السلام علیکم قارئین محترم
یہ دسمبر کی ایک سخت سرد صبحُ کا واقعہ ہے تقریباً صبح کے سَوا آٹھ کا وقت
ہو گا جب میں مین روڈ کے نزدیک پہنچا ٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے مجھے رُکنا
پڑا تبھی مجھے کراسنگ کے دوسری جانب ایک بچہ نظر آیا جو ہر بائیک والے سے
التجا کر رہا تھا کہ مجھے لفٹ دے دیںـ
جب میں روڈ کراس کر کے دوسری جانب پہنچا تو اُس بچے نے مجھ سے بھی لفٹ
مانگی مجھے ایک تیرہ چودہ سال کے بچے کا ہر کسی سے لفٹ مانگنا قطعی اچھا
نہیں لگ رہا تھا کیونکہ آئے دن ایسی خبریں اخبار کی زینت بنتی رہتی ہیں جس
میں کسی بچے کیساتھ ہمارے ہی معاشرے کے کسی درندے کی سفاکی کا تذکرہ ہوتا
ہے ـ لہٰذا میں نے سوچا کہ اِس بچے کو سمجھاؤں اور اُس بچے کو لفٹ دے دی ـ
دورانِ سفر میں نے اُس بچے کو مخاطب کر کے کہا بیٹا انجان لوگوں سے لفٹ
لینا اچھی بات نہیں ہےـ
ا
ُس بچے نے فورا سوال کردیا وہ کیوں جناب؟
میں اُس کے فوری سوال پر گڑبڑاگیا لیکن یہ صرف چند لمحوں کی بات تھی میں نے
جواباً کہا بیٹا وہ اِس لئے کہ سارے ہی لوگ اچھے نہیں ہوتے کچھ لوگ بہت
بُرے بھی ہوتے ہیں جو بچوں کو اغوا کرلیتے ہیںـ
وہ کس لئے بچے نے پھر سوال داغا ـ
بیٹا وہ اِس لئے تاکہ بچے کے والدین سے بچے کے بدلے پیسے لے سکیں میری بات
سُن کر وہ بچہ ہنسنے لگا میں اُسکی ہنسی پر بہت متعجب ہوا میں اُسے خبردار
کرنا چاھ رہا تھا اور اُسے ہنسی سوجھ رہی تھی میں نے سبب پوچھا تو وہ کہنے
لگاـ
پھر تو جناب میرے لئے ڈرنے والی کوئی بات نہیں کیونکہ میرے بابا کے پاس تو
پیسے ہیں ہی نہیں اگر میں اغوا ہو بھی گیا تو وہ مجھے چھوڑ دیں گے۔
بیٹا اگر اُنہیں پیسے نہیں ملتے تو وہ بچوں کو مارتے بھی ہیں اور کبھی کبھی
تو اِتنا مارتے ہیں کہ بچے زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں
میرے اِس جواب پر بچہ کچھ بڑبڑایا جو میں نہ سُن سکا ـ
بیٹا آپ نے کچھہ کہا تھا ابھی۔ میرے استفسار پر وہ بولا۔ وہ جی میں کہہ رہا
تھا کہ مار تو ہمارے مقدر میں
ویسے بھی بہت ہے صبح ذرا سی دیر ہو جائے تو استاد کھال اُدھیڑ دیتا ہے
کون سے اسکول میں پڑھتے ہو تم ـ میرے اِس سوال پر اُس کے چہرے پر شرارت
بھری مسکراہٹ نمودار ہو گئی اور پھر وہ کہنے لگا جناب میں اسکول والے
اُستاد کی نہیں بلکہ گیراج والے اُستاد کی بات کر رہا ہوںـ
بیٹا یہ تو آپ کی پڑھنے لکھنے کی عمر ہے آپ اسکول کیوں نہیں جاتے اور تمہیں
اگر اُستاد مارتا ہے تو آپ اِسکی شکایت اپنے ابو امی سے کیوں نہیں کرتے ـ
شکایت تو میں نے کی تھی پر امی روتے ہوئے کہہ رہی تھیں بیٹا یہ مار پٹائی
تو ہم غریبوں کا نصیب ہے اور ویسے اُستاد کا رتبہ باپ کے برابر ہوتا ہے پھر
بیٹا اکیلے تیرے ابا کے کمانے سے تو گھر نہیں چل سکتا اس لئے بیٹا تم
بھائیوں کو کام پر لگایا ہے ورنہ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ تم اسکول جاؤـ
اور اُس کے بعد سارا دِن میری نظروں کے سامنے رہوـ لیکن میں تین دن ضد کر
کے کام پر نہیں گیا اور چوتھے دِن میرے چھوٹے بھائی کا بائی پاس روڈ پہ
ایکسیڈنٹ ہوگیا جِس میں اُس کا انتقال ہو گیاـ اور اُس ایکسیڈنٹ کی وجہ اُس
بچے نے مجھے یہ بتائی کہ اُس کا چھوٹا بھائی جِسکی عمر صرف دس برس تھی
اُستاد کی چائے لانے گیا تھا روڈ کراس کرتے ہوئے دو کوسٹروں کی اوور ٹیکنگ
کا شکار ہوگیاـ یہ واقعہ سُنا کر وہ بچہ بس اِسٹاپ کے قریب ایک جگہ گاڑی
رُکوا کر جلدی جلدی چلتے ہوئے میری نظروں سے اُوجھل ہوگیا ـ
قارئین کرام اِس واقعہ کو اگرچہ کئی ماہ گزر چکے ہیں اور میں اِسے لاکھ
بھلانا چاہوں بھلا نہیں سکا اور اگرچہ اُس بچے سے میرا دوبارہ سامنا بھی
نہیں ہوا لیکن میرے ذہن میں اُس بچے کی تمام باتیں اُس کا بھولا سا چہرہ
اُس کا بڑے لوگوں کی طرح بات کرنے کا انداز سب کچھ محفوظ ہے کبھی کبھی جب
اُس بچے کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ کب تک یہ چھوٹے چھوٹے بچے جن
کی عمر پڑھنے کھیلنے کھانے کی ہے ہماری بے حسی کا شکار رہیں گے اگرچہ ہمارے
ملک میں بھی چائلڈ لیبر قوانین ہیں پر اُس پر عملدرآمد کون کروائے گا کیا
یہ ہمارے بچوں کی طرح نہیں ہے لیکن کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر
واقعی اِن قوانین پر عملدرآمد ہو گیا تو خدانخواستہ بہت سے گھروں کے چولہے
تو نہیں بجھھ جائیں گےـ
ویسے اگر ہم چاہیں تو اِن بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے بس تھوڑی سی کوشش
کرنی ہوگی کہ اِن بچوں کی یا اِنکے گھر والوں کی مجبوری کی وجہ سے جن بچوں
کو مزدوری کرنی پڑتی ہے کسی طرح اِنہیں پارٹ ٹائم اِسکول میں داخل کروا دیں
اِسکے لئے ہمیں شائد کچھ پریشانی اُٹھانی پڑے کچھ تکالیف بھی ہمیں درپیش
آئیں اور کچھ ہوسکتا ہے کہ مالی تعاون بھی کرنا پڑے لیکن یہ کام کر کے آپکو
وہ دلی سکون ملے جس کے لئے بعض انسان ساری زندگی ترستے ہیں وہ خوشی ملے جس
کے آپ متلاشی ہوں محترم قارئین جب علم حاصل کرنا جہاد ہے تو یقیناً اِس کی
معاونت بھی رب عزوجل کو بے حد پسند ہوگی ـ اپنے ارد گرد دیکھئے ایسا کوئی
بچہ ضرور آپکا بھی منتظر ہوگا |