مذاکرات نہیں، جنگ کیوں۔۔۔۔؟؟

نیا سال شروع ہوتے ہی ملک بھر میں دہشتگردی کی لہر نے شدت اختیار کر رکھی ہے ،روزانہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو مسلسل خودکش حملوں،ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ سے سیکیورٹی فورسز ،پولیس،سنی شیعہ علماء ،صحافیوں سمیت عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس صرف خیبر پختونخوا میں آٹھ سو تیس دہشتگردی کے واقعات ہوئے جو ۲۰۱۲ء کی نسبت ۴۸ فی صد زیادہ تھے،یوں گذشتہ دوسال کے تناسب سے رواں ماہ کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیادہشتگردی میں اب کیوں اضافہ ہو رہاہے،یہ بھی قابل توجہ امر ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی بات ہو رہی ہے جبکہ دوسری جانب دہشتگردی میں شدت کیوں۔۔۔؟؟؟ دہشتگردوں نے جی ایچ کیو ،سیکورٹی فورسز کے قریب خودکش حملے،چوہدری اسلم کونشانہ بناکر کیا پیغام دیا ہے؟یہ وہ سوال ہیں جن کوئی زیر بحث لایا جانا ضروری ہے ،ان حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول بھی کی اور ساتھ ہی متعدد سیاستدانوں ،صحافیوں اور اہم مراکز کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے ، ان سطور میں آگاہی کیلئے ’’مجھے بھی ایک نامعلوم کال موصول ہوئی جس میں مخاطب نے دھمکی آمیز انداز مین قلم نرم کرنے کا مشورہ بھی دیا اور سنگین نتائج سے بھی نوازہ‘‘خیر ہم صحافی تو ماند آب ہیں شاعر نے ان حالات ہمیں جو مرتبہ دیا وہ لائق تحسین ہے کہ
دل فروشوں کے لئے کوچہ و بازار بنے
اور جانبازوں کی خاطر دارورسن بنے

خیر ہمارا اﷲ وارث ہے کیوں کہ ہم لوگ بکتر بند گاڑیوں میں ہوتے ہیں نہ ہمارے لئے وی آئی پی سیکیورٹی ہے اور۔نہ ہی ہم قیدی بن کر رہنا چاہتے ہیں،جو رات قبر میں ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی نہ ہی موت کا خوف اورکسی لالچ میں جھک سکتے ہیں۔ ایمان و یقین کے اس مقام پر ہمیں سچائی کے اظہار سے کوئی خوفزدہ بھی نہیں کر سکتا۔ ان دنیا کے ناخداؤں کو کہہ دو کہ
اے جذبہ خوداری بکنے نہ دیا تو نے
لکھنے کیلئے ورنہ سونے کے قلم آئے

بہرحال دھمکیوں اور دہشت ذدہ ماحول میں نفس مضمون کو زیر قلم کرنا ضروری ہے کہ دہشتگردی کا اسلام میں کہیں ذکر نہ ہی ایسا عملِ تعلیم وتقلید کہیں نظر آتا ہے ۔جہاں تک طالبان کا موقف ہے کہ وہ اسلامی نظام چاہتے ہیں ،یہ ان کا مثالی اور قابل قدر موقف رد نہیں کیا جاسکتا مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا طریقہ یہی ہے کہ انسانیت کا قتل عام کیا جائے۔۔؟؟؟ہمیں کردار و اعمال سے مسلم معاشرہ تشکیل کرنا چاہئے نہ کہ جدل و جدال اس کا راستہ ہے ۔پھر ہم ایک مسلم ملک میں بسنے والے ہیں ہمیں اتحاد و اتفاق سے کردارسازی کرنے کی ضرورت ہے ۔مختصراً ساری بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ طالبان کا موقف اور عمل باہم متضاد ہیں ۔شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سے معلوم ہوا کہ ــ’’طالبان اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں مانتے اور ہمیں کفار کی صف میں کھڑا کر کے قتل کرنا ثواب سمجھتے ہیں‘‘۔

بلاشبہ ہماری معاشرت اسلامی نہیں،مغربیت نے گھر گھر ڈیرے ڈال رکھے ہیں،بد دیانتی ،جھوٹ ،فریب ،مکاری،خوشامدی ،انسان دشمنی نے ہمارے معاشرے کو زوال پذیری کا شکار کر رکھا ہے اسی معاشرتی ناہمواری سے استحصالی ٹولے نے معیشت کو کمزور کر دیا ہے ۔سماجی برائیوں سے پورا سماج دائم المرض کی کفیت میں مبتلا ہو چکا ہے ۔قومی سطح پر ہمیں بے شمار مسائل نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا، جن میں مہنگائی ،بے روزگاری،غربت،جہالت،بد نظمی اور دولت کے غیر مساویانہ تقسیم کا نظام ہمارے گھر گھر خوفناک دستک دے رہا ہے ۔ایسے حالات میں ’’دانا دشمن نادان دوست سے بہترہے‘‘کے فارمولے پر ہی کوئی راہ تلاش کی جا سکتی ہے ۔مان لیا کہ طالبان اسلامی نظام لانے کے خواہاں ہیں۔۔!!کیا ان ’’نادانواں‘‘کے پاس معاشی اصلاحات کا کوئی فارمولا ہے جس کی روشنی میں یہ حقیقی تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔نعروں اور جذباتی ماحول پیدا کرنے سے مسائل حل ہوتے تو پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی کمی نہیں ،دِرایَت کی ضرورت ہے جو طالبان میں نظر نہیں آتی۔طالبان کے جاری عمل سے اسلام کی تشریخ بدل رہی ہے ،اس پر غیرضروری بحث بے فائدہ ہے مگر اتنا کافی ہوگا کہ نا حق قتل اسلام نے منع کیا ہے جس کے مرتکب کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ہاں اگر کوئی خوف و ڈر سے معافی کا اعلان کر دے پھر بھی قیامت کے دن خون نا حق بولے گا ۔طالبان حالیہ واقعات سے یہی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ طاقت کے بل بولتے پر ریاستی نظام درہم برہم کر سکتے ہیں،انہیں یہ سچائی تسلیم کرنا ہو گی کہ ان کے دہشتگردرویہ سے عوام بے زار اور انتہائی نفرت کرتے ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ اسوہ رسول ﷺ کا مطالعہ اور خلفاء راشدین کی طرز زندگی پر توجہ دیں،حیوانی طاقت و جبر سے فرعون و ہامان،امراء مکہ،یزید لعین ،ماضی قریب کے چنگیز خان،ہلاکو خان ،پہلی و دوسری جنگ عظیم کے جارح،دور حاضر میں امریکی توسیع پسدانہ عزائم ،بھارتی مظالم اور ان سے ملتے جلتے آمرانہ ،جابرانہ طرز حکمرانی کے نتائج انتہائی عبرتناک رہے، اسلام نے امن ،مکارم اخلاق اور عوامی آراء کو مقدم رکھ کر فلاحی معاشرہ تشکیل دیا،لیکن اس کے برعکس طالبان نے جو طرز عمل شروع کر رکھا ہے اسے کسی بھی نقطہ پر درست نہیں کہا جا سکتا،انہیں ریاستی آئین و قانون میں رہ کر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے منشور و اہداف عوام کے سامنے رکھیں اور عوامی آراء کو قبول کر کے جمہوری طرز عمل سے تبدیلی لائیں لیکن حالات خود ان کی غلط حکمت عملی سے انہیں نشان عبرت بنا رہے ہیں اگرسحکومت آج ریفرنڈم کا اعلان کرئے کہ طالبان سے مذاکرات یا جنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں تو ننانوے فی صد عوام جنگ کرنے کے حق میں فیصلہ دے گی کیوں۔۔َ؟؟؟آج تک عوام یہ نہیں سمجھ پا رہی ہے کہ آخر طالبان کیا چاہتے ہیں ۔۔؟َ؟؟عالم فاضل نہیں ہوں کہ فتویٰ صادر کر دوں۔۔۔۔ بہر حال امام کعبہ نے گذشتہ ماہ ایک بیان میں صاف کہہ دیا ہے کہ’’طالبان کو جہنم میں جانے کی بڑی جلدی ہے‘‘ان کے اس فتویٰ سے واضح اخذ ہوتا ہے کہ طالبان کہاں کھڑے ہیں۔۔؟؟؟اگر یہ کہاجائے کہ اسلام کو سب سے زیادہ کس نے نقصان پہنچایاہے تو صاف نظر آّتا ہے کہ ان نام نہاد اسلام کے لبادے میں انسانیت کے دشمنو ں نے غیر مسلموں کو متحد کرنے کا موقع دیا ۔اب بھی وقت ہے کہ یہ اپنے قول و فعل کو اسلامی طرز فکر سے ہم آہنگ کرکے اسلامی معاشرت کی بنیاد استوار کریں ورنہ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تامل ناڈو،سکھ انتہاپسندوں اورملک دشمنوں کی طرح صف میں کھڑا کر کے للکارا جائے گا تو پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بنسری۔۔۔۔۔!!!!
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.