وہ دو عورتیں اور پانچ بچے تھے ۔سب
کے سب سہمے ہوئے تھے اور چھپتے پھر رہے تھے ۔اورجب کچھ نہ بن پڑا تو انہوں
نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔معلوم ہوا کہ وہ سب کے سب بے گناہ تھے اور پولیس
سے بچنے کی خاطر خود کو چھپا رہے تھے مگر پولیس کا خوف اتنا غالب ہوا کہ
تذلیل سے بچنے کی خاطر کو د گئے ۔انکا گنا ہ صر ف اتنا تھا کہ ان کے رشتے
دار پولیس کو کسی مقدمے میں مطلوب تھے اور ان کو گرفتار نہ کرسکنے کی بنا
پر وہ ان کو گرفتار کرکے لے جانا چاہتے تھے ۔ان عورتوں اور بچوں کو یہ
گوارا نہ تھا کہ پولیس ان کے ساتھ اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرے۔اسی طرح
شک کی بنا پر کسی بھی راہ چلتے جوڑے کو گرفتار کر کے مرد وخواتین کی تذلیل
کرنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ آئے روز حوالات میں تشدد کی بنا پر انسانوں
کا قتل پولیس کا خاصہ بن چکا ہے ۔پنجاب کے مختلف علاقوں میں500کے قریب
پولیس کے نجی ٹارچر سیلز کی موجودگی ،لوگوں کو حبس بے جا میں رکھنے اور غیر
انسانی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات اوراسی قسم کے سینکڑوں معاملات
پولیس کلچر اور تھانہ کلچر میں تبدیلی کے نام پر ایک طمانچہ ہے ۔یہ تمام
سیلز پولیس افسران کی آشیر باد سے چل رہے ہیں ۔جبکہ سیاسی گرکوں اور کرپشن
کرنے والے ’’معززین‘‘ کے بنگلے اورکوٹھیاں بھی اس کا حصہ ہیں جہا ں پر
گناہگار کم اور بے گناہوں کو زیادہ رکھا جاتا ہے :اپنی انا ،نام نہاد خود
داری یا پھر اپنے قبیح اعمال پر پردہ ڈالنے کیلئے یہاں پر محبوس رکھے گئے
لوگوں پر غیر انسانی اور وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے اور پھر دوران تشدد ہلاک
ہونیوالوں میں سے اکثر کی لاشیں غائب کردی جاتی ہیں جس کا سارا الزام
ایجنسیوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پھر مذکورہ بالا واقعات
انسانی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔اور پولیس نام آتے ہی بے گناہ اور شریف
عوام کا رنگ زرد ہو جاتا ہے اور خوف کی پرچھائیاں بسیرا کر لیتں ہیں اوربے
گناہ انسان اپنی معصوم زندگی پر کھیل جاتا ہے۔
آئی جی پنجاب خان بیگ نے حال ہی میں آر پی اوز میٹنگ میں اس با ت کا اعادہ
بھی کیا ہے کہ وہ موجود مسائل کی گھمبیر صورت حا ل محکمہ پولیس کیلئے
الارمنگ ہے اور 2014کا سا ل ان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ماڈل پولیس سٹیشن
کا قبلہ بھی درست کرنے کی طرف متوجہ ہونے کی بھی ضرورت ہے۔کیونکہ ماڈل
پولیس سٹیشن جس Baseپربنائے گئے جو ان کا Themeتھا ان کے بر عکس چل رہے
ہیں۔جہاں پر تھانہ کلچر جوں کا توں رائج ہے جہاں پر ہر بدمعاش ،رسہ گیر
،چوراچکے اور گناہگار کو کرسی پیش کی جاتی ہے او رہر شریف اور بے گناہ کو
زمین پر بیٹھایا جاتا ہے۔ماڈل پولیس سٹیشن کیلئے ایک مخصوص رقم سائلان کی
انٹر ٹینمنٹ کیلئے مختص کی گئی تھی جوکہ صرف اورصرف شاہ خرچیوں اور اپنے
اللے تللوں میں جھونک دی جاتی ہے ۔اسی طرح پولیس ناکے اور چوکیاں بنانے کے
مقصد قریبی عوام کو ریلیف مہیا کرنا ہوتا ہے الٹی گنگا کی طرح چل رہے ہیں
موجودہ دور میں پولیس ناکہ کا مقصد عوام کو پریشانی اور تکلیف میں مبتلا
کرنے کے سوا کچھ نہیں۔پولیس ناکے کے ناک کے نیچے اکثر ڈکیتیوں اور چوریوں
کی واردات روز کا معمول ہیں۔پولیس ناکہ پر موجود اہلکار /کسی موٹر سائیکل
والے کو ،ٹریکٹر ٹرالی ،ٹرک یا دودھ والے کو پکڑ کر کھڑ ا ہوتا ہے۔اوراپنی
جیب کو گرم کر رہا ہوتا ہے حتی کہ ایک غریب کسان جو اپنے کھیت سے سبز یوں
کی ایک بوری لادکر فکر معاش میں نکلتا ہے تو ’’ شیر جوان‘‘ اس کو روک کر
اپنے حصے کو وصول کرنا فرض اولین سمجھتا ہے۔
ضلع لودہراں کا تھانہ کلچر بھی درج بالا تمام خصوصیات سے ’’مزین‘‘ ہے۔نئے
تعینات شدہ ڈی پی او علاقے میں سدھار اور امن و امان کی صورت حال کو بہتر
کرنے کا عزم صمیم کئے ہوئے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ یہاں پر عرصہ20,25 سال سے
تعینات ایک مخصوص لابی ہے۔ جن کی روٹس تمام مکاتب فکر میں موجود ہیں۔ پولیس
تو ان کا اپنا ڈیپارٹ منٹ ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اکابرین،تاجران،رسہ گیرو
جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ ان کے اکثر کریمنلز سے بڑے اچھے’’ تعلقات ‘‘ ہیں۔
اور پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ فائدہ مند تعلقات ختم نہ ہو جائیں۔یہی وجہ
ہے کہ جب کبھی اوپر سے پریشر پڑتا ہے تو پھران اشتہاریوں کو تو پھر بھی
پابند سلاسل نہیں کیا جاتا۔ ہاں البتہ خانہ پری کرنے کیلئے ان اشتہاریوں،
رسہ گیروں یا جاگیرداروں سے کچھ لوگ مانگ لئے جاتے ہیں اوران کو ان
اشتہاریوں کا ساتھی بنا کر پیش کردیا جاتا ہے اور آل از اوکے کی رپورٹ دے
کر weldone وصول کرلیا جاتا ہے۔یہاں پرایک اور فیکٹر بڑا سنجیدہ ہے کہ اگر
کسی پولیس افسر سے کسی بابت سوال کرلیا جائے یا اس سے بحث میں الجھ لیا
جائے تو پھر اس بحث کرنے والے کو ایسے الجھا دیا جاتا ہے یا کم از کم اس کی
کوشش کی جاتی ہے کہ آئندہ سے وہ کسی پولیس افسر سے بات کرتے ہوئے کسی بار
سوچتا ہے ۔یہ تھانہ کلچر generally develope ہوچکا ہے۔
کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ پولیس و الے بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کے بھی مسائل
ہوتے ہیں۔ان کی بھی خواہشات ہوتی ہیں۔ مجبوریاں ہوتی ہیں۔سب بجا۔ لیکن اگر
پولیس صرف اور صرف اپنے رویے ہی تبدیل کرلے توبہت سے مسائل دونوں طرف سے حل
ہوسکتے ہیں۔شریفوں کے ساتھ شرفا کا سلوک،بدمعاش کے ساتھ پولیس کا رویہ ہی
اپنا لیا جائے تو میں دعوی سے کہتا ہوں کہ بہت سے نام نہاد ٹاؤٹ اور معمولی
چور اچکے تو ہی سدھرجائیں گے۔مثلا اگر شریف کو تھانہ میں کرسی ملے اور
بدمعاش یا گناہگار کو کھڑا کیا جائے تو یہ رویہ بہت سوں کو سیدھا کر سکتا
ہے۔صرف اور صرف عمل اور تھوڑے سے حوصلے کی ضرورت ہے اور ڈی پی او لودہراں
اس معاملے کو بہترانداز میں ہینڈل کرسکتے ہیں۔ |