آزادی۔۔بہرحال ایک نعمت ہے

چند روز پہلے ہم نے اپنے ملک کا ۶۵ واں یوم آزادی بے حد جوش و جذبے سے منایاہے۔ یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا یعنی بقول قائد اعظم محمد علی جناح ایک ایسا ملک جو فقط زمین کا ایک ٹکڑ ا نہیں بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ ہو، جہاں مسلمانانِ ہند اپنی اقدارو روایات کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں ۔ مگر غور کیجیئے کہ آج چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو سکے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بر صغیر پاک وہند میں دو بڑی قومیں آباد تھیں یعنی مسلمان اور ہندو۔ مسلمانانِ ہند نے متحد ہو کر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔ مگر قیام پاکستان کے بعدہم پاکستانی قوم بننے کی بجائے سندھی، پنجابی، بنگالی، بلوچی اور پٹھان قومیتوں میں بٹ گئے۔ اور آج ۶۵ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بطورایک قوم یعنی پاکستانی اپنا تشخص قائم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔

حصولِ پاکستان کا ایک اہم مقصد برطانوی و ہندو سامراج سے آزادی تھا۔ مگر پچھلی کئی دہائیوں سے ہم خود کو امریکہ کے حوالے کیے ، اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں امریکی ڈکٹیشن کو جزولازم بنائے بیٹھے ہیں اور تقریبا ہر معاملے میں امریکی "رہنمائی" کے محتاج ہیں۔ وہ ہندوطرزـ رہن سہن اور تہذیب و اقدار جواس وقت ہمارے لیے کرب و بے چینی کا باعث تھا، آج اپنے ٹی وی چینلز کے ذریعے اسی ثقافتی یلغار کو خوش آمدید کہتے گلے لگائے ہوئے ہیں۔ علیحدہ وطن کا حصول ہم نے اپنی نوجوان نسل کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کیا تھامگر آج اس ملک میں نوجوان نسل کو اقربا پروری ، بے روز گاری ، لا قانونیت اور میرٹ کی پامالی جیسے تحائف دیئے بیٹھے ہیں۔ ہم نے ہندو بنیے سے تو آزادی حاصل کر لی مگر پوری قوم کو عالمی بنئیے آئی - ایم -ایف کے شکنجے میں کسنے میں پیش پیش رہے۔وہاں ہندوستان میں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت آبرو کو خطرات لاحق تھے۔یہاں ایک طرف تو ہم قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے حوالے کیے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف داخلی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں دہشتگردی، چوری، ڈکیتی، قتل و غارت معمول بن چکے ہیں کہ کوئی بھی شہری محفوظ نہیں ۔

ملک کی معاشی حالت یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بنک آئے روز معیشت کی گرتی ہوئی صورتحال کا واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں اور کارباری حضرات اپنا سرمایا اور صنعتیں پاکستان سے ارد گردکے ممالک میں منتقل کر رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش جیسا ملک کارخانے لگانے کے لیے پاکستانی سرمایہ کاروں کو بہتر آپشن دکھائی دیتا ہے اور اب تو بھارت نے بھی پاکستانیوں کے لیے سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔

آبادی کی شرح میں بے تحاشہ اضافے کے مقابلے میں وسائل دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں ، جس سے غربت،مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ صارفین کے لیے بجلی گھنٹوں کی بجائے منٹوں کے حساب سے دستیاب ہے مگر بلوں میں آئے روز اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ پچھلے ۶۵ سالوں سے سیاستدان حصول اقتدار کی جنگ میں باہم دست و گریباں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی افواج کو اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کے لیے ہی چار بار "زحمت "کرنا پڑی ۔ کئی دہائیاں پہلے بھی نام نہاد لیڈران نے بنگالی کارڈ کا استعمال کر کے اپنا ہی ملک گنوا دیا - آج بھی ہم سندھی اور بلوچی کارڈز کی گردان کیے اپنے ملکی استحکام کے درپے ہیں۔ دنیا مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں کوشاں ہے اور ہمارے اعٰلی سطحی حکومتی اجلاس اس بات پرغوروفکرمیں مصروف ہیں کہ عید کے روز بجلی جائے گی یا نہیں( حالانکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ’’ بجلی آئے گی یا نہیں‘‘)

اگرچہ ملک کی داخلی و خارجی صورتحال بے حد مایوس کن ہے مگر اس کے باوجود ہمیں اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ ایک ایسا ملک جو رمضان المبارک کی 27 ویں شب وجود میں آیا ، اس کے قائم ودائم رہنے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی کئی بھنور مملکت پاکستان کی راہ میں حائل تھے اور پیشن گوئی کی جارہی تھی کہ خاکم بدہن پاکستان چند ماہ بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ آج ۶۵ سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان نا صرف قائم و دائم ہے بلکہ مجموعی طور پر ۱۹۴۷ء سے بہت بہتر حالت میں موجود ہے۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب آزادی کے بعدپاکستان کے پاس انڈسٹری نہیں تھی ۔ تمام کارخانے اور صنعتیں بھارتی علاقوں میں موجود تھیں ۔ پاکستان دنیا بھرکی کل پیداوار کا ۷۵ فیصد پٹ سن پیدا کرتا تھامگر اس کے پاس پٹ سن کی ایک بھی صنعت موجود نہ تھی ۔ اپنے محدودو وسائل کو برؤے کار لاتے ہوئے پاکستانیوں نے ملک میں صنعتیں لگائیں ۔ تمام تر سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باوجودآج ملک بھر میں لاکھوں چھوٹے بڑے کارخانے قائم ہیں جو معیشت کا پہیہ چلائے ہوئے ہیں۔

تقسیم کے بعد تمام عسکری ادارے اور فوجی سازوسامان کے ذخیرے بھی بھارتی سر زمین پر تھے۔ پاکستان کو ۴ لاکھ کی فوج میں سے فقط ڈیڑھ لاکھ فوج ملی یعنی 33% اور وہ بھی برطانوی افسران اور نا تجربہ کار مسلمانوں پر مشتمل ۔ 165000ٹن آرڈیننس میں سے صرف 4703ٹن اسلحہ ملا یعنی صرف 3%، اور بقول جنرل گل حسن وہ بھی زیادہ تر ناکارہ تھا۔ 249 ٹینکوں میں سے ایک بھی ٹینک پاکستان کے حصے میں نہ آیا ۔ GHQکے لیے عمارت نہ تھی تو اسے ڈھاکہ میں ہائی کورٹ کی بلڈنگ کے اندر قائم کرنا پڑا۔۔۔ انہی حالات میں پاکستانی افواج نے تمام تر مسائل اور پریشانیوں کے باوجود خود کو دنیا بھر میں منوایا اور آج ہماری فوج کا شمار دنیا کی چند بہترین افواج میں ہوتا ہے۔

آزادی کے بعد مالی وسائل کی سخت کمی تھی ۔ وزیر خزانہ چوہدری محمد علی نے گورنرجنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کار ری کنڈیشن کرانے کے لیے فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا تھا( اور آج ہم اتنے امیر ہیں کہ سپیکر کی گاڑی کے فقط ٹائر بدلنے کے لئے 60 لاکھ روپے کا خرچہ بخوشی کر لیتے ہیں)۔ چھ دہائیاں قبل بنک اور کرنسی کا کوئی نظام موجود نہیں تھااور پاکستان کو ریزروبنک آف انڈیا کی خدمات لینا پڑیں۔ ہمیں انڈین کرنسی نوٹوں پر اپنے ملک کی مہریں لگا کر کام چلانا پڑتا تھا۔ (آج ہم اتنے خود کفیل ہیں کہ فقط حکومتی" دال دلیہ" چلانے کی لیے روزانہ اربوں روپے کے نوٹ چھاپ رہے ہیں) سول اداروں کا یہ حال تھا کہ نہ دفتر تھے اور نہ ہی دفترکے لیئے سازوسامان ۔ درختوں کے چھاؤں میں میزیں کرسیاں لگا کر کام کیا جاتا تھا۔ سول سرونٹس فائلوں کو باندھنے کے لیے کانٹوں کا استعمال کرتے تھے کہ کامن پن دستیاب نہ تھیں۔ جبکہ آج ہمارے پاس بہترین عمارتیں اور انفرا سٹرکچر موجود ہے۔آزادی کے بعد ہمارے پاس چند تعلیمی ادارے تھے۔ آج سینکڑوں پبلک اور پرائیوٹ سکولوں ،کالجوں اور جامعات کا جال ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ انہی حالات سے اٹھ کر ہم نے خود کو عالمی ایٹمی طاقت بنایا۔ کرکٹ کا عالمی کپ جیتا اور سکوائش میں مسلسل کئی سال نمبر ایک پر رہے۔ آج ہماری خواتین جہاز اڑاتی ہیں اور آسکر ایواڈ جیت لاتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بحثیت مجموعی ان ۶۵ سالوں میں ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور تمام تر سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باوجود ہمارا ملک قدم بقدم آگے کی طرف ہی بڑھا ہے ۔ یہ فقط چند افراد یا حکومتوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہونے والی ناکامیاں ہیں جنہیں ملک یا پوری قوم کی ناکامی نہیں سمجھنا چاہیئے۔آج بھی ہم دنیا کی بہترین قوم ہیں اور اگر چاہیں تو اپنی محنت کے بل بوتے پر خود کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر سکتے ہیں۔ ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار پھر وہی بے لوث جذبہ پیدا کریں جو تحریک آزادی کے دوران پوری قوم میں پایا جاتا تھا اور متحد ہو کر ملک کی بہتری کے لئے کام کریں۔
 

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.