کراچی میں گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے سندھ حکومت کی
سربراہی میں شروع کیے جانے والے رینجرز اور پولیس آپریشن کے دو مراحل مکمل
ہوچکے ہیں، جن میں غیرسرکاری اعداد شمار کے مطابق اب تک بارہ ہزار سے زاید
ملزمان گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ اگرچہ آپریشن کی وجہ سے کراچی کے حالات میں
کچھ بہتری آئی ہے، لیکن دہشت گرد اب بھی کراچی میں بے گناہ لوگوں کو خون
میں نہلا کر موت کی نیند سلانے میں مشغول ہیں۔ مختلف تنظیموں اور گروہوں کے
دہشتگرد عوام اور خواص پر آزادانہ طور پر پے در پے حملے کر رہے ہیں۔ سال نو
کے پہلے ہی ماہ کے پون حصہ میں اب تک ایس ایس پی سے لے کر سپاہی تک ہر عہدے
کے اہلکاروں سمیت 18 پولیس اہلکار قاتلوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ نئے سال کا
سب سے پہلا واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا جس میں 3 پولیس اہلکار گولیوں کا
نشانہ بنے۔ 5 جنوری کو کریکر حملے میں پولیس اہلکار عبدالرحیم اور محمد خان
کوابدی نیند سلا دیا گیا۔ 7جنوری کو پولیس اہلکارعبدالخالق نامعلوم افراد
کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ 9 جنوری ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کو دو
محافظوں کامران اور عرفان سمیت قتل کردیا گیا۔ 13جنوری کو پولیس انسپکٹر
ملک اقبال کو نشانہ بنایا گیا۔ 15جنوری کو سب انسپکٹر اللہ دتا اور اے ایس
آئی ولی محمد جاں بحق ہوئے۔16 جنوری کو ہیڈ کانسٹیبل جاوید اور سپاہی آصف
سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ 19جنوری کو پولیس کانسٹیبل محمد نعمان اندھی
گولی کا نشانہ بنا۔ 20 جنوری کو چکرا گوٹھ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے
اے ایس آئی کامران شاہ قتل ہوا۔
کراچی میں دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی لہر کے پیش نظر دہشتگردوں کی کمر توڑنے
اور کراچی سے جرائم کا قلع قمع کرنے کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومت نے
آپریشن کا تیسرا اورحتمی مرحلہ آئندہ چندروز میں شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا
ہے۔ذرائع کے مطابق آپریشن کی حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے
والے اداروں میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ حکومت نے قانون نافذ کرنے
والے اداروں کو ہدایت کردی ہے کہ حساس اداروں میں کالعدم تنظیموں اور دہشت
گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت آپریشن کیا جائے۔
منگھوپیر ،اورنگی ٹاﺅن ،کورنگی ،لانڈھی ،سہراب گوٹھ ،کنواری کالونی سمیت
اہم علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کے حوالے سے قانون نافذ کرنے
والے اداروں نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو آگاہ کیا ہے ،جس کے بعد کراچی
میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا
ہے۔ذرائع کے مطابق 378اہم ملزمان کے سروں کی قیمتیں مقرر کرنے کے حوالے سے
بھی حکمت عملی مرتب کرلی گئی ہے۔پہلے مرحلے میں 100اہم ملزمان کے سروں کی
قیمتیں مقرر کی جائیں گی ،جو 5لاکھ سے شروع ہو کر 50لاکھ تک ہوں گی۔ آپریشن
کا تیسرا اور حتمی مرحلہ فاسٹ ٹریک پالیسی پر مبنی ہوگا ،جس کے تحت قانون
نافذ کرنے والے ادارے مکمل اطلاعات کی روشنی میں بڑے پیمانے پر چھاپہ مار
کارروائیاں کریں گے اور ان کو جدید آلات سمیت تمام لاجسٹک سپورٹ حاصل ہوگی۔
آپریشن کے حتمی مرحلے میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو
تمام سہولیات مہیا کی جائیں گی اور یہ آپریشن شہر کے تمام علاقوں میں
بلاامتیاز کیا جائے گا۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن وزیراعلیٰ سندھ کی نگرانی میں
جاری ہے۔ اس آپریشن کے پہلے دو مراحل قریب الاختتام ہیں۔ اب سندھ حکومت نے
تیسرے مرحلے کے لیے وزارت داخلہ سے جدید بکتر بند گاڑیاں، بلٹ پروف جیکٹس،
ہیلمٹ، موبائل جیمر، جی ایس ایم لوکیٹرز ، سی سی ٹی وی کیمرے، نائٹ ویڑن
گوگلز سمیت دیگر آلات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے، کیونکہ جدید آلات کے
بغیر کراچی میں تربیت یافتہ مسلح عناصر کی سرکوبی نہیں کی جا سکتی۔ اس
سلسلے میں سندھ پولیس کو مزید مستحکم کرنے کے لیے 300بلٹ پروف موبائل اور
100اے پی سی آرمڈگاڑیاں فوری طور پر مہیا کی جائیں گی،جبکہ ایسی 5گاڑیاں
کراچی جیل اتھارٹیز کو بھی مہیا کی جائیں گی۔ سندھ پولیس میں کمانڈوز طرز
پر ایک الگ اسپیشل فائٹر فورس قائم کی جائے گا جس کو جدید تربیت اور اسلحے
سے لیس کیا جائے گا۔ پہلے پلان کے تحت 2000 ریٹائرڈ فوجیوں کو بھرتی کرنے
کے علاوہ مزید ریٹائرڈ فوجیوں کو بھرتی کرنے کے لیے اشتہارات بھی دیے جائیں
گے، جبکہ اس وقت تک 2000میں سے 1200فوجی بھرتی کیے جا چکے ہیں۔ پراسیکیوشن
برانچ کو زیادہ مو ¿ثر اور مضبوط بنانے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ
200انویسٹی گیشن افسر اور 200لیگل پراسیکیوشن افسروں کو بھرتی کیا جائے گا،
جبکہ سندھ پولیس میں ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسر کی نگرانی میں ایک
علیحدہ پراسیکیوشن سیل قائم کیا جائے گا، جس کو پرائیوٹ وکیلوں کی معاونت
بھی مہیا کی جائے گی، تاکہ ٹارگٹڈ آپریشن کے تحت گرفتار کیے گئے ملزمان کے
کیس ہر طرح سے مکمل کرکے عدالتوں میں پیش کیے جا سکیں اور انہیں یقینی طور
پرسزا دلائی جاسکے۔
یہ یاد رہے دوروز قبل وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے قانون نافذ کرنے والے
اداروں کوکراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو مزید تیز کرنے کی ہدایت کرتے
ہوئے کہا تھا کہ سندھ پولیس کو دہشتگردوں سے نمٹنے اور آپریشن کو کامیابی
تک پہنچانے کے لیے مزید مضبوط اور موثر بنایا جارہا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کا
کہنا تھا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران ہمیں کافی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں،
جرائم کی رفتار میں کمی آئی ہیں،لیکن پھر بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ
دہشتگردوں کے ٹھکانوں کا سراغ لگاکر ان پر انتہائی ماہرانہ انداز میں ریڈ
کرکے انہیں نیست و نابود کیا جائے۔جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات نے
اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ضرور ہوا
ہے، تاہم قتل و غارت گری کی وارداتوں، اغوا برائے تاوان اور گاڑیوں کی
چھینا جھپٹی میں کمی واقع ہوئی ہے، انھوں نے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر
بھی قابو پانے کے لیے مزید بہتر کارکردگی کے عزم کا اظہار کیا اور کہاہے کہ
آپریشن کا تیسرا مرحلہ زیادہ سخت ہوگا، جس سے کراچی کے حالات مزید خراب
ہوسکتے ہیں۔ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس شاہد حیات نے ٹارگٹڈ آپریشن کی
کارکردگی کے متعلق میڈیا کو تفصیلات بھی بتائیں، جس کے مطابق یکم اپریل
سے7ستمبر2013ءکے دوران 1228کلنگ کے مقابلے میں8 ستمبرسے 2013سے 15جنوری
2014تک صرف630کلنگ رپورٹ ہوئے۔اسی طرح بیان کیے گئے وقت کے دوران بھتاخوری
کے 651کیسز کے مقابلے میں آپریشن کے دوران 393کیسز رپورٹ ہوئے اور اغوا
برائے تاوان کے 99 کیسز کے مقابلے میں 42کیس رپورٹ ہوئے، اس طرح ٹارگٹڈ
آپریشن کے دوران جرائم میں کافی کمی آئی ہے۔ اس آپریشن کے دوران گرفتار کیے
گئے ملزمان 7148کو مختلف کورٹوں میں چالان کیا گیا اور 97کو سزا
ہوئی۔221مجرموں کے ساتھ 188کیسزانسداد دہشتگردی کورٹوں میں چالان کیے گئے
ہیں، جبکہ 50دہشتگردوں کو تفتیش کے لیے90روز کے لیے بند کیا گیا ہے۔
دوسری جانب آپریشن کے تیسرے مرحلے کے پیش نظر کراچی میں حملوں کے خطرات بھی
بڑھ گئے ہیں، اسی لیے کراچی میں جیلوں کی سیکورٹی بڑھادی گئی ہے۔ حملوں کے
خطرے کے پیش نظرجیلوں کی قریبی سڑکیں بندکردی گئی ہیں، کراچی سینٹرل جیل کے
اطراف لگائے گئے موبائل فون جیمرز ہٹادیے گئے ہیں۔بکتر بند گاڑیوں کو بھی
سینٹرل جیل کے راستوں پر متعین کردیا گیا ہے۔ جیل کی طرف آنے والی شاہراہوں
کو بھی بلاکس رکھ کر بند کیا گیاہے۔ جیل کی حفاظت پر ساڑھے تین سو پولیس
اہل کاروں اور کمانڈوز کو تعینات کردیا گیا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم محمد
نوازشریف نے کراچی میں امن و امان کی صورت حال یقینی بنانے کے لیے جاری
آپریشن کا تیسرا مرحلہ شروع کرنے کی اصولی منظوری گزشتہ ماہ اور اس کے بعد
رواں سال کے جنوری میں دے دی تھی۔ وزیراعظم نے وزارت داخلہ کی رہنمائی میں
صوبائی حکومت کی قیادت میں جاری آپریشن کے اب تک کے نتائج پر اعتماد کا
اظہار کرتے ہوئے تیسرے مرحلے کی منظوری دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں بارسوخ سیاسی جماعتوں نے بے
پناہ غیر قانونی، ناجائز اور دور مار تباہ کن اسلحہ سے لیس اپنے عسکری ونگ
قائم کر رکھے ہیں، جن کی نشاندہی کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم
کورٹ میں بھی کی گئی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جن جماعتوں کے مسلح ونگز ہیں،
ان سے بات چیت کی جائے کہ وہ ان مسلح ونگز کی سرپرستی ترک کر دیں اور
سیکورٹی اداروں کو پوری قوت اور عزم سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی
کرنے دیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں
سیاسی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت نہ کرے ،تاکہ کراچی کا امن بحال ہو سکے۔
کراچی کے لاکھوں شہری جس ذہنی کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں، اس کو ختم کرنے
کے لیے سیاسی جماعتیں اپنا مثبت کردار ادا کریں، تاکہ کراچی پھر عروس
البلاد بن سکے اور اس شہر کی وہ روشنیاں دوبارہ اسی طرح چمکنے لگیں۔ |