متعدد ممالک میں سال کے اختتام
پر گرینڈ سیلز لگائی جاتی ہیں، جس میں ہر برانڈ کی معیاری اشیاءسستے نرخوں
پر فراہم کی جاتی ہیں۔ بیرون ممالک میں چونکہ کسی بھی چیز کے فروخت کرنے کا
ایک مقررہ اور متعین وقت ہوتا ہے،اس وقت کے بعد کوئی تاجر اس چیز کو فروخت
نہیں کر سکتا، چاہے وہ کافی اچھی حالت میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس خسارے سے بچنے
کے لیے وہاں کے تاجر حضرات ایسا کرتے ہیں کہ جو معیاری سامان وقت مقررہ میں
بک نہیں پاتا، اسے بعدازاں ڈسکاﺅنٹ سیل کے نام پر سستے داموں عوام کو فروخت
کردیتے ہیں۔ یا پھر بیرون ممالک میں سال کے اختتام میں گرینڈ سیلز لگاکر ہر
برانڈ کی اشیاءسستے نرخوں پر اس لیے فروخت کی جاتی ہیں، تاکہ اس سامان سے
وہ لوگ بھی مستفید ہوسکیں جن کے پاس مہنگی اشیاءخریدنے کی گنجائش نہیں
ہوتی،ان لوگوں کی سہولت کے لیے بہت سی کمپنیاں اور شخصیات شہرت حاصل کرنے
کے لیے اپنے طور پر عین معیاری سامان ڈسکاﺅنٹ سیل کے نام پر فروخت کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً مختلف کمپنیوں اور دکانوں کی جانب سے مختلف
برانڈ کے حوالے سے چینلز، اخبارات ، سائن بورڈز اور پینا فلیکس کے ذریعے
سیل سیل سیل کی تشہیر کی جاتی ہے۔تشہیر کے دوران اکثر 50فیصد
ڈسکاﺅنٹ،70فیصد ڈسکاﺅنٹ،75فیصد ڈسکاﺅنٹ،90فیصد ڈسکاﺅنٹ کے الفاظ آویزاں
ہوتے ہیں۔ عوام کو اپنی اشیاءکی جانب راغب کرنے کے لیے اس قسم کی تشہیرپر
بے تحاشہ پیسا خرچ کیا جاتا ہے۔ اشتہار کے مطابق اتنے زیادہ ڈسکاﺅنٹ کو
دیکھ کر ایک عام شہری ان اشیاءکو خریدنے میں دلچسپی لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مختلف کمپنیوں اور دکانوں کی جانب سے مختلف برانڈ کو ڈسکاﺅنٹ سیل کے نام پر
فروخت کرنے کے لیے کہیں تو پورا سال اور کہیں ہر سیزن کے اختتام پرلوگوں کو
اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ کچھ شاپنگ مراکز پر
واقعی معیاری اشیاءمجبوری کے تحت رعایتی نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں، ٍجب
کہ اکثر جگہوں پر ناقص اور غیر معیاری اشیاءکو سستا کرکے سیل کے نام پر
بیچا جاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ جگہ اشیاءکو بے حد مہنگا کرنے کے
بعد چند سو روپے سستا کرکے اسے سیل کا نام دے دیا جاتا ہے، جب کہ سب سے اہم
بات یہ ہوتی ہے کہ سیل لگانے والے چند مراکز کے سوا کہیں بھی خریدا ہوا مال
واپس نہیں لیا جاتا، چاہے اس میں کتنا ہی بڑا کوئی نقص پایا جائے، لیکن اس
کے ساتھ بہت سے شاپنگ مراکز پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں واقعی لوگوں کی
سہولت کے لیے سیل لگائی جاتی ہے اور 10سے 20فیصد ڈسکاﺅنٹ دیا جاتا ہے۔ اس
قسم کی لگنے والی سیلز کے حوالے سے معروف کمپنیوں کی جانب سے سیل لگانے
والے دکان مالکان،لوکل دکان مالکان اور شہریوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا
جس میں انہوں نے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔
ایک معروف جوتا کمپنی کی ایک دکان کے مالک جاوید احمد سے بات ہوئی تو ان کا
کہنا تھا کہ سال میں وقتاًفوقتاً سیل اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ جو مال کسی
سیزن میں نہیں بک سکا، وہ مال سیل کے نام پر سستا کرنے سے بک جائے۔ کمپنی
اپنا اصل منافع چونکہ سیزن کے اندر ہی حاصل کرلیتی ہے اور جو مال سیزن میں
نہیں بک سکتا وہ اگر سیزن کے بعد سستا بھی بک جائے تو اس سے اشیاءبھی آسانی
سے فروخت ہوجاتی ہیں اور کمپنی یا دکان کو کوئی نقصان بھی نہیں ہوتا۔ اس
لیے مختلف کمپنیاں اور دکانیں سال میں وقتاً فوقتاً سیل لگاتی رہتی ہیں۔ ہر
کمپنی و دکان کے سیل لگانے کا اپنا الگ طریقہ کار ہوتا ہے۔ہماری کمپنی کی
تمام برانچیں ایک سال میں 3 بار مقررہ وقت پر سیل لگاتی ہیں،کمپنی سیل
لگانے کے لیے پورے ملک کے لیے ایک ہی وقت مقرر کرتی ہے، کمپنی کی تمام
برانچوں کے لیے اسی مقررہ وقت میں سیل لگانا ضروری ہوتا ہے۔ کمپنی ہی پورے
ملک میں اپنی کمپنی کی تمام دکانوں پر سیل کا سامان (جوتے) فراہم کرتی ہے
اور کمپنی ہی ہر سیمپل کا ریٹ مقرر کرتی ہے کہ کتنا ڈسکاﺅنٹ دینا ہے۔ کمپنی
کی طرف سے اکثر 75یا50فیصد ڈسکاﺅنٹ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس ڈسکاﺅنٹ کا
مطلب یہ نہیں کہ کمپنی کے تمام جوتوں میں 70یا75فیصد ڈسکاﺅنٹ ہے، بلکہ اس
کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چند جوتوں میں 75 فی صد ڈسکاﺅنٹ ہے، باقی میں اس سے
کم ہوتا ہے ، یعنی ڈسکاﺅنٹ ایک فی صد سے لے کر 75 فیصد کے درمیان تک ہوتا
ہے۔ زیادہ تر جوتوں میں ڈسکاﺅنٹ 30 فی صد سے کم ہوتا ہے۔ اعلان چونکہ 75 فی
صد کا لگا ہوتا ہے اس لیے لوگ 75 فی صد ڈسکاﺅنٹ دیکھ کر لپکے آتے ہیں اور
جب ایک بار کسٹمر دکان پر آگیا تو وہ کچھ نہ کچھ خرید کر ہی جاتا ہے، کیوں
کہ اکثر خریدار گھر سے پیسے خرچ کرنے کے مقصد سے ہی آتے ہےں اور کچھ نہ کچھ
لینے ہی آتے ہیں۔ اگر انہیں سیل میں لگے سامان سے کچھ پسند نہ آئے تو وہ
ریگولر قیمت پر اشیاءخریدتے ہیں۔ اسے یہ بھی کہا جاسکتا کہ سیل لگانے کا
مقصد کسٹمرز کو شاپنگ مراکز تک لانا ہوتا ہے کیوں کہ جب ایک بار کسٹمرز
شاپنگ مراکز تک آجاتے ہیں پھر کچھ تو انہیں خریدنا ہی ہوتا ہے۔یہ بھی
کاروبار کا ایک طریقہ ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ
سیل کا مال سستا ملتا ہے، اسی وجہ سے بہت سے لوگ سیل لگنے کا انتظار کرتے
ہیں، اکثر یہ لوگ مستقل گاہک ہوتے ہیں۔ کمپنی سیل کے حوالے سے اخبار و ٹی
وی اشتہارات کے ذریعے بہت تشہیر کرتی ہے۔ جب اس قسم کے لوگ ان اشتہارات کو
دیکھتے ہیں تو خودبخود شاپنگ مراکز تک آجاتے ہیں تو پھر ہمارا مال آسانی سے
بک جاتا ہے۔
ایک دوسری معروف جوتا کمپنی کی ایک دکان کے مالک آصف کا اس حوالے سے کہنا
تھا کہ ہماری کمپنی سال میں چار بار ملک بھر میں سیل لگاتی ہے۔ سیل لگانے
کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو غیرمعیاری یا معیاری مال سیزن میں نہیں بک سکا،
سیزن کے بعد اس کو اگر سستا کرکے بیچیں گے تو ظاہر ہے لوگ سستا مال خریدتے
ہیں۔کسی بھی چیز کے فیشن کا ایک سیزن ہوتا ہے، جب وہ سیزن نکل جاتا ہے تو
فیشن بھی ختم ہوجاتا ہے، اب اس سیزن میں پروان چڑھنے والے فیشن کا جو مال
ہمارے پاس بچ گیا ہے، اگر وہ کچھ اور وقت نہ بکے تو اس کے بکنے کی امید ختم
ہوجاتی ہے اور یہ ہمارے لیے گویا کہ ناکارہ ہوجاتا ہے،کیوں کہ لوگ پرانے
فیشن کی چیزیں نہیں خریدتے۔اب اس سامان کو بیچنے کے لیے ہمیں مجبوراً ان
اشیاءکو سستا کرکے بیچنا پڑتا ہے۔جب وہ اشیاءسستی ہوجاتی ہیں تووہ لوگ جو
سیزن میں فیشن کے مطابق مہنگی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ سیزن
کے بعد ان ہی چیزوں کو سستے داموں خرید کر اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔وقتاً
فوقتاً سیل لگانے کا ایک مقصد عوام کو اپنی کمپنی کی اشیاءکی طرف راغب کرنا
بھی ہوتا ہے، تاکہ سیل کے نام پر زیادہ سے زیادہ لوگ کمپنی کا مال
خریدیں۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ سیل کے مال میں ناقص اور گھٹیا مال بھی
ہوتا ہے یا صرف عمدہ اور معیاری مال ہی ہوتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بہت
سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ سیل مراکز پر مال گھٹیا اور
غیر معیاری ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات سو فیصد درست نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے
کہ سیل میں سارا مال عمدہ ہی ہوتا ہے، کچھ ناقص اور گھٹیا مال بھی ہوتا ہے،
کیوں کہ کمپنی کو تو اپنا سارا مال ہی نکالنا ہوتا ہے، کمپنی ایسا تو نہیں
کرسکتی کہ عمدہ مال بیچ دے اور ناقص مال ضائع کردے، اس سے تو کمپنی کو
نقصان ہوجائے گا۔ویسے بھی جو پروڈکٹس معروف و مشہور کمپنیوں کی ہوتی ہیں ان
میں عوام کو کم ہی دھوکادیا جاتاہے،کیوں کہ یہاں ہر کام کمپنی کی نگرانی
میں ہورہا ہوتا ہے، جب کہ لوکل اورعام دکانوں کی لگی سیلوں میں عوام سے سیل
کے نام پر کافی زیادہ فراڈ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ لوکل دکانیں جہاں سارا
سال سیل لگائی جاتی ہے وہاں بھی اکثر عوام سے دھوکا کیا جاتا، جس کا مقصد
عوام کو بے وقوف بنانا اور زیادہ سے زیادہ مال بٹورنا ہوتا ہے۔وہاں اکثر
ناقص اور گھٹیا مال سیل کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے۔
جوتوں کی ایک لوکل دکان کے مالک رمضان نے بتایا کہ ہم سیزن میں اپنا مقرر
کردہ منافع حاصل کرکے نیا مال لانے کے لیے بچا ہوا پرانا مال جلدی بیچنے کی
غرض سے سیل لگا دیتے ہیں اور یہ سیل اس وقت تک لگاکر رکھتے ہیں جب تک یہ
سارا مال بک نہیں جاتا۔بچا ہوا مال سستے داموں فروخت کرنا ہماری مجبوری
ہوتی ہے، کیوں کہ یہ مال آﺅٹ آف فیشن ہوتا ہے یا پھر ناقص اور گھٹیا مال رہ
جاتا ہے، اس لیے ہم اسے جلدی جلدی نکالنا چاہتے ہیں اور سستا بھی بیچتے
ہیں، اگر ہم سستا نہیں بیچیں گے تو لوگ اسے خریدیں گے ہی نہیں اور کچھ عرصے
کے بعد یہ دکان میں جگہ گھیرنے کے سوا کسی کام کا نہیں رہے گا، اس لیے اسے
جلدی نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ لوگ بھی سیانے ہوتے ہیں، ان کو بھی پتا ہوتا ہے
کہ سیل میں وہ اشیاءبیچی جاتی ہیں جو غیرمعیاری رہ جاتی ہیں،اس لیے لوگ سیل
لگائی ہوئی اشیاءکی مقرر کردہ قیمت سے بھی کم میں خریدنے پر بحث کرتے ہیں
کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیل لگائی ہوئی اشیاءبیچنا ہماری مجبوری
ہوتی ہے۔ ایک لوکل دکان کے مالک جواد نے بتایا کہ ہم دو قسم کا سامان لے کر
آتے ہیں۔ جو اعلیٰ قسم کا مال ہوتا ہے اس کو مہنگا اور زیادہ قیمت پر فروخت
کرتے ہیں، جو گھٹیا، دو نمبر اور سستا مال لاتے ہیں، اس کو سیل کے نام پر
فروخت کرتے ہیں۔ لوگ بھی چونکہ دو قسم کے ہوتے ہیں، کچھ لوگ مہنگا سامان
خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں،ٍجب کہ کچھ غریب لوگ ہوتے ہیں وہ مہنگا مال
نہیں خرید سکتے، اس لیے وہ سیل سے مال خریدتے ہیں۔ مہنگائی چونکہ زیادہ سے
زیادہ ہورہی ہے، اس لیے اکثر لوگوں کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ
مہنگا مال خریدیں، اس لیے وہ سستا اور سیل کے نام پر ہی مال خریدتے ہیں،
چاہے وہ ناقص اور گھٹیا ہی کیوں نہ ہو۔اس سے سستے داموں ان کا شوق پورا
ہوجاتا ہے۔ سیل لگائے ہوئے ایک کپڑے کی دکان کے مالک نسیم سے اس حوالے سے
بات کی تو اس کا کہنا تھا کہ ہمارا سیل لگانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے
ریگولر کسٹمرز کے لیے سہولت فراہم کی جائے، اسی لیے ہم جب سیل لگاتے ہیں تو
اپنے ریگولر کسٹمرز کو موبائل اور ای میل کے ذریعے ضرور مطلع کرتے ہیں، ان
میں سے اکثر سیل شدہ مال خرید بھی لیتے ہیں۔سیل کا مقصد مزید نئے کسٹمرز کو
اپنی طرف راغب کرنا بھی ہوتا ہے، کیوں کہ جب کوئی ایک بار ہمارے پاس آجاتا
ہے تو اسے ایک بار مال سستے داموں دے کر آیندہ بھی آنے کی ترغیب دیتے
ہیں،بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایک بار ہم سے سامان لے کر گیا،
لیکن بعد میں وہ ہمارا ریگولز کسٹمر بن گیا۔
ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے ملازم نے بتایا کہ متعدد ڈیپارٹمنٹل اسٹورز پر
ایسا بھی ہوتا ہے کہجب کسی چیز کی مدت استعمال (ایکسپائر ڈیٹ) ختم ہونے کے
قریب ہوتی ہے تواسٹور انتظامیہ ان اشیاءکو سیل کے نام پر بیچنا شروع کردیتی
ہے اور سب سے پہلے اپنے ریگولر کسٹمرزکو موبائل یا ای میل کے ذریعے اسٹور
میں سیل لگنے کی اطلاع دیتی ہے،جس کے بعد بہت سے خریدار اسٹور سے
ایکسپائرسامان سستا ہونے کی بنا پر خریدلیتے ہیں، ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا
کہ اس سامان کی مدت استعمال ختم ہوچکی ہے، اسی ناقابل استعمال سامان کو یہ
لوگ عرصہ تک استعمال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ اس کی مدت استعمال اسی وقت ختم
ہوچکی تھی جب اسٹور والوں نے یہ سامان انہیں فروخت کیا تھا۔ایسا بھی ہوتا
ہے کہ اسی قسم کے ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر پیک سامان کو مدت استعمال ختم ہونے
پر کھول کر سیل کے نام پر سستا بیچ دیا جاتا ہے، کیونکہ پیک شدہ سامان کو
کھول کر بیچنے سے اس کی مدت استعمال کا پتا نہیں چل سکتا۔
اس حوالے سے مختلف سیل پوئنٹ پر آئے خریداروں سے بھی بات ہوئی۔شہریوں نے
مختلف تاثرات کا اظہار کیا۔ایک دکان پر آئے محمد نبیل کا کہنا تھا کہ
دکانوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً سیل لگانے سے عوام کو کافی فائدہ ہوتا ہے،
کیوں کہ ہر شخص تو مہنگی چیز نہیں خرید سکتا اور ہر ایک کو اپنی ضرورت بھی
پوری کرنا ہوتی ہے۔اس حوالے سے وقتا ً فوقتاً سیل لگانا اچھا اقدام ہے۔یہاں
اگرچہ مال کچھ ناقص ہی ہوتا ہے لیکن ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے۔اعجاز احمد کا
کہنا تھا کہ وقتاً فوقتاً سیل لگانے سے بہت سے لوگو ں کا بھلا ہوجاتا ہے،
اگر کوئی چیز ایک ہزار روپے کی ہے تو سیل میں وہ پانچ سو روپے کی مل جاتی
ہے۔ ہر شخص اپنے پیسے بچانا چاہتا ہے۔اسی لیے لوگ سیل کے مراکز سے دھڑا دھڑ
سامان خریدتے ہیں۔نعمان منیر کا کہنا تھا کہ” سیل“ میں کچھ اشیاءبڑھیا اور
کچھ گھٹیا ہوتی ہیں۔ سیل میں خریدی گئی مہنگی اور معیاری اشیاءسستے داموں
مل جاتی ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی ہی قیمت بڑھ جاتی ہے ، کچھ پیسوں
کی بھی بچت ہو جاتی ہے ۔ جب کہ کچھ حضرات کا کہنا تھا کہ ”سیل“ کی وجہ سے
لوگ وہ چیزیں بھی خرید لیتے ہیں جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی،اس سے فضول
خرچی بڑھتی ہے ،غیر ضروری اشیاءگھر کا بجٹ بھی ڈسٹرب کرتی ہیں۔ سیلز کا
مقصد عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا ہے، پہلے اشیاءمہنگی کر دی جاتی ہیں اور
پھر کچھ سو روپے کم کرکے انہیں سیل کا نام دے دیا جاتاہے اور ایسا بھی ہوتا
ہے کہ سیل کے نام پر انتہائی گھٹیا مال فروخت کیا جاتا ہے، اگر اس گھٹیا
سامان پراعتراض کیا جائے تو کہتے ہیں کہ سیل میں تو ایسا ہی مال ہوتا ہے،
تھوڑے پیسوں میں اعلیٰ قسم کا سامان تو نہیں دے سکتے۔ |