عورت کے خلاف سنگین جرائم میں بھارت سب سے آگے

 بھارت دنیا میں خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک بنتا جارہا ہے یہاں خواتین کے ساتھ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھتے جا رہے ہیں ۔ روزانہ اس طرز کا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آرہا ہے ۔ گزشتہ سال دسمبر میں نئی دہلی میں پیرا میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کا کیس نیا یا پہلا نہیں تھا اور نہ ہی یہ کیس باوجود اس کے کہ عالمی طور پر بھارت کے لیے ذلت اور ندامت کا سبب بنا ، بھارت میں ہزاروں افراد نے جن کی بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی مختلف شہروں میں مظاہرہ کیا پولیس سے ان کا ٹکراﺅ بھی ہوا ، احتجاج کا یہ سلسلہ اس وقت تھما جب بھارتی وزیر اعظم نے لوگوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی اور انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے بھی کہا کہ ایک عورت اور ماں ہونے کے ناتے وہ لوگوں کا درد سمجھتی ہیں مگر ان تمام یقین دہانیوں کے باوجود گینگ ریپ کا شکار ہونے والی طالبہ کے مجرمان کو سزا نہ مل سکی وہ قانون کی حراست میں تو ضرور ہیں لیکن جرم کی سنگینی کی سزا سے بچے ہوئے ہیں ۔
یہ ہمارے اور ہمارے پڑوسی ملک کی بدقسمتی ہے کہ کہ یہاں بر وقت، فوری انصاف کا کوئی راستہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جرائم کا سلسلہ رکنے یا تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ۔دسمبر میں نئی دہلی میں میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد بھی بھارت میں اب تک سینکڑوں ایسے اندوہناک واقعات جنم لے چکے ہیں ۔ ۴۱ جنوری کو بھارت کی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں درندگی کا واقعہ پیش آیا جب ۷ افراد نے ۹۲ سالہ لڑکی کو بس سے اغواءکرکے نہ معلوم مقام پر لے جاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور قریبی گاﺅں میں پھینک دیا ۔ ۵۱ جنوری کو پھر بھارت کی ریاست بہار میں دوسرا بڑا واقعہ پیش آیا جب ۲۳ سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اسے نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کی لاش کو درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ٹرین کے سفر کے دوران پیش آیا ۔ متاثرہ خاتون اپنے ۰۱ سالہ بیٹے اور دیگر رشتے داروںکے ساتھ نئی دہلی جارہی ےھیں ۔
۲۲ جنوری کو بھارتی ریاست پنجاب میں پھر ایک خاتون سے اجتماعی زیادتی کا ایک اور بھیانک واقعہ سامنے آیا جب ۶۲ سالہ نرس کو نہ معلوم افراد نے اغواءکرنے کے بعد دو دن تک زیادتی کا نشانہ بنایا اور چلتی ٹرین سے سڑک پر پھینک دیا ۔ متاثرہ لڑکی بھی چند دن بعد انتقال کر گئی ۔

یہ تو صرف چند ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے ریپ کے چند واقعات کی خبریں ہیں ورنہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کی بھارت میں ریپ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ بھارتی نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۷۹۱ءکے بعد سے ریپ کے واقعات میں ۱۹۷ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ۱۷۹۱ءمیں جہاں سزا کا تناسب ۱۴ فیصد تھا وہ اب ۰۱۰۲ءمیں کم ہو کر صرف ۷۲ فیصد رہ گیا ہے ۔

بھارت میں خواتین کے خلاف سنگین جرائم میں مسلسل اضافے پر عالمی و ملکی میڈیا ، زرائع ابلاغ ، سیاستدان ، سوشل میڈیا دانشور اور سماجی تنظیموں کی سطح پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا ہے ۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم پر عوامی ردعمل فطری ہے ۔ دنیا میں جمہوریت کی سب سے بڑی دعوے دار حکومت کے لیے یہ بہت بڑا کلنک ہے ۔ عورت جو آدھی آبادی کا درجہ رکھتی ہے اپنے بنیادی حق سے محروم اور مظلوم ہے ۔ سماجی تنظیموں اور اہل علم وہنر نے اس حوالے سے بھارت کے موجودہ ریاستی نظام میں موجود ان خامیوں اور کمزوریوں کی بھی نشاندہی کرنا شروع کردی ہے جو ان کی خود ساختہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ۔ جس میں نمبر ون بھارت کی مادر پدر آزاد فلم انڈسٹری ہے ۔ اس فلم نگری نے اپنی فلموں کے ذریعہ جہاں عورت کو سستی ماڈل ، ائٹم اکٹر کا درجہ دیا ہے وہاں گینگ ریپ جیسے جرائم کی ابتدا اور آغاز بھی ان ہی فلموں سے ہوتا نظر آتا ہے ، حال ہی میں پیش آنے والے گینگ ریپ کے واقعات ہو بہو بھارتی فلموں کے مناظر کی ریہرسل لگتے ہیں ۔ ساتھ ہی دوسری جانب بھارت کا عدالتی نظام بھی اس جرم کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر رہا ہے ۔ اگر دسمبر کے واقعہ میں ملوث مجرمان کو فوری طور پر سزائیں دی جاتیں تو کسی حد تک ان واقعات کی روک تھام ہو سکتی تھی مگر فوری طور پر انصاف کی حوصلہ شکنی نے ریپ ، گینگ ریپ جیسے واقعات میں اضافہ کردیا ہے گو کہ اب بھارت میں ان جرائم کے خلاف اٹھنے والی ہر احتجاجی تحریک کا مطالبہ ہے کہ ریپ و گینگ ریپ کے مجرموں کو موت کی سزا دی جائے ۔
عوامی ردعمل اور سول سوسائٹی کے احتجاج کا سامنا کرتے ہوئے قوانین کا جائزہ لینے والے حکومتی کمیشن نے ریپ کی ذیادہ سے ذیادہ سزا عمر قید رکھنے کی تجویز دی ہے مگر کمیشن کے ارکان ریپ کے ملزمان کے لیے سزائے موت پر متفق نہ ہوسکے لیکن انہوں نے سفارش دی ہے کہ خواتین سے متعلق کیسیز کی سماعت خواتین ججوں سے کرائی جائے اور ان کیسیز کی تیز عدالتی کارروائی کی جائے ۔ یہ کمیشن بھارت کے سابق چیف جسٹس جے ایس ورما کی قیادت میں قائم ہے ۔

زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے بارے میں برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ چونکادینے والی حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر تیس خواتین میں سے بمشکل ایک ہی اپنے مجرم کو انصاف کے حصول کے لیے عدالت کے کٹہرے تک لا نا چاہتی ہے ۔ بر طانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خواتیں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت چاہے دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو اس کا درد مشترک ہوتا ہے ۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر پردہ پوشی کا رویہ بھی مشترک ہے حتی کہ معاشرے میں ظلم کا شکار بننے والی عورت کی کردار کشی ک ارویہ بھی مشترک پایا جاتا ہے ۔ عورت چاہے مغرب کی ہو یا مشرق کی تقدس کی پامالی پر اسے چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ قریبی رشتے داروں سے لےکر پولیس ، عدالتی کارروائی ، اور معاشرے کی بے حسی اسے خون کے آنسو رلاتی ہے ۔

عورت کے خلاف جرائم تب ہی کم ہوسکتے ہیں جب ہمارے معاشرتی رویے میں تبدیلی آئے ۔ عورت کو صرف ماں ،بہن ،بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ، میڈیا عورت کا استحصال کرنا ختم کرے ، کیونکہ معاشرے میں عورت کا احترام تبھی پیدا ہو گا جب میڈیا عورت کو احترام دے تاکہ عورت اپنے آپ کو معاشرے میں گھر سے باہر بھی محفوظ خیال کرے ۔

: آدھی دنیا
عورت کے خلاف سنگین جرائم میں بھارت سی عورت کی کردار کشی کارویہ بھی مشترک پایا جاتا ہے ۔ عورت چاہے مغرب کی ہو یا مشرق کی تقدس کی پامالی پر اسے چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ قریبی رشتے داروں سے لےکر پولیس ، عدالتی کارروائی ، اور معاشرے کی بے حسی اسے خون کے آنسو رلاتی ہے ۔

عورت کے خلاف جرئم تب ہی کم ہوسکتے ہیں جب ہمارے معاشرتی رویے میں تبدیلی آئے ۔ عورت کو صرف ماں ،بہن ،بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ، میڈیا عورت کا استحصال کرنا ختم کرے ، کیونکہ معاشرے میں عورت کا احترام تبھی پیدا ہو گا جب میڈیا عورت کو احترام دے تاکہ عورت اپنے آپ کو معاشرے میں گھر سے باہر بھی محفوظ خیال کرے ۔
: آدھی دنیا

عورت کے خلاف سنگین جرائم میں بھارت سب سے آگے ، یہی وجہ ہے کہ جرائم کا سلسلہ رکنے یا تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ۔دسمبر میں نئی دہلی میں میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد بھی بھارت میں اب تک سینکڑوں ایسے اندوہناک واقعات جنم لے چکے ہیں ۔ ۴۱ جنوری کو بھارت کی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں درندگی کا واقعہ پیش آیا جب ۷ افراد نے ۹۲ سالہ لڑکی کو بس سے اغواءکرکے نہ معلوم مقام پر لے جاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور قریبی گاﺅں میں پھینک دیا ۔ ۵۱ جنوری کو پھر بھارت کی ریاست بہار میں دوسرا بڑا واقعہ پیش آیا جب ۲۳ سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اسے نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ اس کی لاش کو درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ٹرین کے سفر کے دوران پیش آیا ۔ متاثرہ خاتون اپنے ۰۱ سالہ بیٹے اور دیگر رشتے داروںکے ساتھ نئی دہلی جارہی ھیں ۔

۲۲ جنوری کو بھارتی ریاست پنجاب میں پھر ایک خاتون سے اجتماعی زیادتی کا ایک اور بھیانک واقعہ سامنے آیا جب ۶۲ سالہ نرس کو نہ معلوم افراد نے اغواءکرنے کے بعد دو دن تک زیادتی کا نشانہ بنایا اور چلتی ٹرین سے سڑک پر پھینک دیا ۔ متاثرہ لڑکی بھی چند دن بعد انتقال کر گئی ۔

یہ تو صرف چند ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے ریپ کے چند واقعات کی خبریں ہیں ورنہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کی بھارت میں ریپ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ بھارتی نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۷۹۱ءکے بعد سے ریپ کے واقعات میں ۱۹۷ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ۱۷۹۱ءمیں جہاں سزا کا تناسب ۱۴ فیصد تھا وہ اب ۰۱۰۲ءمیں کم ہو کر صرف ۷۲ فیصد رہ گیا ہے ۔

بھارت میں خواتین کے خلاف سنگین جرائم میں مسلسل اضافے پر عالمی و ملکی میڈیا ، زرائع ابلاغ ، سیاستدان ، سوشل میڈیا دانشور اور سماجی تنظیموں کی سطح پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا ہے ۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم پر عوامی ردعمل فطری ہے ۔ دنیا میں جمہوریت کی سب سے بڑی دعوے دار حکومت کے لیے یہ بہت بڑا کلنک ہے ۔ عورت جو آدھی آبادی کا درجہ رکھتی ہے اپنے بنیادی حق سے محروم اور مظلوم ہے ۔ سماجی تنظیموں اور اہل علم وہنر نے اس حوالے سے بھارت کے موجودہ ریاستی نظام میں موجود ان خامیوں اور کمزوریوں کی بھی نشاندہی کرنا شروع کردی ہے جو ان کی خود ساختہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ۔ جس میں نمبر ون بھارت کی مادر پدر آزاد فلم انڈسٹری ہے ۔ اس فلم نگری نے اپنی فلموں کے ذریعہ جہاں عورت کو سستی ماڈل ، ائٹم اکٹر کا درجہ دیا ہے وہاں گینگ ریپ جیسے جرائم کی ابتدا اور آغاز بھی ان ہی فلموں سے ہوتا نظر آتا ہے ، حال ہی میں پیش آنے والے گینگ ریپ کے واقعات ہو بہو بھارتی فلموں کے مناظر کی ریہرسل لگتے ہیں ۔ ساتھ ہی دوسری جانب بھارت کا عدالتی نظام بھی اس جرم کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر رہا ہے ۔ اگر دسمبر کے واقعہ میں ملوث مجرمان کو فوری طور پر سزائیں دی جاتیں تو کسی حد تک ان واقعات کی روک تھام ہو سکتی تھی مگر فوری طور پر انصاف کی حوصلہ شکنی نے ریپ ، گینگ ریپ جیسے واقعات میں اضافہ کردیا ہے گو کہ اب بھارت میں ان جرائم کے خلاف اٹھنے والی ہر احتجاجی تحریک کا مطالبہ ہے کہ ریپ و گینگ ریپ کے مجرموں کو موت کی سزا دی جائے ۔
عوامی ردعمل اور سول سوسائٹی کے احتجاج کا سامنا کرتے ہوئے قوانین کا جائزہ لینے والے حکومتی کمیشن نے ریپ کی ذیادہ سے ذیادہ سزا عمر قید رکھنے کی تجویز دی ہے مگر کمیشن کے ارکان ریپ کے ملزمان کے لیے سزائے موت پر متفق نہ ہوسکے لیکن انہوں نے سفارش دی ہے کہ خواتین سے متعلق کیسیز کی سماعت خواتین ججوں سے کرائی جائے اور ان کیسیز کی تیز عدالتی کارروائی کی جائے ۔ یہ کمیشن بھارت کے سابق چیف جسٹس جے ایس ورما کی قیادت میں قائم ہے ۔

زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے بارے میں برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ چونکادینے والی حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر تیس خواتین میں سے بمشکل ایک ہی اپنے مجرم کو انصاف کے حصول کے لیے عدالت کے کٹہرے تک لا نا چاہتی ہے ۔ بر طانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خواتیں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت چاہے دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو اس کا درد مشترک ہوتا ہے ۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر پردہ پوشی کا رویہ بھی مشترک ہے حتی کہ معاشرے میں ظلم کا شکار بننے والی عورت کی کردار کشی ک ارویہ بھی مشترک پایا جاتا ہے ۔ عورت چاہے مغرب کی ہو یا مشرق کی تقدس کی پامالی پر اسے چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ قریبی رشتے داروں سے لےکر پولیس ، عدالتی کارروائی ، اور معاشرے کی بے حسی اسے خون کے آنسو رلاتی ہے ۔

عورت کے خلاف جرئم تب ہی کم ہوسکتے ہیں جب ہمارے معاشرتی رویے میں تبدیلی آئے ۔ عورت کو صرف ماں ،بہن ،بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ، میڈیا عورت کا استحصال کرنا ختم کرے ، کیونکہ معاشرے میں عورت کا احترام تبھی پیدا ہو گا جب میڈیا عورت کو احترام دے تاکہ عورت اپنے آپ کو معاشرے میں گھر سے باہر بھی محفوظ خیال کرے ۔
 

ملکہ افروز روہیلہ
About the Author: ملکہ افروز روہیلہ Read More Articles by ملکہ افروز روہیلہ : 11 Articles with 8738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.