ایک عرصے سے پاکستان کے مختلف
شہروں، علاقوں اور مضافاتی بستیوں میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی دکانوں اور سڑک
کے کناروں پر غیرقانونی کھلے پیٹرول کی فروخت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ضافے کے ساتھ ملک کے تمام صوبوں بلوچستان،
خیبرپختون خوا، سندھ اور پنجاب میں پیٹرول کی غیرقانونی فروخت انتہا کو
پہنچ چکی ہے۔ غیرقانونی فروخت ہونے والے اس کھلے پیٹرول میں سب سے زیادہ
ایرانی پیٹرول ہوتا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے گزشتہ سال حکومت
کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں استعمال ہونے والے
تیل میں 22 فیصد ایران سے اسمگل ہوکر پاکستان آرہا ہے، جس سے قومی خزانے کو
اربوں روپے کا سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ آئل کمپنیز ایڈوائزی کمیٹی کے
سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ایران کے مقابلے میں پاکستانی پیٹرول اعلیٰ کوالٹی
کا ہے، ایرانی پیٹرول گاڑیوں کے انجن کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ ایرانی
پیٹرول کے مسلسل استعمال سے انجن میں ناکنگ کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔یہ
پیٹرول زیادہ تر ایسے کنٹریکٹرز اور ڈرائیور استعمال کرتے ہیں جن کی اپنی
گاڑیاں نہیں ہوتیں۔
عوام کے لیے خطرے کا باعث بننے والے کھلے پیٹرول کے حوالے سے ہم نے کھلے
پیٹرول کے کچھ پتھارے داروں، پیٹرول پمپ مالکان، کھلا پیٹرول خریدنے والوں
اور پولیس والوں سے بات کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔ایک پتھارے پر کھلا پیٹرول
فروخت کرنے والے محمد زمان کا کہنا تھا” ایک عرصے سے میں اسی جگہ پر کھلا
پیٹرول فروخت کررہا ہوں، آج تک کسی نے بھی ہمیں یہاں سے اپنا ٹھیہ ہٹانے کو
نہیں کہا۔ہاں پولیس اور کے ایم سی والوں کو تو پیسے دینا پڑتے ہیں۔ اگر ان
کو نہیں دیں گے تو پھر وہ ہمیں ٹھیہ نہیں لگانے دیں گے۔ پولیس والوں کو لگے
بندھے پیسے تو نہیں دیتے لیکن مہینے کے ہزار پندرہ سو تو وہ لے ہی جاتے ہیں
اور کبھی کھبار پولیس والے ہم سے زبردستی اپنے موٹرسائیکلوں میں پیٹرول بھی
ڈلواتے ہیں، اگر ہم ان کے موٹرسائیکلوں میں پیٹرول نہ ڈالیں تو تھانے لے
جانے کی دھمکی دیتے ہیں، ہم غریب لوگ ہیں، ان سے لڑ تو نہیں سکتے،پیسے دینا
پڑتے ہیں۔ کے ایم سی والوں کو مہینے کے ہزار پندرہ سو روپے تو سب ہی دیتے
ہیں، ہمیں بھی دینا پڑتے ہیں، کیونکہ یہ ان کا حق ہے، اگر نہ دیں گے تو وہ
ہمیں بیٹھنے نہیں دیں گے۔“
ایک دوسرے پتھارے دارشیر خان نے بتایا:” مجھے اس جگہ پیٹرول کا ٹھیہ لگاتے
ہوئے تقریباً 2 سال تو ہوگئے ہیں، کبھی کبھی پولیس والے آکر کہہ دیتے ہیں
کہ اپنا غیر قانونی ٹھیہ یہاں سے ہٹاﺅ، ورنہ پیسے دو، اپنا ٹھیہ بچانے کے
لیے ہمیں ان کو پانچ سو، ہزار روپے دینے پڑتے ہیں، کبھی رینجرز والے ہمارا
ٹھیہ تھوڑی دیر کے لیے اٹھوا دیتے ہیں، لیکن ان کے جانے کے بعد ہم دوبارہ
وہیں لگا لیتے ہیں۔ ہمارے پاس اصلی پیٹرول بھی ہے اور ایرانی بھی ہے۔سب لوگ
جانتے ہیں کہ ایرانی پیٹرول کا معیار اچھا نہیں ہوتا، اس کے باوجود زیادہ
لوگ سستا ہونے کی وجہ سے ایرانی پیٹرول ہی ڈلواتے ہیں،کیونکہ پیٹرول ڈلوانے
والے بھی ہماری طرح ہی غریب لوگ ہوتے ہیں ،اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں
ہے ۔ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق کوئی 20، 25 روپے کا پیٹرول ڈلوا لیتے ہیں۔
سب ٹھیے والے یہ پیٹرول مارکیٹ سے سستے داموں لاتے ہیں، مارکیٹ میں سب کچھ
وافر مقدار میں مل جاتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ یوں سڑک پر پیٹرول بیچنا
خطرناک کام ہے، کوئی یہاں بم پھینک سکتا ہے اور آگ بھی لگاسکتا ہے، جس سے
یہاں موجود لوگوں کو بھی نقصان ہوسکتا ہے؟ تو اس نے کہا کہ خطرہ تو ہوتا
ہے، روزی بھی تو کمانی ہے۔ جان کا خطرہ تو اب ہر جگہ ہوتا ہے، جب موت آنی
ہوگی آجائے گی۔“ ایک اور ٹھیے والے محمد شبیر سے بات کی تو اس نے بتایا کہ”
وہ پنجاب سے روزی کمانے کراچی آیا ہوا ہے۔ یہ ٹھیہ مالک کا ہے، میں ماہانہ
تین ہزار روپے اور دو وقت کی روٹی کے بدلے یہاں سارا دن پیٹرول بیچتا ہوں۔
میرے مالک کے کئی ٹھیے ہیں ،جہاں اسی طرح لوگ تین ، چار ہزار روپے پر سارا
دن کام کرتے ہیں۔ اگرچہ یوں بوتلوں میں کھلے عام پیٹرول بیچنے سے ہمیں بھی
خطرہ ہوتا ہے اور شہریوں کو بھی خطرہ ہوتا ہے، لیکن روزی کمانے کے لیے یہ
خطرناک کام بھی کرنا پڑتا ہے۔“ کھلے پیٹرول کے ایک ٹھیے والے محمد نعمان سے
بات کی تو اس نے بتایا کہ ہم پی ایس او کے پیٹرول پمپ سے بڑے کین میں روز
کی ضرورت کے مطابق اصلی پیٹرول لے کر آتے ہیں۔ جس حساب سے ہمیں یہ وہاں سے
ملتا ہے، ہم اس سے 10، 15 روپے مہنگا عام شہریوں کو بیچتے ہیں۔ مثلاً ہم پی
ایس اور کے پیٹرول پمپ سے اگر 113 روپے لیٹر لاتے ہیں تو عام شہریوں کو 120
سے 135 روپے تک بیچتے ہیں۔ ہمارا پیمانہ بھی چھوٹا ہے اور کچھ مہنگا بھی
دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کچھ منافع ہوجاتا ہے۔ اگر اسی قیمت پر دیں تو پھر
ہمیں کچھ نہ بچے۔ روز 20-25 لیٹر پیٹرول بک جاتاہے، جبکہ ہڑتال کے دن میں
60-70 لیٹر بھی بک جاتا ہے۔ ہڑتال کے دنوں میں لوگ ہمیں دعائیں دیتے ہیں،
کیونکہ ان دنوں میں پیٹرول پمپ بند ہوتے ہیں، کہیں سے پیٹرول نہیں ملتا، ہم
سے لوگوں کی بہت بڑی ضرورت پوری ہورہی ہے، کیونکہ کسی بھی شخص کی موٹر
سائیکل میں کہیں بھی پیٹرول ختم ہوسکتا ہے، اب ہر جگہ تو پیٹرول پمپ نہیں
ہوتے، لوگ پھر ہم سے پیٹرول ڈلواتے ہیں۔ جب محمد نعمان سے پوچھا گیا کہ یوں
سڑک پر سرعام کھلا پیٹرول رکھ کر بیچنا خطرے کا باعث بن سکتا ہے؟ تو اس نے
جواب دیا کہ اس خطرے کا احساس ہمیں بھی ہے، ہم نے کاﺅنٹر پر پیٹرول نہیں
رکھا ہواہوتا، بلکہ یہ تو لوگوں کو دکھانے کے لیے رنگ ملا پانی ہے، جو
پیٹرول کی طرح نظر آتا ہے۔ ہم نے پیٹرول کاﺅنٹر کے نیچے بڑے ڈبے میں رکھا
ہوتا ہے اور کچھ کاﺅنٹر کے اوپر ہوتا ہے۔“
کھلے پیٹرول کے سرعام سڑکوں پر بکنے کے حوالے سے پیٹرول پمپ مالکان سے جب
بات کی تو ایک پیٹرول پمپ مالک تنویر احمد کا کہنا تھا کہ جگہ جگہ ٹھیہ
لگاکر ایرانی پیٹرول بیچنے والوں کی وجہ سے ہمارا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔
متعدد علاقوں کے لوگ راستے میں بیٹھے ان پتھارے والوں سے دو نمبر پیٹرول
خریدتے ہیں، کیونکہ وہ سستا ہوتا ہے اور ان سے قریب بھی پڑتا ہے۔ حالانکہ
سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ کھلا پیٹرول دو نمبر ہوتا ہے، جو گاڑیوں کے لیے
نقصان دہ ہے۔صرف ان کا پیٹرول ہی غیر معیاری نہیں ہوتا بلکہ ان کا پیمانہ
بھی عام پیمانوں کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے۔ یوں جگہ جگہ ٹھیہ لگاکر پیٹرول
بیچنا بھی غیر قانونی ہے۔ یہ کام پولیس کی سرپرستی میں چلایا جاتا ہے،
کیونکہ پولیس ان سے بھتا لیتی ہے اور بھتا لے کر ان کو کاروبار جاری رکھنے
کی اجازت دیتی ہے۔ جگہ جگہ رکھے پیٹرول کے یہ کین کسی بھی خطرناک صورتحال
کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ پولیس کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو
چاہیے کہ اس غیر قانونی کاروبار کے خلاف سختی سے ایکشن لے۔“
کھلا پیٹرول خریدنے والے ایک موٹر سائیکل سوار سے جب اس حوالے سے یہ پوچھا
کہ آپ پیٹرول پمپ کی بجائے یہاں سے کھلا پیٹرول کیوں ڈلواتے ہیں جبکہ یہ
پیٹرول اصلی بھی نہیںہوتا؟، تو اس نے جواب دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ
پیٹرول اصلی نہیں ہے، اس کے باوجود یہ پیٹرول اس لیے خریدتے ہیں کیونکہ یہ
سستا ہوتاہے،مہنگا پیٹرول خریدنے کی ہم میں استطاعت نہیں ہے اوردوسری بات
یہ بھی ہے کہ موٹرسائیکل سے پیٹرول تو کہیں بھی ختم ہوسکتا ہے، اس صورت میں
یہ ایمرجنسی پیٹرول پمپ جگہ جگہ ہماری ضرورت کو پورا کردیتے ہیں، کون
پیٹرول پمپ کو ڈھونڈتا پھرے، جو میسر آجائے وہی بہتر ہے۔“ جب اس حوالے سے
ایک پولیس والے سے بات کی تو اس نے کہا کہ” ہم نہ تو کسی پتھارے والے سے
پیسے لیتے ہیں اور نہ ہی ہمارا ان کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ ہوتا ہے، بس یہ
سوچ کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کی روزی خراب نہ ہو۔ جو نقصان قسمت میں
لکھا ہوتا ہے وہ ہوکر ہی رہتا ہے، جب موت آنی ہو آہی جاتی ہے۔“
واضح رہے ا سمگل ہونے والا ایرانی پیٹرول پاک ایران سرحد سے بلوچستان
پہنچتا ہے، جہاں سے کنٹینرز اور آئل ٹینکروں کے علاوہ بسوں کے ذریعے بھی
ملک کے دیگر علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا
سب سے بڑا صوبہ ہے، تاہم یہاں آبادی بہت کم ہے۔ بلوچستان کو کالے دھن پر
مبنی عالمی معیشت کی ایک اہم راہداری تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں اسلحہ، منشیات
، ڈیوٹی فری سگریٹ اور استعمال شدہ ٹویوٹا گاڑیوں سمیت کئی غیر قانونی
کاروبار بہت عرصے سے جاری ہیں اور ڈیزل کی اسمگلنگ بھی اسی کا ایک حصہ ہے،
لیکن ڈیزل کی اسمگلنگ دوسرے غیر قانونی کاروبار کی نسبت بہت زیادہ منافع
بخش ہو چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کاروبار میں اس قدر پیسہ ہے کہ افیون کے
کئی اسمگلر بھی اب غیر قانونی طور پر درآمد ہونے والے کم قیمت پیٹرول کی
تجارت کرنے لگے ہیں۔ ایران کی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے مند کو اسمگلنگ
کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں یہاں پر افیون کے کاروبار سے منسلک لوگوں
کا کہنا ہے کہ ہم اب افیون کیوں اسمگل کریں، جبکہ ہمیں ایرانی پیٹرول کی
اسمگلنگ سے اتنا ہی پیسہ مل جاتا ہے، یہ کام افیون کے کاروبار سے کہیں
زیادہ محفوظ ہے۔ اس کام کی وجہ سے انہیں اب کامیاب کاروباری شخصیت سمجھا
جاتا ہے نہ کہ پہلے کی طرح منشیات فروش۔ اس طرح سے پیٹرول لانا انتہائی
سستا اور زیادہ منافع بخش ہے، یہاں تمام سرحدی علاقوں میں سیکورٹی چیک
پوسٹیں موجود ہیں، لیکن ہمیں کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا تو ہم یہ کام کیوں
نہ کریں؟ذرائع کے مطابق روزانہ ایک لاکھ لیٹر کے قریب ایرانی پیٹرول
غیرقانونی طور پر اسمگل ہوکر نیو کراچی، سرجانی ٹاؤن ، بلدیہ ٹاؤن ، منگھو
پیر ، اورنگی ٹاؤن ، ملیر ، بن قاسم ، گلشن اقبال ، کورنگی ، لانڈھی، لیاقت
آباد، لیاری، سائٹ ایریا، ماڑی پور، ہاکس بے روڈ، کیماڑی، گڈاپ، شرافی گوٹھ
اور کراچی کے دیگر علاقوں میں میں آٹھ سو سے زاید غیرقانونی ڈمپنگ اسٹیشنوں
پر بک رہا ہے، جن میں سے ساڑھے پانچ سو سے زاید غیرقانونی ڈمپنگ اسٹیشن
چلانے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بااثر شخصیات ملوث
ہیں۔ ہر پتھارے پر20 لیٹر سے لے کر 100 لیٹر تک پیٹرول نہایت غیر محفوظ
انداز میں ہوتا ہے، پیٹرول سے بھری یہ بوتلیں کبھی بھی پیٹرول بم میں تبدیل
ہو کر بڑی تباہی پھیلا سکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود شہر بھر میں قائم اس
غیر قانونی کاروبار کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ ہونا پولیس، انتظامیہ
کی ملی بھگت اور غفلت کا واضح ثبوت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آئی جی سندھ آفس کی مبینہ اجازت پر کراچی پولیس ایرانی
پٹرول اور ڈیزل کے15ڈیلروں سے ماہانہ 7کروڑ روپے بھتہ وصول کررہی ہے، ایران
سے کراچی آنے والے راستوں میں پولیس اور قانون نافذکرنے والے دیگر اداروں
کی اہم چیک پوسٹیں قائم ہیں، مگر ایک بھی چیک پوسٹ پر ان گاڑیوں کو روکا
نہیں جاتا ، کراچی کے صنعتی علاقوں میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے ڈمپنگ
اسٹیشن قائم ہیں،ان ڈمپنگ اسٹیشنوں سے بھی پولیس لاکھوں روپے بھتہ وصول
کرتی ہے، ان ڈمپنگ اسٹیشنوں سے کراچی کے تمام علاقوں میں پولیس کی سرپرستی
میں کھلے عام ایرانی پیٹرول فروخت کیا جارہاہے۔ ایران سے اسمگل ہونے والے
ایرانی پیٹرول اورڈیزل کے ڈیلروں کوسی پی او سے خاص اور خفیہ اجازت نامہ
حاصل ہے، کراچی پولیس ایرانی پیٹرول اورڈیزل کے ڈیلروں سے لاکھوں روپے
یومیہ بھتہ وصول کررہی ہے، کراچی کے بڑے ٹرانسپوٹرز ایران سے کراچی آنے
والے زمینی راستوں کے ذریعے ایرانی پیٹرول اورڈیزل اسمگل کررہے ہیں جو شہر
میں کھلے عام سستے داموں فروخت کیاجارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سی پی او سے ایرانی پیٹرول اورڈیزل کی 50سے70گاڑیاں کراچی
لانے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ گاڑیاں لانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایران کے
علاقے ”چاہ بہار “اور ”بندر عباس روڈ “کے قریب علاقوں سے ایرانی پیٹرول اور
ڈیزل لایا جاتا ہے، ان علاقوں سے کراچی کے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کے ڈیلروں
کے نمائندے مسافربسوں کے خفیہ خانو ں، ٹریلروں ، پانی کے ٹینکروں اور دیگر
ہیوی گاڑیوں میں رکھ کر کراچی اسمگل کرتے ہیں، یہ گاڑیاں ایران سے مند بلو
وہاں سے تربت اور حب پہنچائی جاتی ہیں، حب میں پولیس اور قانون نافذکرنے
والے اداروں کی تین چیک پوسٹوں پر تعینات پولیس اہلکاروں اورایندھن اسمگل
کرنے والوں میں زبانی کوڈ اور ڈی کوڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس کے بعد ایرانی
پٹرول یا ڈیزل سے بھری گاڑی، ٹینکر یا ٹریلر کو کراچی میں داخلے کی اجازت
دے دی جاتی ہے، جہاں سے یہ گاڑیاں ماڑی پورروڈ اور ناردرن بائی پاس روڈ سے
شہر کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے ڈمپنگ اسٹیشنوں میں جاتی ہیں، ایرانی
پٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں جب ان سڑکوں پر آتی ہیں تو ان کا سامنا ماڑی پور،
شیرشاہ، منگھوپیر، بغدادی، ڈاکس اورجیکسن تھانوں کی پولیس سے پڑتا ہے، ان
گاڑیوں کے ڈرائیور یہاں بھی پولیس اہلکاروں کے ساتھ خفیہ کوڈ کا تبادلہ
کرتے ہیں، یہاں ایک پرچی پولیس اہلکاروں کو پیش کی جاتی ہے اور پولیس
اہلکار ا س پرچی پر لکھے نمبر اپنے ریکارڈ میں چیک کرکے اطمینان کے بعد
گاڑی کو آگے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، تھانے کا موبائل افسر ایس ایچ اوز
سے رابطہ کرکے آگاہ کر تا ہے کہ مذکورہ گاڑی اس نے اپنے علاقے سے کلیئر
کروادی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ روزانہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی 50 گاڑیاں
کراچی آتی ہیں، فی گاڑی پولیس 5ہزار روپے مبینہ بھتا وصول کرتی ہے، ایک
ہفتے میں 350 گاڑیاں کراچی آتی ہیں، اس طرح پولیس ایک ہفتے میں مبینہ طور
پر ایک کروڑ75لاکھ روپے اور ماہانہ 7کروڑ روپے بھتہ وصول کررہی ہے۔اس کے
علاوہ ہر علاقے میں قائم کیے گئے ڈمپنگ اسٹیشنوں سے بھی پولیس علیحدہ
لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتی ہے اور بھتے کے عوض ان کے ڈمپنگ اسٹیشنوں کی
نگرانی بھی کرتی ہے۔
|