ہر سال ہزاروں افراد ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں

پاکستان بھر میں دن بدن ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے، جس میں لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اوسطاً 15 سے 30 افراد روزانہ ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر اپنی قیمتی جانیں گنواتے ہیں اور متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔ پیر کے روز ملک کے مختلف شہروں میں متعدد افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوئے، جن میں دس سے زاید جاں بحق ہوئے اور بیس سے زاید زخمی ہوئے۔ اس سے ایک روز قبل بھی ملک کے مختلف شہروں میں تقریباً پندرہ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔اس کے علاوہ آئے روز ملک کے مختلف حصوں میں ٹریفک کے بڑے بڑے حادثات بھی پیش آتے رہتے ہیں، جن میں بیک وقت دسیوں، بیسیوں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔جیسا کہ گزشتہ ہفتے صوبہ سندھ کے ضلع نواب شاہ میں سڑک کے ایک حادثے میں سترہ طالب علموں سمیت بائیس افراد جاں بحق جبکہ 11 افراد شدید زخمی ہوئے، جن کو فوری طور پر پیپلز میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کیا گیا۔ نواب شاہ کراچی سے چار گھنٹے کی مسافت پر قومی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ حادثہ نوابشاہ میں قاضی آباد کے علاقے میں پیش آیا تھا، جہاں بچے اساتذہ کے ہمراہ اسکول سے کسی دوسری جگہ تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھےکہ ایک تیز رفتار ہیوِی ڈیوٹی ڈمپر ٹرک نے بچوں کی وین کو ٹکر ماردی۔ اسی حادثے کا شکار دوسری بس کے مسافر وں کے مطابق حادثہ ڈمپر ڈرائیور کی غفلت کے باعث پیش آیاتھا۔ جاں بحق ہونے والے تمام بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان تھیں۔ اسی طرح دو ہفتے قبل مری کے علاقے سالگراں کے مقام پر دو مسافر بسیں آپس میں ٹکرا کر 150 فٹ گہری کھائی میں جاگریں تھیں، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر بیس سے زاید مسافر جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ دونوں بسوں میں 60 کے قریب مسافر سوار تھے۔ چند روز پیشتر باراتیوں سے بھری بس الٹنے کے واقعہ سمیت کئی ٹریفک حادثات منظر پر آتے رہے ہیں اور گزشتہ سالوں میں ٹریفک کے کئی ایسے حادثات بھی پیش آتے رہے ہیں، جن میںایک ایک واقعہ میں بیسویں افراد کو موت کا منہ دیکھنا پڑا۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا جہاں ٹریفک حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال اوسطاً تیس ہزار کے لگ بھگ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں، جبکہ بعض رپورٹوں کے مطابق تقریباً سترہ ہزار سے زاید افراد ہر سال حادثات کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں اور 40 ہزار سے زاید لوگ زخمی ہو تے ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب میںسال گزشتہ 1 لاکھ67 ہزار حادثات میں 11 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 9 ہزار کے قریب لوگ معذور ہوئے۔ حادثات میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ نوجوان نسل ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 41 ہزار 297 خواتین بھی ٹریفک حادثات کا شکار ہوئیں، جن میں سے بہت سی خواتین جاں بحق ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئیں۔ بلوچستان کا آر سی ڈی ہائی وے، اسلام آباد کا سپر وے، مری کے پرپیچ راستے، سندھ میں نیشنل ہائی وے اور داخلی سڑکیں غرض یہ کہ ہر جگہ ہمیں نہ صرف حادثات کے واقعات کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں، بلکہ تمام حادثات کی وجوہات بھی یکساں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات ہونا ایک معمول کی بات ہے اور ٹریفک حادثات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کبھی بھی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثات میں بے پناہ اضافے کی عمومی وجوہات قانون کی خلاف ورزی، مخدوش سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی خراب حالت، ڈرائیوروں کی غفلت، تیز رفتاری سے گاڑیاں چلانا اور گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنا، منصوبہ بندی سے ہٹ کر بنائے گئے خطرناک موڑ اور دو رویہ سڑک کے درمیان اور اطراف میں حفاظتی جنگلے کا نہ ہونا حادثات کا موجب بنتا ہے، سی این جی کِٹس کا پھٹ جانا بھی حادثات کا ایک محرک ہے۔

واضح رہے کہ 1985ءمیں ٹرانسپورٹ اینڈ روڈ ریسرچ لیبارٹری، کروک تھارن برک شائر، برطانیہ کے اشتراک سے پاکستان میں ٹریفک حادثات پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی تھی، A.J. Downing نے ”روڈ ایکسیڈنٹس ان پاکستان اینڈ دی نیڈ فار امپرومنٹس ان ڈرائیور ٹریننگ اینڈ ٹریفک انفورسمنٹ“ کے تحت اپنی مفصل رپورٹ میں نہ صرف حادثات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی، بلکہ وہ نکات بھی پیش کیے تھے جن پر اگر دس فیصد بھی عمل کیا جاتا تو ٹریفک کے ان بڑھتے ہوئے حادثات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ 1985ءسے اب تک ٹریفک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس تناظر میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ ایک ریسرچ ٹیم بھی اس سلسلے میں قائم کی جائے جو موجودہ دور کے ٹریفک مسائل پر مبنی رپورٹ اور گزارشات مرتب کر سکے۔ کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے ٹریفک نظام پر ایک نظر ڈالنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہیں، بلکہ عوامی شعور کی بیدار ی کے لیے مختلف ادارے بھی قائم ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی ترقی میں انسانی شعور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے۔ اگر کوئی فرد کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا ہو تو اسے پہلے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی منزل تک کب پہنچے گا۔ اس کے برعکس پاکستان میں معاملہ الٹ ہے۔ آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون شہر کسی لوکل روٹ پربھی سفر کر رہے ہوں تو ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ مسافروں کا مقررہ وقت تک منزل پر پہنچنا تو دور کی بات بلکہ گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ملکی اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہیں جبکہ ہماری قوم میں قوانین پر عملدرآمد کی پاسداری نہیں کی جاتی۔

پاکستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں اندرون اور بیرون شہر لاکھوں افراد پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں ٹریفک نظام کے مسائل سے ہر خاص و عام پریشان ہے۔ ٹریفک کے نظام کا یہ حال ہے کہ بعض اوقات موٹر سائیکلیں وغیرہ فٹ پاتھوں پر چلتی نظر آتی ہیں، جبکہ راہگیر سڑک پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس اہلکاروں کا کام ٹریفک کو سنبھالنا ہوتا ہے مگر اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنی جگہ پر موجود نہیں ہوتے۔ دن میں متعدد بار ٹریفک جام ہونے سے شہریوں ، صنعت کاروں، محنت کشوں اور راہ گیروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈرائیور حضرات قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اکثر اوقات اشارے بھی توڑ دیتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار اور حادثوں کے مشاہدات اس بات کے غماز ہیں کہ ٹریفک کے زیادہ تر حادثات حد سے زیادہ رفتار اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں ٹریفک قوانین کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کی دنیا بھر میں مثالیں دی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں ٹریفک مسائل انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ملک میں ٹریفک جام، غلط پارکنگ جیسے مسائل میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ لوگوں کی اکثریت میں ٹریفک قوانین کے شعور سے ناواقفیت ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی ہرشہری پرلازم ہے۔ قانون والے سے نہیں بلکہ قانون سے ڈرنا چاہیے۔

پورے ملک میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کی مناسب تربیت ہو سکے۔ ان تربیتی اداروں میں نہ صرف ا ±ن میں ٹریفک قوانین سے متعلق شعور بیدار کیا جائے بلکہ ا ±نہیں مہذب اور بااخلاق بھی بنایا جائے۔ ادارہ سے تربیت کے بعد انہیں باقاعدہ سرٹیفکیٹ کا اجراءکیا جائے۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کو ہی کنڈیکٹر اور ڈرائیور رکھا جائے، بصورت دیگر مالکان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ اگرایک ڈرائیور تربیت یافتہ ہوگا تو یقینی بات ہے کہ نہ صرف ٹریفک کے مسائل ختم ہوں گے بلکہ حادثوں میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زاید مسافروں کو سوار کرنے پر پابندی عاید کی جائے، مسافروں کو اتارنے یا سوار کرنے کے قواعد پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے، مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کے اسٹاپس پر خفیہ کیمرے نصب کیے جائیں جن سے نہ صرف مشکوک افراد پر نظر رہے گی بلکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ٹرانسپورٹ کے خلاف کارروائی میں بھی مددگار ثابت ہوں گے، غیر ضروری پریشر ہارن یا ممنوعہ ایریا میں ہارن بجانے پر جرمانے کیے جائیں۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءکا طریقہ کار آسان بنایا جائے اور مختلف مقامات پر لائسنس کے حصول کے لیے مراکز بنائے جائیں، عوام اور ٹریفک پولیس کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے اس لیے عوامی شکایات دور کرنے کے لیے نہ صرف ٹول فری نمبر مشتہر کیا جائے بلکہ ٹریفک پولیس ہیلپ لائن کا اجراءبھی کیا جائے جس کے ذریعے عوامی شکایات سنی اور حل کی جائیں۔ فنی طور پراَن فٹ، ناقص، خستہ حال اور سست رفتار گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکا جائے۔ کمسن بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جو بھی بچہ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے پکڑا جائے ا ±س کے والدین سے رابطہ کرکے انہیں سخت تنبیہہ کی جائے۔اگرحکومت چاہتی ہے کہ ملک میں ٹریفک حادثات کنٹرول ہوجائی تو اس حوالے سے سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.