انعام الرحمن پاکستان کی ایک
یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔وہ جنوبی وزیر ستان کے سب سے بڑے قبیلے محسود سے
تعلق رکھتے ہیں ۔گزشتہ دنوں جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان کے چہرے پرافسردگی
کے اثرات دیکھے۔وجہ دریافت کی تو جواب ملا کہ یہ پریشانی اور غم صرف محسود
اور وزیرستانی ہونے کی وجہ سے ہے ۔ کیا مطلب ؟میں نے وضاحت طلب کی ۔انعام
الرحمن نے وضاحت کرتے ہوئے اپنی اور اپنے علاقے کی دل خراش داستان بیان کی
۔ جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔انعام الرحمن کی داستان ان کی زبانی
کچھ اس طرح تھی ۔’’میرا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے ۔قبیلہ کے لحاظ سے میں
محسود ہوں۔جنوبی وزیرستان میراآبائی علاقہ ہے۔نائن الیون تک یہ علاقہ بہت
پرامن تھا۔ہم لوگ اطمینان سے اپنی زندگیاں گزاررہے تھے۔ تعلیم وتعلم کا
سلسلہ بھی اچھا تھا اور روزگار کے لیے ذرائع اورمواقع بھی بہتر تھے۔نائن
الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے افغانستان پر یلغار ہوئی تو ہمارے گرد بھی
خوفناک بادل منڈھ لانے لگے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ قبائلی عوام مذہبی لحاظ سے
انتہائی کٹر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر حکم ِ الٰہی پر عمل کرنا اپنا فرض
سمجھتے ہیں چاہے جتنی بھی تکلیف اٹھانا پڑے۔چنانچہ اسی مذہبی روایت کے اثر
کی وجہ سے یہاں کی عوام نے افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں حصہ
لیاتھا۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے اس حکم ِ الٰہی کے ’’جرم ‘‘میں جہاں
افغان مجاہدین کو تختہ مشق بنانے کا مذموم ارادہ کیا وہیں قبائلی عوام کے
گرد پر بھی گھیرا تنگ کرنے کی ٹھانی ۔۲۰۰۳ء میں جنوبی وزیرستان میں فوج
بھیجنے کا مقصد صرف اورصرف اسی مذموم مقصد کی تکمیل تھی۔چنانچہ اسی سال سے
پورے علاقے میں کشیدگی پیدا ہونے لگی ۔وہ دن ہے اورآج کا دن جنوبی وزیرستان
میں امن کی فضا ء ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ۔
۲۰۰۹ء میں آخری فوجی آپریشن ’’راہِ نجات‘‘ کے نام سے کیا گیا۔جس سے جنوبی
وزیرستان کی عوام کی زندگیاں تباہ ہوگئیں۔شاید آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ
آپریشن تو دہشت گرد عناصر کے خلاف کیا گیاجواسٹیٹ کے لیے ایک خطرہ بنتے
جارہے تھے،تو پھر کیسے عوام کی زندگیاں تباہ ہوئیں؟۔آپ یہ سمجھنے میں حق
بجانب ہیں ،لیکن شاید آپ کو اصل حقائق معلوم نہیں کہ ان عناصر کے خاتمے کی
کتنی بھاری قیمت جنوبی وزیرستان کی معصوم عوام کو چکانی پڑی۔ڈرون حملوں سے
ہماری زندگیاں پہلے ہی اجیرن ہوچکی تھیں ،اس آپریشن نے رہی سہی زندگی کی
رمق بھی ختم کردی ۔ہمارے وہ گھر جہاں کبھی ہم ہنستے بستے زندگی گزارتے تھے
،فوج کی بمباری سے ملیا میٹ ہوگئے ۔وہ لہلہاتے کھیت جو ہماری ضروریات ِ
زندگی کو پورے کرتے تھے ویران کردیے گئے ۔وہ پرامن ماحول جس میں ہم بلاخوف
وخطر رہتے تھے چھین لیاگیا۔اس آپریشن نے ہمیں گھر سے بے گھر کیا،تعلیم سے
محر وم کیا ،ہمارے منہ سے نوالے چھینے اور ہمارے جسموں سے کپڑے تک اتار لیے
۔شاید آپ کو معلوم نہیں کہ اس آپریشن کے بعد وہاں بسنے والے لوگوں کی اب
کیا حالت ہے ۔سنیے ! جس گھر میں ایک والد پندرہ افراد کی کفالت کرتا تھا آج
وہ اس بمباری کی وجہ سے دنیا میں نہیں رہا۔ اس کے زیر سایہ پرورش پانے والے
افراد در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔جو بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے
آج سر سے والد کا سہار ااٹھنے کی وجہ سے اپنے گھر کی کفالت کے لیے مارے
مارے پھر رہے ہیں۔وہ مائیں بہنیں اور بیٹیاں جو گھر کی چاردیواری میں عزت
سے زندگی گزاررہی تھیں آج اپنی عصمت کے لیے محفوظ آشیانوں کی تلاش میں رُل
رہی ہیں۔میں ان لوگوں کا اور اس طرح کے المناک واقعات کا چشم دید گواہ
ہوں۔میں جانتا ہوں کہ اس ایک آپریشن نے جنوبی وزیرستان کی معصوم عوام کو کن
حالات سے دوچار کیا ہے ۔اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود میر ی حالت کو دیکھ
سکتے ہیں۔میرا پورا خاندان اس آپریشن کی وجہ سے اپنے گھر بار سے محروم
ہوااور آبائی گاؤں سے جلاوطنی کی انتہائی اذیت ناک مشقت سے
دوچارہوا۔اورمیرے چہرے پر افسردگی اس لیے چھائی ہے کہ معصوم عوام کی دردر
کی ٹھوکریں میری روح کو تڑپاتی رہتی ہیں۔‘‘
انعام الرحمن اپنے علاقے اور اپنی قوم کے لوگوں پرگزرنے والے قیامت
خیزمناظر کی روئیداد سنائے جارہا تھا اورمیں دل ہی دل میں افسردگی کے عالم
میں یہ سو چ رہا تھا کہ نہ جانے شمالی وزیرستان کی عوام پر ممکنہ فوجی
آپریشن سے کتنی بڑی قیامت بپا ہوگی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیٹ کی
سلامتی کو چیلنج کرنے والے دنیا کی نظر میں رعایت کے مستحق نہیں ہوسکتے ۔
ہرصاحب ِعقل یہ جانتاہے کہ پائیدار ملک اسی وقت اپنا وجود برقرار رکھ سکتے
جب وہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر طاقت کو زیر کرسکیں۔معاشرے اسی وقت پرامن رہ
سکتے ہیں جب امن کے بخیے ادھیڑنے والے جراثیموں کا سرے سے صفایاکردیا جائے
۔ فتنہ فساد اور انتشار پھیلانے والے عناصر ہوں یا انتہاپسندی کے فروغ اور
ترویج کے لیے بننے والے آلہ کار ہوں ،ایک پرامن معاشرے اور پائیدار اور
مضبوط ملک کی بقاء کیے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ان عناصر اور آلہ کاروں کا فوری
قلع قمع کیا جائے۔لیکن ان جراثیموں کے خاتمے کے لیے نہ صرف احتیاطی تدابیر
اور کم نقصان والی دواؤں کو استعمال کرنا ضروری ہوتاہے ،بلکہ ان آلہ کاروں
کے لیے ہتھیار اور طاقت کی زورآمائی کے انتہائی اقدام کے لیے ہزار بار
سوچنا بھی ضروری ہوتاہے ۔دنیا میں جہاں کہیں اس طرح کی کاروائیوں کی ضرورت
پیش آتی ہے وہاں نقصانات اور فوائد کا تخمینہ لگا کر طاقت کا استعمال کیا
جاتاہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ہرکام کو کیا پہلے جاتا
ہے اس پر سوچ وبیچا ربعد میں کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو نائن
الیون کے بعد قبائلی علاقوں بالخصوص جنوبی وزیرستان میں کی جانے والی
کاروائیوں کا جائزہ لے لیں۔جانی اور مالی لحاظ سے کس قدر نقصان ہو ااس کا
صحیح تخمینہ لگانا بھی شاید مشکل ہوجائے ۔
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ناگزیر ہے یا نہیں ،اس سے قطع نظر اگرجنوبی
وزیرستان میں کیے جانے والے فوجی آپریشن اور ۲۰۰۳ ء سے جاری قبائلی علاقوں
میں آپریشنزسے ہونے والے نقصانات اور فوائد پر تھوڑی دیر سوچ وبیچار کرلی
جائے تو باآسانی اس ممکنہ فوجی آپریشن کی ضرورت واضح ہوجائے گی۔دنیا کا ہر
آدمی جس میں تھوڑی سی بھی فہم وفراست ہو وہ اس بات سے قطعاً انکار نہیں
کرسکتا کہ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا ،طاقت کو طاقت کے ذریعے مات نہیں
دی جاسکتی ،نقصان کی تلافی نقصان کے ذریعے نہیں کی جاسکتی ،معصوم عوام کے
گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بدامنی اور دہشت گردی پر قابو نہیں پایا
جاسکتا،اوراصل مجرموں تک پہنچنے کے لیے وہاں رہنے والے لوگوں سے انتہائی
بھیانک سلوک روا نہیں رکھا جاسکتا۔بلکہ اس کے لیے ’’پانی ‘‘،محبت،تحمل ،برد
باری ،دل جوئی کے عمدہ طریقے ہی کارآمد ہوسکتے ہیں۔اس لیے دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اس انتہائی اقدام پر نہ صرف سوچ وبیچار کی
ضرورت ہے بلکہ صبر وتحمل کے ساتھ اس کاروائی کے نتیجے میں ہونے والے
نقصانات اور فوائد پر غور کرنابھی ضروری ہے ۔تاکہ کل پھر کوئی شمالی
وزیرستان سے فدا ء الرحمن دل میں یوں پریشانی اور افسردگی کے زخم لیے اپنے
آپ کو نہ کوستا رہے کہ ’’میں کیوں وزیرستانی ہوں‘‘۔ |