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی مذاکرہ اور مناظرہ میں جہاں طالبان لاجواب ہو جائیں گے وہاں وہ گن اٹھا لیں گے۔ اس طرح طالبان نے آزادی اظہار کے خلاف بھی اپنے موقف کو واضح کردیا ہے۔مگر ریاست کے تما م ستونوں سمیت مختلف مذہبی، سیاسی ، سماجی حلقوں میں اب بھی اختلاف نظرآتا ہے۔ ان کی آنکھیں اب بھی پوری نہیں کھلیں۔ ذاتی مفادات ہیں یا مصلحت یا پھر کمزوری۔ پتا نہیں ہم کب دہشت گردی کے خلاف یکجا ہوں گے؟

میرا ایک دوست اکثر یہ تنبیہ کرتا ہے کہ دہشت گردکسی کو نہیں دیکھتا کہ ان کے حملے میں مرنے والا مسلمان تھا یا غیرمسلم، بچہ تھا یابوڑھا، عورت تھی یا مرد، کمزور تھا یا طاقتور، ظالم تھا یا مظلوم․․․ وہ تو بس مارنے کے لئے آتا ہے اور بہت سوں کی جان لے کر چلا جاتا ہے۔ کوئی خود کش ایک چوک میں پھٹ جاتا ہے۔ اس وقت جو لوگ اس چوک میں موجود ہوتے ہیں، اس میں وہ جاں بحق ہوجاتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے معذور۔ ان کی ہلاک شدگان اور زخمیوں کے نام پڑھ کر کف افسوس ملتے ہیں اور اخبار بند کرکے سوجاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ کسی دن ہم خود یا ہمار ا کوئی قریبی عزیز رشتہ دار اسی چوک سے گزرسکتا ہے جہاں دہشت گرد خون کی ہولی کھیلنے کا منصوبہ ترتیب دے چکے ہوں۔ ہمارا حال ڈربے میں بند ان مرغیوں جیسا ہے جن کی ساتھی مرغیاں ایک ایک کرکے قصائی انہی کے سامنے زبح کردیتا ہے۔ ایک دن ہماری باری بھی ان دہشت گردقصائیوں کے ہاتھ آجائے گی۔ اس دن شاید سوچنے کا موقع نہ ملے۔ جو لوگ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں یا ان کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی رکھتے ہیں، ان کا حال ان مرغیوں جیسا ہی ہے۔ انہیں کی شاید اس وقت آنکھیں کھلی گی جب وہ یا ان کا کوئی رشتہ دارخدانخواستہ دہشت گردی کی بھینٹ چرھے گا۔ تب انہیں دہشت گردی شکار لوگوں اور ان کے خاندانوں کے دکھوں کا اندازہ ہوگا۔بہرحال راولپنڈی اور بنوں حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی پر آمادگی پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ اصل میں طالبان مذاکرات میں مخلص نہیں۔ایسے سفاکانہ حملوں کی صورت میں مذاکرات کو کیسے آگے بڑھا سکتی ہے؟ یہ تمام صورتحال کمزوری دکھانے کی بجائے یکجہتی، واضح اور حتمی موقف اختیار کرکے اس پرڈٹ جانے کی متقاضی ہے ۔ملک بچانا ہے تو ہمیں کمزوری اور بزدلی کی بجائے میجر جنرل ثناء اﷲ، اعتزاز حسن اور ایس ایس پی چوہدری اسلم جیسا نڈر بننا ہوگا جنہوں نے ان دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیں ایک گہرا سبق دیا ہے۔

Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34917 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.