حضرت مولانا محمد یوسف
کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ
فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنا یہ قصہ سنایا اور فرمایا میں
ایک مرتبہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ چٹائی پر تشریف فرما تھے میں
اندر جا کر بیٹھ گیا تو میں نے دیکھاکہ آپؐ نے صرف لنگی باندھی ہوئی ہے اور
اس کے علاوہ جسم پر اور کوئی کپڑا نہیں ہے اس وجہ سے آپؐ کے جسم اطہر پر
چٹائی کے نشان پڑے ہوئے ہیں اور مٹھی بھر ایک صاع (ساڑھے تین سیر) جو اور
کیکر کے پتے ( جو کھال رنگنے کے کام آتے ہیں) ایک کونے میں پڑے ہوئے ہیں
اور ایک بغیر رنگی ہوئی کھال لٹکی ہوئی ہے ( اتنا کم سامان دیکھ کر) میری
آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے حضورؐ نے مجھ سے فرمایا کیوں روتے ہو؟اے
ابن الخطاب! میں نے عرض کیا اے اﷲ کے نبیؐ میں کیوں نہ روؤں جب کہ میں دیکھ
رہا ہوں کے چٹائی کے نشانات آپؐ کے جسم اطہر پر پڑے ہوئے ہیں اور گھر کی کل
کائنات یہ ہے جو مجھے نظر آ رہی ہے ادھر کسریٰ وقیصر تو پھلوں اور نہروں
(دنیا کی فراوانی) میں ہوں اور اﷲ کے نبیؐ اور برگزیدہ بندے ہو کر آپؐ کی
یہ حالت آپؐ نے فرمایا اے ابن الخطابؓ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ
ہمارے لئے آخرت ہو اور ان کے لئے دنیا ۔
قارئین! ایک وقت تھا کہ جب اخلاقی اور تہذیبی روایات ملک ومعاشرے میں اتنی
مضبوط ہوتی تھیں کہ رزق حلال کما کر کھانے والے کسی بھی انسان کو انتہائی
قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یہ وہ وقت تھا کہ جب کبھی کسی اخبا ر میں
کسی بھی سرکاری افسر کے متعلق اگر ایک کالمی خبر بھی اس حوالے سے لگ جاتی
کہ یہ افسر راشی ہے یا بددیانت ہے تو پورا معاشرہ اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ
سے دیکھتا تھا اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی شرفاء پرہیز کیا
کرتے تھے یہ وہ وقت تھا کہ جب ملک میں ’’مڈل کلاس‘‘ نامی طبقہ ریڑھ کی ہڈی
کا کردار ادا کررہا تھا اس طبقے میں پروفیسرز، وکلاء، ڈاکٹرز، سرکاری
ملازمین سے لے کر دیگر پڑھے لکھے لوگ شامل تھے پھر وطن عزیز میں ایک وقت
ایسا آیا کہ جب ملک سے بہت بڑی تعداد میں لوگ محنت مزدوری کرنے کے لئے
بیرون ممالک چلے گئے مڈل ایسٹ، یورپ ، امریکہ سے لے کر برطانیہ تک الغرض
پوری دنیا میں کئی ملین کشمیری اور پاکستانی بہتر روزگارکی تلاش میں ملک سے
ہجرت کر گئے لیکن جوں ہی یہ لوگ ان ممالک میں خوشحال ہوئے تو انہوں نے وطن
میں موجود اپنے والدین اور اہلخانہ کی بھرپور مالی معاونت اور سرپرستی کی
یہ ہمارے معاشرے کاایک ٹرننگ پوائنٹ تھا تیزی کیساتھ ایک ایسا طبقہ بھی
ابھرا کہ جسے صحافتی زبان میں ’’نو دولتیہ‘‘ کہا جاتا ہے یہاں ہم آپ کو
بتاتے چلیں کہ پاکستان سے باہر جانے والے کئی ملین افراد میں سے 95فیصد لوگ
وہ تھے جو لوئر مڈل کلاس یا انتہائی غریب اور ان پڑھ طبقے سے تعلق رکھتے
تھے ان لوگوں کی محنتوں کی نتیجے میں وطن میں موجود ان کے اہل خانہ جب ’’نو
دولتیے‘‘ بنے تو ایک عجیب وغریب قسم کا معاشرتی سانحہ وجود میں آیا ان
نودولتیوں نے اپنی امارت کا رعب جھاڑنے کے لئے عجیب وغریب قسم کی حرکتیں
شروع کر دیں اور ان اوٹ پٹانگ شرارتوں کے نتیجے میں اخلاقی بگاڑ اور
معاشرتی تباہی کی بنیاد رکھ دی گئی ان نو دولتیوں نے مہنگی اور پر تعیش
رہائشگاہیں بنائیں، مہنگی گاڑیاں خریدیں، مغربی ثقافت کی فضول انداز میں
پیروی کی اور معاشرے کا وہ مڈل کلاس طبقہ کہ جو اخلاقی روایات پر ایمان کی
حدتک یقین رکھتا تھا اس طبقے میں احساس کمتری نے جنم لیا اور اگلی قسط شروع
ہو گئی سرکاری افسروں سے لے کر چھوٹے ملازمین تک اور پرائیویٹ نوکریاں کرنے
والے نوجوانوں سے لے کر چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے افراد تک دولت حاصل
کرنے کا جنون عام ہو گیا اور اس جنون کی زد میں تمام اخلاقی روایات جل کر
خاک ہو گئیں حرام اور حلال کی تمیز مٹ گئی ملک میں رشوت ستانی عام ہو گئی،
بلیک مارکیٹنگ بزنس کہلانے لگی اور اخلاقی روایات کی پاسداری کرنے والا
طبقہ تیزی کیساتھ سکڑنے لگا اور وہ لوگ کہ جو اخبار میں اپنی کرپشن کے
متعلق ایک سطری خبر چھپنے پر معاشرتی نفرت کا نشانہ بنتے تھے اب وہ ہر قسم
کی تنقید سے بے نیاز ہو کر مال حرام کے پانی کے پرنالے کے نیچے کھڑے ہو گئے
اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ’’سب ننگے ایک ہی حمام میں تھے‘‘ اخلاقی
روایات اور مذہب پر اب بھی ایک اقلیت دل سے یقین رکھتے ہوئے اپنے راستے پر
چلتی رہی اور انہیں ان لوگوں نے مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے ’’مولوی اور
ملا‘‘ کا خطاب دے کر ان کا مذاق اڑانے کی حرکتیں شروع کر دیں۔ اس تمام
سانحے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام معاشرتی روایات کا جنازہ نکل گیا یہاں ایک
سائنسی حقیقت بھی ہم آپ سے ڈسکس کرتے چلیں جس کا تعلق مذہب اور اخلاقیات کے
ساتھ ہے یہ بات سائنسی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ لقمہ ء حرام انسان کے اندر
جنیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے اور اس کے اثرات انسان کی نسلوں تک مرتب
ہوتے ہیں آپ نے اکثر یہ بات مشاہدہ کی ہو گی کہ بڑے بڑے حرام خوروں کی
اولادیں انتہائی بگڑی ہوئی ہوتی ہیں اور جزاء وسزا کے نظام خدا وندی کا یہ
کرشمہ تو دیکھیے کہ وہ آدمی کہ جو اپنی اولاد کو اپنی جان پر ظلم کرتے ہوئے
رشوت، ڈاکہ زنی اور دیگر کرپشنز کرتے ہوئے بہتر سے بہتر زندگی مہیا کر رہا
ہوتا ہے وہی اولاد یا تو معذور بن جاتی ہے اور یا پھر غنڈہ یا ڈاکو بن کر
اپنے اسی باپ کے لئے عذاب کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔
قارئین! اس حوالے سے ہم نے ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر کے ایک انتہائی
مقبول پروگرام ’’فورم 93 ود جنید انصاری‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ گورنمنٹ
کالج آف ایجوکیشن افضل پور میں رکھا افضل پور کے متعلق ایک مختصر تاریخی
حقیقت آپ کو بتاتے چلیں کہ میرپور سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر جاتلاں،
کھڑی شریف، پیرا شاہ غازی المعروف دمڑیاں والی سرکارؒ اور پوری دنیا میں
مشہور عارفانہ کلام ’’ سیف الملوک‘‘ کے مصنف میاں محمد بخشؒ کے مزارات کے
بالکل قریب کا یہ علاقہ تقسیم ہند سے پہلے گوبند پور کہلاتا تھا ہندو
اکثریت کے اس علاقے میں میجر راجہ محمد افضل نے آزادی کی جدوجہد شروع کی
اور شہادت کا مرتبہ حاصل کرتے ہوئے گوبند پور کو آزاد کروا لیا آج میجر
راجہ محمد افضل شہیدؒ ہی کے نام پر یہ علاقہ افضل پور کہلاتا ہے اس علاقے
میں آزاد کشمیر کا سب سے بڑا کالج آف ایجوکیشن قائم کیا گیا ہے جہاں کے
موجودہ پرنسپل پروفیسر عبداﷲ خان نیازی ہیں ہم نے جس موضوع پر بات کرنا تھی
وہ کچھ یوں تھا کہ ’’اپنے ارد گرد مثبت سوچ اور کہانیوں کی تلاشFinding
Positive Stories around us‘‘ تھا یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم نے اس
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے محسن آزاد کشمیر کے
موجودہ عہد کے سب سے بڑے ماہر تعلیم پرنسپل ایلیمنٹری کالج میرپور افضال
بیگ کو بھی مدعو کر لیا اور اس موضوع پر بات کرنے کے لئے ان سے خصوصی
درخواست کی ہم پائلٹ ہائی سکول نمبر1میرپور میں 1989-90 میں میٹرک کی تعلیم
حاصل کرنے کے دوران جہاں آزاد کشمیر کے سب سے مشہور ’’مولا بخش
ایکسپرٹ‘‘سائنس ٹیچر ماسٹر لطیف کی ’’ محبتوں یا ڈنڈوں ‘‘سے لطف اندوز ہوتے
رہے وہاں ہمارے لئے تپتے صحرا میں ایک نخلستان کی حیثیت رکھنے والے ماسٹر
افضال بیگ کی ذات کسی نعمت سے کم نہ تھی بلاشبہ ماسٹر افضال بیگ نے ہمیں
کتابوں اور تعلیم کیساتھ محبت کرنا سکھایا اور ا خلاقی روایات کی اہمیت کے
ننھے بیج کو اپنے کردار سے وہ دھوپ اور نمی عطا کی کہ آج ہم اخلاقی روایات
ہی کو کسی بھی انسان کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھتے ہیں۔ جملہ معترضہ کے طور پر
ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ مسلم کانفرنس کے دور حکومت میں جب محترمہ ناہید
طارق صاحبہ وزیر تھیں تو اس دور میں افضال بیگ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے
محکمہ تعلیم ہی میں کام کر رہے تھے اور ان کے دفتر کاایک چپڑاسی وفات پا
گیا انتہائی غریب بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے اس چپڑاسی کے بھائی کو
افضال بیگ نے انسانی ہمدردی کے تحت اعلیٰ اخلاقی روایات کی پاسداری کرتے
ہوئے سروس رولز کی روشنی میں اس کی پوسٹ پر بھرتی کر لیا جس پر محترمہ
ناہید طارق ناراض ہو گئیں اور اس ناراضگی کا نتیجہ افضال بیگ کی وادی نیلم
جیسے آزاد کشمیر کے آخری علاقے میں ٹرانسفر کی شکل میں سامنے آیا خیر اﷲ
امیروں اور وزیروں کو بھی عقل سلیم دے اور اقرباء پروری کی لعنت سے اس وطن
کو نجات دلائے۔
قارئین! گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن افضل پور میں ریڈیو پروگرام کے دوران ہم
نے یہ سوال کیا کہ کیا ہمارے پاس آج رول ماڈلز ختم ہو چکے ہیں کہ ہم نوجوان
طبقے کو پیروی کے لئے کوئی عملی نمونہ دکھانے سے قاصر ہیں اس پر مرزا افضال
بیگ انتہائی شفقت سے مسکرائے اور کہنے لگے کہ آزاد کشمیر میں سب سے پہلا
کارڈیالوجی سنٹر کروڑوں روپے اپنی جیب سے خرچ کر کے بنانے والے حاجی
محمدسلیم کیا ہمارے رول ماڈل نہیں ہیں؟درجنوں مرتبہ ہڈیوں کے فریکچر ہونے
کے باوجود گورنمنٹ ہائی سکول سیکٹر ایف ون کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم
کرانے والے راجہ راشد تراب کیا ہمارے رول ماڈل نہیں ہیں؟اپنی جان کی قربانی
دے کر سینکڑوں سٹوڈنٹس کی جان بچانے والا بچہ اعتزاز حسن کیا ہمارا رول
ماڈل نہیں ہے؟اور اسی طرح کیا بل گیٹس کی ستائش اور تحسین حاصل کرنے والی
مرحومہ پاکستان کی ذہین ترین بچی ارفع کریم ہماری آئیڈیل نہیں ہے تو بتائیں
کون ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان رول ماڈل کی تعریفیں کرنے اور ’’زبانی
جمع خرچ یعنی Lip Service‘‘کرنے کی بجائے ان کے کردار اور سیرت پر عمل
کریں۔
قارئین! یہاں ہم آپ کو مختصراًیہ بتاتے چلیں کہ حال ہی میں ہم نے پاکستان
میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین
ڈاکٹر عطاء الرحمن، سابق صدر آزاد کشمیر راجہ ذوالقرنین خان، میرپور
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمن اور
میرپور ڈویلپمنٹ اتھارتی کے سابق چیئرمین سماجی ورفاعی شخصیت چوہدری محمد
حنیف کا ایک تاریخی مشترکہ انٹرویو کیا ڈاکٹر عطا ء الرحمن نے رول ماڈل کے
حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریمؐ کی ذات پاک ہر مسلمان کاآئیڈیل
اور رول ماڈل ہے اور دنیاوی حوالے سے میرا رول ماڈل دس سال کی عمر تک مجھے
تعلیم وتربیت فراہم کرنے والے میرے استاد ماسٹر تجمل حسین میرے رول ماڈل
ہیں جنہوں نے میری ذہنی اور فکری تربیت کی۔ سابق صدر آزاد کشمیر راجہ
ذوالقرنین خان نے بھی نبی پاکؐ کی ذات اقدس کو اپنا رول ماڈل قرار دیا اور
دنیاوی حوالے سے اپنے والد محترم کو اپنارول ماڈل قرار دیا اور کہا کہ میں
نے اپنی آنکھوں سے اپنے والد محترم کے کردار کی مضبوطی اور اصولوں کی
پاسداری کودیکھا ہے ڈاکٹرعطاء الرحمن نے اپنی گفتگو کے دوران پاکستان میں
خود کش دھماکے کرنے والے لوگوں کو انسانیت کادشمن قرار دیا اور نوجوان نسل
کوپیغام دیا کہ بظاہر ’’ شہادت ‘‘کا سلوگن دہراتے ہوئے خود کش دھماکے کرنے
والے یہ دہشتگرد ہر گز رول ماڈل نہیں ہیں اور نوجوان نسل کوچاہیے کہ کسی
بھی فرد کو اپنا رول ماڈل بنانے سے پہلے اس کے ’’ٹریک ریکارڈ‘‘ کو بغور
دیکھ لیا کریں اس سے دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ سابق صدر
راجہ ذوالقرنین خان نے کہا کہ مذہب کا نام لیتے ہوئے خود کش دھماکے کرنے
والے ان دہشتگردوں سے میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ خود کش دھماکے کرنے کا
پیغام دیتے ہوئے ان دہشتگردوں کا رول ماڈل کون ہے کیوں ہمیں تو ہمارے پیارے
نبیؐ نے زندگی اور انسانیت کاسبق دیا ہے اور ایک انسان کی جان بچانے کو
پوری انسانیت بچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
قارئین!اس وقت وطن عزیز انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور سیاسی قیادت
اپنے اپنے مفادات کی ڈفلیاں بجا رہی ہے یہاں ہم بقول چچا غالب یہ کہتے چلیں
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبہء دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
وہ بد خو، اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مخصتر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
اُ دھر وہ بدگمانی ہے، اِدھر وہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف برطرف، نظارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
قارئین!اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے او ر مختلف چیلنجز کا مقابلہ
کر سکے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اپنے رول ماڈلز کی زندگیوں کا مطالعہ
کریں او ر ان کے کردار کی روشنی میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں یہی
وقت کی ضرورت ہے ۔
ٓآخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ڈاکٹر نے انتہائی سنجیدگی سے مریض کو دیکھتے ساتھ ہی کہا
’’ میں مریض کی آنکھ دیکھ کر اس کی بیماری بتا سکتا ہوں تمہاری دائیں آنکھ
لگ رہا ہے کہ تمہیں تپ ِ دق کی بیماری ہے ‘‘
مریض روہانسا ہو کر بولا
’’ ڈاکٹر صاحب میری یہ آنکھ تو نقلی ہے ‘‘
قارئین مرزا افضال بیگ جیسے آزادکشمیر کے موجودہ عہد کے سب سے بڑے ماہر
تعلیم کے ساتھ سیاسی مگر مچھوں نے جو سلوک کیا ہے لگتا ہے کہ ان سیاسی
رہنماؤں کے دلوں کی جگہ پتھر اور آنکھوں کی جگہ کچھ او ر نصب ہے کاش ہماری
قوم جوہر قابل کی قدر کرنا سیکھے اور ان سے رہنمائی اور فیض حاصل کرے ۔آمین
۔ |