میری خواہش ہے کہ جب رب تعالی کی بارگاہ میں پیشی ہوں تو
فخر سے کہہ سکوں،یا میرے مولاآپ نے مجھے جہاد قلم کا شرف بخشا میں نے اس کا
حق ادا کیا، مظلوم کا ساتھ دیتے ہوئے ظالم کے خلاف ،جب قلم اٹھایا توصرف سچ
لکھا،جب زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے تو دنیا میں بسنے والے انسان نما
درندوں اور نام نہاد مجاہدوں سے خوف کس بات کا،انشاء اﷲ جب تک خون کا آخری
قطرہ باقی ہے سچ بولتا اور لکھتا رہوں گا۔
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
حق کے لیے جان دینا تو ہمارئے اسلاف کا وطیرہ ہے، یقین کیجیے تحریر لکھتے
وقت دل سے آواز آ رہی ہے میں موت سے نہیں ڈرتا میں یہ قلم اٹھائے رکھوں گا
ظلم کے خلاف ،بے گناہوں کی جان لینے والوں کے خلاف ،کرپشن کے خلاف اگر کوئی
اس دھرتی کو میلی نظر سے دیکھے گا تو یہ قلم اٹھے گا اگر امت مسلمہ مسائل
سے دوچار ہو گی تو یہ قلم اٹھے گا کیوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتا سماج کے ہر
برائی کے خلاف یہ قلم اٹھے گا مقتول کے انصاف کے لیے پاکستانی عوام اور
پاکستان کے لیے یہ قلم اٹھے گا، کیوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتاقلم کے ذریعے
جہاد کی ان راہوں پر چلتا رہوں گا چاہے شہید کر دیا جاؤں، اگر میں کسی کے
جھوٹ کے خلاف لکھتا ہوں اسے کڑوا لگتا ہے تو وہ جھوٹ چھوڑ دے کیوں یہ قلم
جھوٹ نہیں بول سکتا یہ قلم انشاء اﷲ نہیں روکے گا اگرنام نہاد جہادی ،جہاد
کی غلط تشریخ کریں گے تو یہ قلم اٹھے گا،اس جہاد کو کوئی نہیں روک پایا نہ
ہی روک پائے گاصدیوں سے جاری اس جدوجہد میں کتنے ساتھی سچ کہنے کی پاداش
میں اپنے خون کا نذرانہ دے کر اس کی حرمت کو بچا گئے۔بقول شاعر
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
گذشتہ روز نجی چینل کے تین کارکنان کو کراچی میں فرض کی ادائیگی کے دوران
شہید کر دیا ۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس کاروائی کی ذمہ
داری بھی قبول کر لی گئی ،ساتھ ہی تحریک کے ترجمان احسان اﷲ احسان کا کہنا
تھا کہ ہمیں دکھ ہوتا ہے کہ یوں معصوموں کی جان لینے پر مگر کیا کریں وہ
بھی ہمارے خلاف چلنے والی مہم کے حصے دار ہیں۔اس انوکھی منطق کوسمجھنا کوئی
مشکل کام نہیں مگر افغان طالبان کا پاکستان علماء کے نام لکھے جانے والے خط
میں کہنا تھا کہ اغواء ،بھتہ، عبادت گاہوں پر حملے ہمارا کام نہیں ،مجاہدین
ان امراض سے پاک ہیں،نام نہاد مجاہدین کی حرکات منسوب نہ کی جائیں۔ہمارا
کام کرنے کا طریقہ کار علماء کا مرتب کردہ اور تائیدہ شدہ ہے ۔مزید کہنا
تھا کہ بے گناہ انسانوں کا قتل اور دہشت گردی کے واقعات سے ہمارا کوئی تعلق
نہیں اور نہ ہی ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں،بھتہ خوری مجاہد کی شان
نہیں،امارات اسلامیہ کی پالیسی سے اچھی طرح آگاہ کرنے کے لیے چند وضاحتیں
ضروری ہیں کہ ہمارے پاس کام کرنے کے طریقہ کار کے لیے جید علماء کی جانب سے
تائید شدہ مرتب اور لائحہ عمل موجود ہے، ہر طرح کے مسائل میں تجربہ کار
شیوخ اور علماء کرام سے فتوے طلب لیے جاتے ہیں۔ آپ کے مشورے اور اطاعت کے
جذبے سے ہر کام انجام دیا جاتا ہے۔ہمارے فیصلے ہمارے جذبات کے نہیں اصولوں
کے تابع ہیں، ہم دشمن کی سازشوں کی طرف متوجہ ہیں دنیا کے حالات سے خود کو
باخبر رکھتے ہیں خط میں مزید لکھا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ عزت و ذلت
کامیابی اور ناکامی اﷲ تعالی کی جانب سے ہے ،اﷲ تعالی کی نصرت ہمارے ساتھ
اس وقت شامل حال ہو گی جب ہم اﷲ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اس کے
احکام پر عمل کریں، اﷲ کی مخلوق کو اذیت نہ دیں لہذا تمام علماء کرام صاحب
نظر لوگوں اور اہل خیر سے ہماری توقع ہے کہ کچھ خود سر دشمن کے انٹیلی جنس
اداروں کے پنجوں میں جکڑے ہوئے نام نہاد مجاہدین کی نازیبا حرکتوں کو
امارات اسلامیہ کی جانب سے منسوب نہ کریں ،جو لوگ امارات اسلامیہ کی اطاعت
بھی کرتے ہیں اور امارات اسلامیہ کی پالیسی یہی ہے جوہم نے اوپر ذکر کی ہے
اگر کوئی اس سے سرتابی کرتا ہے تو اس کا امارات اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں
اور نہ ہی ایسے شخص کو مجاہد سمجھا جاتا ہے ،اﷲ تعالی ہم اور آپ کو تمام بے
اطاعت ،جاہ طلب اور نااہل لوگوں کے شر سے محفوظ فرمائے آمین۔
اس خط میں کالعدم تحریک طالبان کا نام تو نہیں لیا گیا،لیکن باخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ افغان طالبان کا اشارہ کن عناصر کی جانب ہے ۔میں عرصہ
دراز سے یہی بات لکھتا آ رہا ہوں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا افغان
طالبان سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف زبان سے ملاعمر کی اطاعت کے ڈھول پیٹ رہے
ہیں۔دل وجان سے وہ ملاعمر کی اطاعت نہیں کرتے ۔اگر بظاہر جائزہ لیا جائے تو
تحریک طالبان پاکستان کی حرکات سے افغان مجاہدین مشکلات کا شکار ہوئے
ہیں۔کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ چند سال پہلے ملاعمر نے تحریک طالبان
پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان مخالف کاروائیوں کی وجہ سے ان کو
مشکلات کا سامنا ہے اگر ایسا ہی رہا تو افغان طالبان کمزور ہو سکتے ہیں مگر
ان کی جانب سے یہ حکم نامہ ہوا میں اُڑا دیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ
ملاعمر کی اطاعت کی باتیں صرف دنیا کے سامنے ایک ڈھونگ ہے۔تحریر کے دوران
خبر آئی ہے کہ بنوں میں فورسز پر حملہ سے 25جواں شہید اور درجنوں زخمی ہو
گئے ہیں ۔تحریک طالبان پاکستان نے ذمہ درای قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم
مزید حملے کریں گے ۔پاکستان کو کمزور کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کن
عناصر کی گود میں بیٹھ کر یہ کاروائیاں کر رہے ہیں؟دوسری طرف مذکرات کی راگ
بھی الاپ رہے ہیں۔اب وقت ہے کہ ان کے دوہرے معیار کو پاکستا نی عوام کے
سامنے عیاں کر کے قوم کو متحد کر کے کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے ۔اس بات سے
انکار ناممکن ہے کہ کسی گھر کے بچے جب باغی ہو جائیں تو ان کا سمجھایا جاتا
ہے ،اگر نہ مانے تو پھر عملی قدم اٹھائیں جاتے ہیں۔پاکستانی قوم کو متحد ہو
کر اسلام اور پاکستان دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہو گا،آرمی اور حکومت کے پیچھے
متحد ہو کر کھڑا ہونا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔اگر ہم یوں ہی بکھرے رہے تو یہ
دھرتی بھی بکھر سکتی ہے۔خدارا آنکھیں کھولیں اور ان کے مقابلے کے لیے اپنے
آپ کو تیار کر لیں۔بہت جانوں کا ضیائع ہو گیا دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ماؤں
کی گود یں اجڑ رہی ہیں۔بچے یتیم ہو رہے ہیں آخر کب تک یوں ہی چلتا رہے گا
اُٹھائیے اور بتا دیں دشمنوں کو کہ ہم ایک ہیں اور انشاء اﷲ پاکستان تا
قیامت قائم رہنے کے لیے بنا ہے کوئی اس کو توڑ نہیں سکتا ۔
میری تحریریں پہلے بھی ظالموں ،جابروں،رشوت خوروں پر بجلی بن کر گرے ۔ہم تو
امن پسند ہیں تیر سے نہیں قلم سے جہاد کرتے ہیں ان کے خلاف جو ظلم کرتے ہیں
،جو حق مارتے ہیں غریبوں کا بے سہارواں کا، لیکن یہ انشاء اﷲ اس قلم سے
جہاد کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے بھی زندہ ہیں وہ حق ادا کرتے
رہے گے وہ چند ٹکوں کے خاطر اس کو بیچ نہیں سکتے ،ظالموں کے آگے جھکے گے
نہیں،موت سے ڈرتے نہیں ہیں۔بقول شاعر
ہمارئے ذہین پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
ہم جو محسوس کرتے ہیں وہ ہی تحریر کرتے ہیں
آپ مایوس نہ ہوں انشاء اﷲ میڈیا ہی آپ کو سچ اور جھوٹ میں فرق بتائے گا،
ہمارے صحافی و کالم نگار دوست سچ کا علم اٹھائے سفید کفن باندھے گھروں سے
نکلے ہیں میں بھی انشاء اﷲ قلم کا حق ادا کرنے کے لیے اپنا تن من دھن لگا
دوں گا،میرا رب قرآن پاک میں قسم لیتا ہے قلم کی اور میں بھی اﷲ کی قسم موت
سے نہیں ڈرتا، اس کے حرمت نہ برداشت ہوتی ہے اور نہ کروں گا۔ آپ سے درخواست
ہیں کہ قلم سے جہاد کرنے والوں کے لیے استقامت کی دعاکیجیے ۔ کراچی میں
شہید ہونے والے تین کارکنوں پر سینئرصحافی اور شاعر احفا ظ رحمن کی خوب
صورت اور درد بھری نظم پر اختتام کرنا چاہوں گا۔
وہ گھر سے نکلے تو ،ان کے دامن میں
روشن دن کی امیدیں تھیں،معمول کے سارے دکھ سکھ تھے
کچھ خواب تھے جن کے سینے میں،خوش رنگ مناظر جاگتے تھے
کچھ حسرت تھی کچھ چاہت تھی،کچھ نادرای کے دکھڑے تھے
کچھ گھر داری کے قصے تھے،ننھے بچوں کی آنکھوں میں خوشیاں بھرنے کے ارماں
تھے
دفتر کی ذمے داری تھی،اس شہر کی جلتی سڑکوں کے جلتے منظر کا دکھ بھی تھا
دن بدلیں گے اس آس کا ایک دیا بھی تھا،معمول کی ساری باتیں تھیں
معمول کے یہ قصے لے کر وہ گھر سے باہر نکلے تھے،خالی ہاتھوں میں تن من کی
یہ پونجی لے کر نکلے تھے
سارے قصے سارے دکھڑے ،ساری خوشیاں سارے ارماں
پل بھر میں دھواں ہو جائیں گے ،کب سوچا تھا،تن کی چاندی سب خاک ہوئی
من کے سپنے راکھ ہوئے،کیا جرم تھا ان کے خوابوں کا،امیدوں کی ہریالی کا
کیوں خون کی ہولی نے ان پر بے دردی سے یوں وار کیا،یہ خون جو خون ناحق ہے
یہ پوچھتا ہے
قانون کے ٹھیکے داروں سے طاقت کے سب ایوانوں سے ،یہ کالک اپنے چہروں سے دھو
سکتے ہو؟ دھو پاؤ گے؟؟ |