سرینگر مظفرآباد دوطرفہ تجارت کے ذریعے آزادکشمیر سے
مقبوضہ کشمیر جانے والے مال بردار ٹرک سے 1 ارب سے زائد مالیت کی بران
شوگر(اعلی معیار کی ہیروئن)پکڑنے کے بعد آر پار کشمیر کی سیز فائر لائن پر
تجارت کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے بھارتی انتظامیہ کی جانب سے
ٹرک اور اس کا ڈرائیور آزادکشمیرا کی انتظامیہ کے حوالے نہ کرنے کی وجہ سے
گزشتہ جمعہ کے روز آزادکشمیر سے مقبوضہ کشمیر جانے والے 49 ٹرکوں کو مقبوضہ
کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹرکوں کو آزادکشمیر میں روک دیا گیاتھا،
ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارتی آزادکشمیر نے مذکورہ تاجر کوپولیس حراست میں
رکھوایا جس پر بھارت کی جانب سے ایک ارب سے زائد مالیت کی بران شوگر بھیجنے
کا الزام ہے۔جمعہ کے روز دوطرفہ تجارت کے ذریعے 49 مال بردار ٹرک مقبوضہ
کشمیر گئے بھارتی انتظامیہ کے مطابق الفجر کمپنی کے نام سے مقبوضہ کشمیر
جانے والا ٹرک نمبر آر آئی ایس 2137 جس پر کاٹھا بادام لوڈ تھا اس میں سے
114 پیکٹ بران شوگر کے برآمد ہوئے جن کی مالیت ایک ارب سے زائد بنتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ نے مذکورہ ٹرک کے ڈرائیور محمد شفیق ولد
عبدالعزیز ساکنہ سراڑ مظفرآباد کو حراست میں لینے کے علاوہ ٹرک کو ضبط
کرلیا۔ جمعہ اور ہفتہ کی رات تقریبا ساڑھے بارہ بجے دونوں اطراف کے حکام کے
درمیان امن برج پر میٹنگ ہوئی جس میں بھارتی انتظامیہ نے بتایا تھا کہ جس
ٹرک سے بران شوگر برآمد ہوئی اسے ضبط کرلیاگیا ہے اور ٹرک ڈرائیور کو حراست
میں لے رکھا ہے جس سے سکیورٹی کے ادارے تفتیش کر رہے ہیں۔ باقی 48 ٹرک واپس
بھیجے جا رہے ہیں لیکن متنازعہ ٹرک اور ڈرائیور کو آزادکشمیر انتظا میہ کے
حوالے نہیں کیاجائے گا ۔ڈائریکٹر جنرل ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارٹی آزادکشمیر
بریگیڈئر (ر) محمد اسماعیل کے مطابق بران شوگر پکڑنے کا الزام بھارت کی
جانب سے دوطرفہ تجارت کو بند کرنے کی سازش ہے اس سے قبل بھی بھارت نے
دوطرفہ تجارت کے ذریعے مقبوضہ کشمیر جانے والے ٹرکوں سے منشیات پکڑنے کا
الزام لگایا لیکن ابھی تک ہمیں کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے گئے۔ اس طرح کے
ہتھکنڈے استعمال کرکے دوطرفہ تجارت کو بند کرنا چاہتا ہے۔حالیہ واقعہ کے
بعد دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے ۔اس سب کے
باوجود اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان ، بھارت افغانستان میں
منشیات کا استعمال بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا
سکتا ہے کہ امریکی سرپرستی میں سا ل 2013ء میں افغانستان میں ریکارڈ 5500ٹن
منشیات کی پیداوار کی گئی ۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ'' سی آئی اے '' اور''
راہ ''کراچی اور پشاور کے ذریعے افغان ہیروئن، افیم ، و نشہ آور ممنوعہ
اشیاء ایشیائی و دیگر یورپی ممالک کو برآمد کرتی ہے جبکہ پاکستان میں جنوبی
امریکہ سے کوکین، ممبئی ، سرینگر سے شراب کی درآمدکی جاتی ہے۔ گزشتہ ایک
عشرہ سے نیٹوسپلائی کی آڑ میں امریکہ اور سی آئی اے پاکستان کے چاروں صوبوں
کے بڑے شہروں، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے شہروں کراچی ، لاہور ،
راولپنڈی، کوئیٹہ ،پشاور،ملتان، فیصل آباد، مظفر آباد، گلگت، سکرد و دیگر
شہروں میں منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔گزشتہ دنوں کشمیر یوں کی آر پار
تجارت کے دوران منشیات سمگلنگ کا واقعہ سامنے آیا ہے اس واقع میں مظفر آباد
سے خشک میوہ جات سے بھرے ایک تجاری ٹرک کے ذریعے اربوں روپے کی منشیات کے
114 پیکٹس مظفر آباد سے سرینگر بھیجے گئے تھے جہاں سکیورٹی کے اداروں نے
انہیں ضبط کر دیا ۔کشمیریوں کی آر پار کے تجارتی عمل کے دوران یہ منشیات
سمگلنگ کا دوسرا واقعہ تھا۔ کشمیریوں کے نام پر لاہور کے کچھ معروف تاجر وں
نے اس قسم کے دھندوں سے مال کمانا اپنی عادت بنا رکھا ہے ،دوسری جانب کراچی
کی بندر گاہ اور پشاورا س سلسلے میں اہم ترین ٹرانزٹ مقام سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب برطانوی کمپنی کی جانب سے شراب نوشی کے حوالے سے دنیا کے 37
ممالک میں ایک سروے کیا گیا جس میں پاکستان کا نمبر 35 واں ہے تاہم بعض
ایسے ممالک کو اس میں شامل نہیں کیا گیا جہاں مے نوشی کثرت سے کی جاتی
ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کا بین االاقوامی طور پر مختلف موضوعات پر اعداد
و شمار اکٹھے کرنے والے ادارے یورو مانیٹر کے حوالے سے کہنا ہے کہ برصغیر
کے لوگ دنیا بھر میں تیار ہونے والی شراب میں سے تقریبا 50 فیصد پی جاتے
ہیں اس لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ شراب بھارت میں پی جاتی ہے لیکن اگر
آبادی اور مقدار کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا کا سب سے شرابی ملک فرانس
ہے جہاں ہر شخص سالانہ 2.15 لیٹر شراب پیتا ہے۔اسی طرح یوراگوئے میں 1.77
لیٹر اور امریکا میں 1.41 لیٹر فی کس سالانہ شراب پی جاتی ہے، متحدہ عرب
امارات عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہے جہاں آبادی کے تناسب کے
لحاظ سے ہر شخص اوسطا 1.27 لیٹر فی کس شراب پیتا ہے، بھارت کا نواں نمبر ہے
جہاں اوسطا ہر شخص سالانہ بنیادوں پر 1.24 لیٹر پی جاتا ہے، اس فہرست میں
پاکستان کا 35واں نمبر ہے اور پاکستانی 0.04 لیٹر فی کس شراب پیتے ہیں جبکہ
چین میں 0.02 لیٹر فی کس شراب پی جاتی ہے۔
پاکستان اور اس کے زیر کنٹرول علاقوں میں منشیات کی خرید و فروخت اور اس کا
معاشرے میں پوری طرح سرایت کر جانا حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔آر پار
تجارت کی آڑ میں منشیات کی سمگلنگ جیسا دھندہ پروسی ملکی کے درمیان تعلقات
مذید خراب کرنے کا باعث بن رہا ہے اس عمل سے کشمیری بری طرح متاثر ہو رہے
ہیں دوسری طرف مے نوشی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 35 واں نمبر آنا بھی
کوئی اچھی علامت نظر نہیں آتی اس سلسلہ میں پالیسی سازوں کو کام کرنا ہو گا
اور حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسے دھندوں پر روک تھام کرنی
ہو گی ورنہ مستقبل میں حالات مزید خراب تر ہو نے کا اندیشہ ہے ۔
|