✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Society & Culture Articles
بسنت کلچر۔۔۔۔اور۔۔۔۔اسلام
(M Husnain Raza, LHR)
بسنت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں (۱)سرسوں کے کھلے زرد پھول (۲)کسم کا پھول (۳)زرد رنگ سنسکرت زبان میں اسے وسنت کہتے ہیں۔
اصطلاحا بسنت سے مراد وہ میلہ ہے جو موسم بہار کے مختلف ادوار میں دیوی،دیوتاوں کے مندروں پر سرسوں کے پھول چڑھا کر منایا جاتا ہے ۔
اس موقع پر مرد بسنتی (زرد) پگڑیاں باندھتے چغے اور پوشاکیں پہنتے ہیں جبکہ عورتیں زرد رنگ کا لباس زیب تن کرتی ہیں بلکہ کھیت ،کیاریاں تمام زرد رنگ میں رنگی نظرآتی ہیں۔
موسم بہار ہونے کے سبب درختوں کی ہر شاخ پر کیاریوں کے ہر پودے پر نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں ہر طرف خوشبو کا سامان ہوتا ہے تو ہندو دھرم کے لوگ اس کو مبارک اور نیک شگون سمجھتے ہیں اسی لئے وہ سرسوں اور کسم کے گڑوے بنا کر اپنے دیوی،دیوتاؤں کے مندروں میں لے جاتے ہیں پھر انہیں خوش کرنے کے لئے سر سے بچن الاپتے اور ناچتے ہیں(اور جہاں تک بسنت والے دن پتنگ بازی کا تعلق ہے تو یہ دونوں تہوار کچھ عرصہ قبل ۷۱۴۷ء میں اکھٹے ہیں)
جبکہ تاریخی روایات کے مطابق سب سے پہلے پتنگ اڑائے جانے کا واقع ۲۰۰۰ قبل مسیح میں کچھ یوں سر انجام پایا کہ چین کے ایک حکمران کے خلاف اسکے باغی جرنیل نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ تشکیل دیاتو پلاننگ کے مطابق اسے قتل کئے جانے کا مقام بادشاہ کے محل میں وہ صحن تھا جہاں سیکیورٹی خدشات نہ ہونے کے برابر تھے اور وہاں تک پہنچنے کے لئے سرنگ کھودنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا اور سرنگ کے لئے بھی یہ مسئلہ تھا کہ کتنی لمبی بنائی جائے چنانچہ پتنگ اڑا کر بادشاہ کے محل میں گرائی گئی اور ڈور کی پیمائش کے مطابق سرنگ بنائی گئی۔
آخر کار اس پلاننگ کے ذریعے وہ باغی جرنیل اپنے منصوبے میں کامیاب ہوا اور بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد خود بر سر تخت براجمان ہواچونکہ اس پلاننگ میں زیادہ کردار پتنگ کا تھا اس وجہ سے چین والے اس دن خوشی مناتے اور پتنگ بازی کرتے۔
اس کے بعد آٹھویں صدی عیسوی میں پتنگ بازی کے رجحان نے جاپان میں پذیرائی حاصل کی اس کے بعد مختلف ادوار میں مختلف عیاش بادشاہوں نے اس رواج کو اپنی اپنی سلطنتوں میں فروغ دیا۔
اسی طرح مغلیہ دور کے پرتعیش بادشاہوں نے بھی ہندوستان میں پتنگ بازی کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی یہاں تک کہ بڑی بڑی پتنگوں کے ساتھ اشرافیاں باندھ کر اڑاتے جب پیچ لگنے کے بعد پتنگ کٹ جاتی تو لوگ ان اشرفیوں کے حصول کے لئے پتنگ کے پیچھے بھاگتے یوں پتنگ بازی نے عروج پکڑا۔
اور جہاں تک موسم بہار میں بسنت والے دن پتنگ بازی کا تعلق ہے تو ان دونوں تہواروں کا کچھ عرصہ قبل۱۷۴۷ ء میں اکٹھے ہونا تاریخ نے کچھ یوں بیان کیا کہایک حقیقت رائے دھرم نامی ہندو لڑکا جس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق مسلمان اور ہندو ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اس ہندو لڑکے کا مسلمان کے ساتھ جھگڑا ہواتو اس نے حضور ﷺکے بارے میں توہین آمیز کلمات کے ساتھ ہرزہ سرائی کی تو مسلمانوں نے اس کے خلاف عدالت کی طرف رجوع کیا مقدمہ لاہور کے قاضی کی عدالت میں آیا تو ہندؤں نے دلیل دی کے پہلے مسلمان لڑکے نے ہندؤں کے اوتاروں،دیوی اور دیوتاؤں کو گالیاں دی ہیں جو کہ قاضی مطمئن نہ کر سکی چنانچہ اس ہندو لڑکے حقیقت رائے کو سزائے موت سنائی دی گئی اتفاق کہ جس دن حقیقت رائے کو سزا دی جانی تھی اسی دن بسنت اورپتنگ بازی کا تہوار یکجا ہو گئے ہندو لوگ پہلے زرد کپڑوں میں اس کی چتا پر آئے چونکہ ہندو دھرم کے لوگوں کا خیال تھا کہ اس لڑکے نے اوتاروں اور دیوتاؤں کی عزت کی حفاظت میں جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اس وجہ سے ہندو لوگ ہر سال کو بسنت والے دن پتنگ بازی کر کے خوشی کا اظہار کرتے اسی وقت سے روایات برقرار ہے کہ لوگ بسنت والے دن ہی پتنگ بازی کا تہوار بھی مناتے ہیں۔
یاد رہے کہ ہندوستان کی سر زمین پر پہلا رائزنگ کلب ۱۹۰۱ء میں قائم ہوا جس کے تحت پتنگ بازی کا مقابلہ کروایا جاتا اور جیتنے والوں کو انعامات دیے جاتے تھے۔
اور جہاں تک اسلام کی بات ہے تو مسلمانان عالم اپنے مذہب پر فخر سے سر بلند اور سینہ چوڑا کر سکتے ہیں کہ یہ ایک ابدی اور سرمدی مذہب دین فطرت جو کہ ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک ہے منزہ و مبرہ ہے اسلام دیگر مذاہب عالم کی طرح صرف گوشہ نشینی ،ترک دنیا و فیہا کی تعلیم نہیں دیتا نہ ہی اپنے پیروکاروں کو تارک دنیا مسکین و عاجز ضعیف و نا تواں دیکھنا چاہتا ہے بلکہ انہیں سرگرم و فعال ،خودکفیل،بہادروتوانا اور غیور قوم کے روپ میں دیکھنے کا متمنی ہے بایں وجہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دوسری قوموں سے جداگانہ تشخص برقرار رکھنے کے لئے انہیں تمدنی،سماجی اور ثقافتی رعنائیاں فطرتی تقاضوں کے عین مطابق دی ہیں جو کہ دیگر مذاہب عالم میں مفقو د ہیں۔
اسلام ہی کی درسیات کے مطابق اخروی کامیابی سے قطع نظر دنیاوی کامیابی بھی صرف انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے محض با مقصد امور میں صرف کرتے ہیں یہی اسلام کی حقیقی روح ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام لہوو لعب سے منع کرتا ہے بلکہ کھیل کود اس انداز میں ہو جو شرعا مستحسن و مطلوب ہو تا کہ جسم و روح کا ملال ختم ہو اور طبیعت میں چستی ،حوصلہ وہمت ،امنگ اور تروتازگی کی وجہ سے انسان اپنے اعلی مقاصد حیات کی راہ پر گامزن ہو سکے اور لہوو لعب میں کسی کے نقصان و دل آزاری کا شائبہ تک بھی نہ ہو ۔
جبکہ پتنگ بازی میں پتنگ کے پیچھے دوڑتے ہوئے ڈور لوٹتے ہوئے دوسروں کو نقصان اور ایذارسانی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جو کہ کسی بھی صورت میں اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل برداشت نہیں۔
اسی طرح عمارت اسلام کے قوی ترین ستون نماز کا انہدام اوربے پردگی کر کے قرآن و سنت کے واضع احکامات کا ترک کرنا لازم آتاہے جس کی اسلام کو مسلمانوں سے کسی بھی دور اور کسی بھی قسم کے حالات میں توقع نہیں ۔
نیز پتنگ بازی کرتے وقت چھت سے گرنے کے احتمالات بکثرت پائے جاتے ہیں بلکہ ہر سال ہر شہرمیں کئی جانیں لقمہ اجل بنتی ہیں جبکہ رسول خدا ہم پر اس قدر مہربان و شفیق ہیں کہ انہوں نے ہمیں درس تمدن دیتے ہوئے بغیر منڈیر کے چھت پر بھی سونے سے منع فرمایا ہے کہ سونے والا اچانک اٹھ کر چلنے لگے اور منڈیر نہ ہونے کی وجہ سے گر نہ جائے۔
مندرجہ بالا کباحتوں کے علاوہ پتنگ بازی میں کثیر رقم بے دریغ ضائع کر دی جاتی ہے جو کہ اسراف ہے جبکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید بین الفاظ کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا ہے کہان اللہ لا یحب المسرفین (بیشک اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)پھر یہ اسراف بھی اس نوعیت کا ہے کہ اسے پاکستانی معیشت بھی برداشت نہیں کر سکتی کہ پتنگ بازی میں استعمال ہونے والا دھاگہ بلجیئم اور سپین سے درآمد کیا جاتا ہے یعنی امپورٹڈ اشیاء اور وہ بھی صرف بے جا لہو لعب کے لیے جبکہ اسی رقم سے کئی ایسے کام کیے جا سکتے ہیں جن سے معاشرتی بہبود کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔
< PREVIOUS
برمی مسلمانوں پر ظلم کی انتہا
NEXT >
اس درندگی کی سزا صرف موت
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
31 Jan, 2014
Views: 1751
About the Author:
M Husnain Raza
Read More Articles by
M Husnain Raza
:
5 Articles with 16300 views
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Recent
Society & Culture
Articles
والدین کا احترام: نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں
حجۃ الوداع کا خطبہ: عالمگیر پیغام اور کامیاب زندگی کا راز
عید الفطر: خوشی، رحمت اور ضرورت مندوں کی مدد کا پیغام
انسپکٹر ناصر – ایک بہادر پولیس افسر کی داستان
View all Society & Culture Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
عورتوں کا عالمی دن: مساوات اور خودمختاری کی جانب ایک قدم
اسٹیل ٹاؤن -- اب وہ بہاریں کہاں ؟
ہم خوشیوں سے دور کیوں ہیں؟
پاک سعودی برادرانہ تعلقات، 30,000 فوڈپیکجز انسانی خدمت اور اخوت کی شاندار مثال
The role of media in today's world
CHILD LABOR IN PAKISTAN
Present problems of Pakistan
Short history of pakistan independence (1900-1947)