بجلی، گیس لوڈشیدنگ سے نجات حکومت اور صارفین کی ذمہ داری

لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ایک بار پھر اپنا آپ دیکھا رہا ہے شہروں میں دس سے بارہ اور دیہاتوں میں بارہ سے سولہ گھنٹے کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیدنگ سے لوگوں کے کاروبار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کونسی و جوہات ہیں جس کی وجہ سے حکومت لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرنے میں ناکام ہے باوجود اس کے کہ حکومت نے گردشی قرضے کو ختم کر دیا ہے تمام واجبات جو کہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے بقایا تھے وہ وہ وصول کر لئے گئے ہیں بجلی چوروں کے خلاف کاروائیاں کی گئی کئی بڑئے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ریگولائز کیا گیا پورے ملک میں مفت انرجی سیور تقسیم کئے گئے لیکن لوڈشیدنگ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں رہی ۔حکومت نے آتے ہی گردشی قرضوں کو لوڈشیدنگ کی سب سے بڑی وجہ جانتے ہوئے تمام گردشی قرضہ ادا کرنے کا جو اقدام کیا وہ اچھا اقدام تھا مگر تب سے لیکر آج تک یہ گردشی قرضہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے اور اگر اس کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو ایک بار پھر یہ اسی سٹیج پر پہنچ جائے گا جہاں سے اسے واپس کیا گیا تھا لوڈ شیڈنگ کی دوسری بڑی وجہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں بھل صفائی کے لیے نہروں کی بندش بھی ہے جس سے ڈیموں سے کم پانی خارج کیا جاتا ہے جس سے بجلی کی پیدا وار کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد دوبارہ لوڈشیڈنگ شروع ہوئی ہے جبکہ سردی کی شدت میں اضافہ سے گیس کی کھپت بڑھنے سے گیس کی فراہمی میں بھی کمی ہوئی ہے جس سے گھریلو صارفین کو سخت پریشانی کا سامنا ہے حکومت نے گیس کی کمی سے نمٹنے کے لیے صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر یورپی یونین کی طرف سے جی ایس پلس ملنے کے بعد اپٹما کی درخواست پر حکومت نے صنعتوں کو روزانہ 6 گھنٹوں کے لیے گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے حکومت نے گیس کی کمی کا سامنا کرنے کے لیے سی این جی سٹیشنوں کی گیس فراہمی بند کر رکھی ہے تاہم گیس کے پریشر میں کمی کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے کافی عرصہ ہو چکا ہے تاہم بجلی اور گیس کی پیداوار بڑھانے کے لیے گزشتہ تقریباً 13 برسوں میں کسی بھی حکومت نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں اب سابقہ برسوں کی طرح ان دنوں میں لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے اثرات عوام کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت پر بھی پڑ رہے ہیں ان بحرانوں کی وجہ سے حکومت کی تسلیاں بھی کمزور نظر آ رہی ہے جس میں انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ملک کو ان مسائل سے نجات دلانے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے حکومت نے چند ماہ قبل تجویز دی تھی کہ گھریلو صارفین کو کھانا پکانے کے لیے دن میں تین مرتبہ 2،2 گھنٹوں کے لیے گیس فراہم کی جا سکتی ہے جس کے نتیجہ میں صنعتوں کو بھی گیس مل سکے گی اور گھریلو صارفین کو بھیان دو گھنٹوں کے دوران پورے پریشر سے گیس ملے گی تاہم بعض سیاسی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز ترک کر دی گئی ملک میں توانائی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے اقدامات کے علاوہ صارفین کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا کیونکہ ہر شہری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے ہمارے یہاں تاجر اور بڑے تجارتی ادارے حکومت کی اس تجویز پر کان دھرنے پر تیار نہیں کہ شام پڑتے ہی دکانیں اور بازار وغیرہ بند کر دیئے جائیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ایسے موقع پر اگر حکومت سختی کا مظاہرہ کرتی ہے تو کچھ سیاسی جماعتیں سیای پوائنٹ سکورنگ کے لئے ان تاجر تنظیموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت ایسا کرنے سے بھی کترا رہی ہے بیرونی دنیا میں اگر دیکھا جائے تو بہت سے ممالک میں غروب آفتاب کے بعد دوکانیں اور شاپنگ مال بند ہو جاتے ہیں ہمارے سامنے جاپان کی مثال ہے جاپان میں غروب آفتاب کے ساتھ ہی تمام دکانیں بازار اور شاپنگ مال بند ہو جاتے ہیں اسی طرح یورپ اور امریکہ میں بھی تمام مارکیٹیں اور بازار رات کو بند ہو جاتے ہیں تاہم ہمارے یہاں ضد کا رویہ کار فرما ہے حالانکہ ہمیں توانائی کے جس بحران کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ دکانیں صبح نو بجے کھول کر شام چھ بجے بند کر دی جائیں اس طرح کم از کم ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہو سکے گی یورپ ، امریکہ اور جاپان میں انرجی کا کوئی بحران نہیں مگر وہاں کے تاجر اس بات پر اصرار نہیں کرتے کہ وہ رات دیر تک دکانیں کھلی رکھیں گے حکومت اس سلسلے میں انجمن تاجران کے نمائندوں سے مذاکرات کر کے مارکیٹوں کے اوقات اپنی ضرورت کے مطابق طے کرے تاکہ ملک میں اس بحران سے ہونے والا نقصان کم کیا جا سکے۔ اسی طرح شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر بھی لائٹنگ کے لیے بجلی اندھا دھند استعمال بند کیا جائے تا کہ غیر ضروری طور پر بھی بجلی ضائع نہ ہو حکومت گیس چوری کو روکنے کے لیے مہم کو مزید تیز کرے اور مؤثر بنائے تاکہ یہ بحران کم ہو سکے صارفین بھی گیس ،بجلی کے گیزروں کا استعمال کم کریں تا کہ انہیں اور صنعتوں کو مسلسل گیس اور بجلی مل سکے اور ملکی معیشت میں بہتری آ سکے ان سارے عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا کہ حکومت کم از کم اس ٹرم میں بجلی کی لوڈ شیدنگ کو ختم کر سکے گی اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو لوڈشیڈنگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے مگر نالائق لوگوں کی نالائقیوں کی وجہ سے یہ اتنا بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے کہ اس پر اختجاج کر کے کسی بھی شہر کا امن و سکون منٹوں میں تہہ و بالا کر دیا جاتا ہے اس بارے میں یقینا ہر پاکستانی کے ساتھ حکومت کو بھی تشویش ہے مگر یہ مسئلہ تب ہی حل ہو سکتا ہے جب حکومت اس کے خاتمے کے لئے نمائشی نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرئے توانائی کے نئے منصوبے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا جائے حکومت اور صارفین دونوں اس سلسلہ میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں دوسری صورت میں ان بحرانوں کی وجہ سے پاکستان باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ جائے گا -
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227086 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More