قارئین حیرت کی بات یہ ہے کہ جب میرا گزشتہ کالم
''کرفیو اور پابندی'' میرے معزز قارئین نے پڑھا تو وہ سر ُدھنتے ہی رہ گئے،
اور انہوں نے اپنا فیڈ بیک یوں بیان کیا کہ ''ہمیں آج معلوم ہوا کہ آپ اتنے
بڑے مفکر ہیں اور آزاد خیال مفکر'' ایک انتہائی پڑھے لکھے اور ذمہ دار دوست
نے کہا کہ '' آپ کی تجویز کردہ تمام پابندیوں سے مجھے اتفاق ہے، بالخصوص
قرآن حدیث اور فقہ اسلامی پر پابندی کی جو بات کی ہے وہ میرے دل کی بات کی
ہے۔پلیز آپ نے وعدہ کیا ہے کہ کن کن چیزوں کی آزادی ہونی چاہیے ان پرلکھنے
کا، تو آپ اپنے وعدے کا جلد وفا کریں، کیونکہ بہت جلد ہی ایک اعلی سطحی
میٹنگ تجاویز دینے کے لئے بلائی گئی ہے تو میں آپ کی تجویز کردہ
''پابندیاں'' اور'' آزادیاں'' ارباب حل و عقد اور صاحبان بست و کشاد کے
سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، مجھے امید ہے کہ وہ آپ کی تجاویز من و عن نافذ
کریں گے، پھر دیکھ لینا کہ ہم ترقی کے منازل کیسے طے نہیں کرتے اور گلگت
بلتستان کیسے امن کا گہوارہ نہیں بن جاتاہے'' مجھے قارئین کے فیڈ بیک پر
حیرت تو ہوئی،تاہم ایفائے عہد کے لیے بیٹھا ہوں۔ اختصار سے کام لیا جائے
گا۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ دنیا کے سب سے عظیم و کامیاب حکمران فاروق اعظم
نے فرمایا تھا کہ '' انسان بنیادی طور پر آزاد پید اہوا ہے''۔اور مغرب کا
عظیم دانشور روسو نے کہا تھاکہ'' انسان آزاد پیدا ہوتاہے لیکن وہ ہر جگہ
زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے''۔ میں کوشش کرونگا کہ ان فرمودات کی روشنی میں آج
کے دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند آزادیاں تجویز کروں، تاہم ان
دونوں اکابرکا زمانہ بہت پرانا تھا، اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ ان کے
خیالات کیا تھے آزادی کے متلعق، لہذا میں تواپنے انداز میں آج اور آنے ولے
کل کی بات کرونگا۔تاکہ ہم ان تجویز کردہ آزادیوں سے فائدہ اٹھا کر آرام و
سکون سے ترقی کے منازل طے کرتے چلے جائیں۔ہماری حکومتی دانش گاہوں میں مکین
احباب سے گزارش ہے وہ مذکورہ آزادیوں کو عملی جامہ پہنانے کی مکمل کوشش
کریں۔ ہمیں مغرب کی آندھی تقلید کی آزادی ہونی چاہیے،قرآن و حدیث اور فقہ
اسلامی و اکابرو اسلاف کی علمی توضیحات کی من مانی تشریحات کی آزادی ہونی
چاہیے،الحادو کفریہ نظریات کی تبلیغ و ترویج کی مکمل آزادی اور سرمایہ
دارانہ نظام کے تمام زریں اصولوں کی آزادی ہونی چاہیے، مثلاََحلال حرام کی
تمیزکئے بغیر مال و دولت بنانے کی آزادی، مزدورکے حقوق غصب کرنے کی
آزادی،سرکاری اداروں میں کرپشن کی آزادی،نااہل افراد کا اعلی عہدوں پر
تقرری کی آزادی، پڑھے لکھے بالخصوص پوسٹ گریجوٹ کی پولیس میں بھرتی کی
آزادی،کذب و افتراء سے بھرے متنوع اخباری بیانات کی آزادی، جھوٹ کو سچ اور
سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی آزدای،خواہ مخواہ کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے کی
آزدای،مخلوط تعلیمی اداروں کی آزادی،سرکاری خزانے کو لوٹنے کی آزادی،ایمان
دار آفیسروںکے تبادلے اور انہیں ذلیل کرنے اوربے ایمان، کمزور اور مفاد
پرست آفیسروں کو آگے لانے کی آزادی،اے جی پی آر کے لونڈوں کے سامنے
پروفیسروں اور علم کی روشنی سے منور کرنے والے استادوں اورلیکچراروںکا جھک
کر سلام کرنے اور ان کی مٹھیاں بھرنے کی آزادی، امن کے نام پر بے تحاشا
روپیوں کو بٹورنے کی آزادی، مختلف مسالک کے بے گناہ لوگوں کو چن چن کر
مارنے کی آزادی ہونی چاہیے، دیکھنے میں آیا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت یہ
تمام آزادیاں خوب استعمال کررہی ہے۔ ماشاء اللہ۔ میری گزارش ہے کہ وہ اپنے
حوصلے پست نہ کریں بلکہ اس تسلسل کو جاری و ساری رکھیں، اور مزید آزادیوں
کے لئے عملی اقدام کریں، مثلاََ ہمارے ہاں جنسی ملاپ کی آزادی، شراب وکباب
کی آزادی،ہم جنس شادی کی آزادی،معبد خدا سے مکمل بیزاری کی آزادی،شیخ و ملا
کی تضحیک کی آزادی،انڈین کلچراور مغربی بود وباش کی ترقی کی آزادی،فحش
لٹریچر کی آزادی، فحش فلموں کی آزادی،فحش لباس کی آزادی،فحش کلام کی
آزادی،انسانوں کی سمگلنگ کی علی اعلان آزادی،معصوم بچوں کو بیرون ممالک
منتقل کرنے کی آزادی،افیون ،چرش،بھنگ،پاؤڈر اور نشئی انجکشن کی کھلے عام
آزادی، نائٹ کلبوں کی آزادی،بازار حسن کی آزادی،مجرے اور مخلوط ڈانس کی
آزادی،مساج سینٹروں کی آزادی،عصمت نسواں کو تار تار کرنے کی آزادی، شرفاء
کی پگڑیو ں کو اچھالنے کی آزادی،ہسپتالوں میں غیر انسانی حرکتوں کی آزادی،
مردوں کے گردے ، آنکھیں، دل اور دیگر اعضاء سرے عام بیچنے کی آزادی،مساجد و
مکاتب کو گرانے کی آزادی،علمی کتابوںکی ضبطی کی آزادی،روشن خیالی کے نام پر
حلقہ احباب دین و دانش کے خیالات،طرز زندگی،لباس اور زھد و تقویٰ کا ٹھٹھے
کی آزادی،طز و مزاح اور Jock اور کومیڈی پروگراموںکے نام پرنوجوان بیٹوں ،
بہنوں اور بچیوں کو نامحرم مردوں کے تلذذ و تلطف کے لئے اسٹیج میں مسخرے
کرنے کی آزادی،ان کے سر پرشفقت بھرے ہاتھ رکھنے کی آزادی بلکہ کن انکھیوں
سے انہیں دعوت گناہ اور اس پر عملی جامہ پہنانے کی آزادی اور عورت کو مرد
کے شانہ بشانہ بلکہ سینہ بسینہ کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یقین کریں کہ
اگر ہمیں مغرب کی ایجاد کردہ ان آزادیوں سے مکمل استفادہ کرنے کا موقع ملا
تو ہم آن کی آن میں تیسری دنیا کے ممالک کی صف سے اُٹھ کر ترقی یافتہ ممالک
کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔امریکہ ،روس اور برطانیہ کی مسلسل ترقی کا راز
ہی ان آزادیوں کا مسلسل استعمال ہے، اور ہماری تنزلی اور انحطاطی کا سبب73ء
کا اسلامی آئین، قرار داد مقاصد،دینی لٹریچر، سیرت نبوی ۖ، اسلام کا سنہرا
ماضی،آباو اجداد کا علمی ورثہ،آپس میں اتحاد و محبت، ہمدردی، اسلامی و
مشرقی معاشرتی اقدار،قرآن کی آفاقی تعلیمات اور فقہ اسلامی ہے۔آپ قوم کو ان
تمام سے آزاد ی دلاکر دیکھیں ، پھر ہم کیسے آسمان سے تارے توڑ کر نہیں لاتے
ہیں۔رہی بات اب تک ہم زندہ ہیں تو اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں، مثلاََ اسلام
کی تقسیم در تقسیم، آپس کا تفرقہ بازی،دین کی من مانی تشریح، کھبی کھبار
مسجد و ملا کی تضحیک،اسلامی علوم سے پہلو تہی، مدارس اسلامیہ کی انہدامی،
مغربی کلچر کی آبیاری،امریکہ کی چاپلوسی،برطانوی روایات کا آزادی کے بعد
بھی تسلسل سے جاری،منہ ٹیرھا کرکے انگریزی دانی،اپنے مسلم بھائیوں کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کے لئے مختلف آئیر بیسوں کی فراہمی،امریکی ڈالروں کی فراوانی
وغیرہ وغیرہ، اگر یہ باتیں نہ ہوتی تو ہم کب کے پتھر کے دور میں جاچکے
ہوتے۔ میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ اختصار سے کام لونگا ورنہ میرے پاس
آزادیوں اور پابندیوں کی ایک لمبی تفصیل ہے، اگر پالیسی میکر ضرورت محسوس
کریں تو میں کسی بھی وقت ان کی خدمت عالیہ میں پیش کرنا فخر سمجھونگا۔ مکرر
عرض ہے کہ میری تمام تجویز کردہ ''پابندیاں'' اور'' آزادیاں'' نیک نیتی پر
مبنی ہیںاور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں لہذاکسی کو ان میں فتور نکالنے
کی قطعی آزادی نہیں ہے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ اس کا فتور عقل
سمجھاجائے گا اور اس پر''پابندی ''نہیں'' کرفیو'' لگایا جائے گاایسا کرفیو
کہ اس میں نرمی بھی نہیں ہوگی۔اللہ ہمار ا حامی وناصر ہو۔آمین |