وطن عزیز پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تبدیلی کی
ایک لہر آ ئی تھی اور ہر کوئی تبدیلی ہی کے گن گا رہا تھا اور سیاسی
جماعتیں تبدیلی کے راگ الاپ رہی تھیں۔ الیکشن برپا ہوئے نٔی حکومتیں وجود
میں آئیں نئے وزرا ء آئے اور پھر عوام کا جوش کم ہوتا گیا اور تبدیلی کی
باتیں بھول بھلیوں میں گم ہو گئیں ۔وطن عزیز کے کوچہ بازار دہشت گردی کا
تاحال شکار ہیں، بیرونی دشمنان دوستی کاجھانسا دے کر آئے دن وطن عزیز کی
سرحدوں کو پامال کر رہے ہیں امن و امان عنقا ہے دلوں میں خوف و ہراس بدستور
باقی ہے ۔نٔی حکومتیں اس تمام صورتحال کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو قرار دے
کر اپنا دامن چھڑا دیتی ہیں اور عوام پھر ناامیدی کی چادر اوڑھ کر خواب
غفلت کے مزے لے رہے ہیں ۔یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت امن و امان ملک کا سب
سے بڑا مسئلہ ہے جسکی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہو رہی ہیں
اور معیشت شدید تباہی کی طرف گامزن ہے ۔کاش کہ عوام سے ووٹ لے کر ایوان
اقتدار میں آنے والے امن و امان کو مسئلہ گردانتے ہوئے اسکا جامع حل تلاش
کرتے تو آج تک اسکے ثمرات نظر آنے لگتے۔
خوف و دہشت کی فضا کو ختم کرنے کی ذمہ داری جس محکمے پہ سب سے زیا دہ عائد
ہوتی ہے وہ ہے پولیس ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا پولیس کا نظام ہمیں انگریز سے
ورثے میں ملا ہے اور انہوں نے یہ نظام مفاد عامہ میں نہیں بلکہ سامراج کو
عوام پہ مسلط کرنے کی غرض سے وضع کیا تھا ۔اسکا واحد مقصد یہ تھا کہ جو
لکیریں انگریز آقا کھینچتے چلے جائیں قوم کو انکی فقیری پہ مجور کیا جائے۔
انگریز تو یہ ملک چھوڑ کے چلے گئے مگر ہمارا مقتدر طبقہ استبداد کے حربے کے
طور پہ اسے استعمال کر رہا ہے۔ ہماری سیاسی حکومتوں کو بھی یہ توفیق نہ
ہوئی کہ اس محکمہ کو حکام کی چاکری کے بجائے عوام کی خدمت اور ٹحفظ پہ
مامور کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ پولیس کا موجودہ نظام مجرموں کے تحفظ اور
عوام کے خوف کا باعث بنا ہوا ہے۔عوام دہشت گردی سے اتنا ہراساں نہیں ہیں
جتنا کہ پولیس کی ناقص کارکردگی سے نالاں ہیں۔
ہمارے نظام پولیس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اسکے افسران و سپاہیوں کی یہ
سوچ ہے کہ پولیس کا تعلق جرم و سزا سے ہے اور محکمے کا کام مجرموں کو کیفر
کردار تک پہنچانا ہے حالانکہ اس محکمے کا فرض امن کا قیام ہے۔بظاہر تو یہ
الفاظ کا ہیر پھیر نظر آتا ہے مگر فی الحقیقت ان دونوں سوچوں کو اثرات اور
ثمرات ایک دوسرے سے قطعی طور پہ مختلف ہیں ۔ پہلی سوچ محکمے کو آقا اور
عوام کو غلام بنا دیتی ہے جبکہ دوسری سوچ محکمے کو اپنی عوام کا خادم
ومحافظ بنا دیتی ہے ۔پہلی سوچ کے حامل اہلکار عوام کو قابو میں رکھنے کی
کوشش کرتے ہیں اور دوسری سوچ کے اہلکار عوام کے جان و مال کے تحفظ کا سوچتے
ہیں ۔ پولیس اہلکاروں کااپنے محکمے کے بارے میں عقید ہ بدلنے کی ضرورت ہے
تاکہ وہ اپنے عوام کی توقعات پہ پورا اتر سکیں ۔
اس سوچ کا مشاہدہ ہم اس بات سے کر سکتے ہیں کہ وہ اہلکار محکمے کی آنکھ کا
تارہ اور ماتھے کا جھومر سمجھے جاتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ مجرموں کو پابند
سلاسل کریں ، زیادہ سے زیادہ چھاپے ماریں ۔ ایسے اہلکاروں کو محکمے اور
حکومت دونون کی جانب سے تھپکیا ں اور اعزازات عطا کیے جاتے ہیں ۔ لیکن
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب تو اسی وقت ہو گا جب جرائم ہوں گے۔ اور اگر
گہرائی سے نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اوقات جرائم کی پشت
پناہی پولیس اہلکار اپنے منپسند افراد کے ذریعے کراتے ہیں یہی مجرم عناصر
پہلیس کے مخبر ہوتے ہیں اور انہی کے ذریے چھاپے مارے جاتے ہیں اور نیے لوگ
شکار کیے جاتے ہیں ۔ اس کلچر کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اس کی جگہ
ان اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اپنے علاقے سے جرائم کی روک تھام
میں کامیاب ہوئے ہوں ۔ ان تھانوں کو مثالی قرار دیا جائے جہاں جرائم کا
تناسب سب سے کم ہو ۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومت خود بھی پولیس کو مجبور کرتی ہے کہ
وہ عوام کا خون چھوسے ۔تھانوں اور چوکیوں کو روزانہ کی بنیاد پہ ایندھن اور
دیگر ضروریات کے لیے جتنی رقم فراہم کی جاتی ہے اس میں یہ ممکن ہی نہیں
ہوتا کہ تھانے کی حدود میں گشت کر کے عوام کی خبر گیری کی جائے اور اگر
کوئی ستم رسیدہ فریادی زنجیر عدل ہلانے کی جسارت کرتے ہوئے تھانے تک آجائے
تو آمد و رفت کے اخراجات اسی کی جیب سے وصول کیے جاتے ہیں ۔ پھر مدعی اور
مدعا علیہ دونوں سے رقم بٹوری جاتی ہے اور بالآخر جیت اسی کی ہوتی ہے جو
زیا دہ خرچ کرے۔یہیں سے رشوت کا کلچر جنم لیتا ہے اور قانوں کی وردیوں میں
ملبوس اہلکار ہی قانون کی دھجیا ں اڑا دیتے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ
اہلکاروں کو جدید سہولیات اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ خدمت کا معاوضہ
عوام سے نہ وصول کیا جائے ۔ اور اسی پہ اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ایسا نظام
وضع کیا جائے جسکی بدولت کالی بھیڑیں منظر عام پہ آئیں اسکے لیے عوامی سطح
پہ ایسے ادارے یا کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو محکمے کی کارکردگی کا جائزہ
لیں اور رپورٹ حکومت تک پہنچائیں۔
ان سب اسباب کے علاوہ اقربا پروری اور خلاف استحقاق بھرتیوں کے باعث ایسے
افراد پولیس فورس میں شامل ہوتے ہیں جو ذہنی و جسمانی طور پر فرائض منصبی
کو انجام دینے کے اہل نہیں ہوتے وہ صرف مراعات کی غرض سے پولیس کا حصہ بن
جاتے ہیں اور تمام عمر قومی خزانے پہ بوجھ بنے رہتے ہیں ۔ اس پہ مستزاد یہ
کہ محکمے کی طرف سے دی جانے والی تربیت بھی ناکافی ہوتی ہے یہ سب باتیں
محکمے کہ استعداد کار کہ صفر کر دیتی ہیں ۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ عوام کے
اندر قانوں کا احترام پیدا کیا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ قانوں ان کی
فلاح کے لیے بنایا گیا ہے اور ان کی فلاح اس پہ عمل کرنے میں ہی پوشیدہ ہے
۔ اقربا پروری کا کلچر ختم کیا جائے میرٹ پہ بھرتیاں کی جائیں اور عالمی
معیار کے مطابق تربیت فراہم کی جائے تاکہ پولیس کی کارکردگی عوام کو نظر
آئے ۔ پولیس کو عوام کے قریب لانے کی کوشش کی جائے تاکہ محکمے کے بارے میں
موجود عدم اعتماد کی فضا کا خاتمہ کیا جا سکے اور ملک کا پہیہ درست سمت میں
چل سکے ۔ ہماری آرزہ ہے کہ ملک کی جیلیں ویران ہو جائیں اور حکومت کو یہ
جیلیں دیگر ممالک کہ کرائے پہ دینا پڑ یں ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ ملک کے مقتدر
طبقے کو عوامی فلاح و بہبود کی سوچ اور بصیرت عطا فرمائے اور پاکستان کو
ترقی و امن کا گہوارہ بنائے ۔۔۔آمین - |