میں اپنی کہانی بعد میں سناﺅں
گا۔پہلے یہ خبر پڑھ لیجئے۔انگریزی معاصر اخبار کے مطابق ۴۱ اگست کو پی آئی
اے کی ایک پرواز کو جو لاہور جارہی تھی، ایک گلوگارہ شبنم مجید کے پرس کو
ڈھونڈنے کے لئے راستے سے واپس اسلام آباد آنا پڑا۔ ائیر پورٹ پر آکر اس جگہ
پرس تلاش کیا گیا۔ پرس میں ۸۱ ہزر روپے کیش اور سونے کے زیورات تھے۔ جو
ظاہر ہے نہیں ملے۔ گلوگارہ ایوان صدر میں جشن آزادی کی تقریب میں اپنے فن
کا مظاہرہ کرنے کے بعد اسلام آباد سے پی کے ۳۵۶ میں واپس لاہور جارہی تھیں۔
میری کہانی یہ ہے کہ ۳۱ اگست کی شام پانچ بج کر ۰۲ منٹ والی پی کے ۱۳۹ کی
پی آئی اے کی پرواز سے سکھر سے کراچی آنے کے لئے جب میں سکھر ائیر پورٹ
پہنچا تو وہاں ائیرپورٹ لاؤنج پر تالے پڑے تھے۔ سول ایوی ایشن کا عملہ غائب
تھا۔ پرواز کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ساڑھے پانچ گھنٹے لیٹ ہے۔ مسافروں
کے بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ لاؤنج بند تھا اور متبادل جنریٹر چلانے
سے سول ایوی ایشن کے عملے نے انکار کردیا۔ اس بدتمیزی اور نالائقی، بد
انتطامی کے لئے پی آئی اے کا ہر مسافر اپنے ٹکٹ میں سے ۰۴۱ روپے سول ایوی
ایشن کو ادا کرتا ہے۔ اس تاخیر پر پی آئی اے کو نہ کوئی حرف ندامت تھا، نہ
مسافروں کی دلجوئی، اور نہ سکھر کی تڑپاتی گرمی میں ٹھنڈے میں بٹھانے،
مشروب تو درکنار پانی تک پلانے کو کوئی موجود نہ تھا ۔یہ یوم آزادی کی شب
تھی۔ پورا پاکستان یوم آزادی کی خوشیان منارہاتھا۔ لیکن سکھر ائیر پورٹ پر
مسافر ۴ گھنٹے شدید گرمی میں بلبلاتے رہے۔ مسافروں میں، عورتیں، بچے، بوڑھے
سب شامل تھے۔ لیکن یوم آزادی پر پانچ گھنٹے سے محبوس مسافروں کو پرواز میں
کھانا، معمول کیا، اسنیک، مشروبات سے بھی محروم رکھا گیا۔ چھوٹے بچوں کو
ٹافیاں یا سوئٹ جس کا جشن آزادی کی مناسبت سے ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ وہ
ناپید تھے۔
قومی جھنڈے والی ائیر لائین میں مسافروں کی یہ بے توقیری ہے جس کے سبب چیف
جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پی آئی اے کی پروازوں میں تاخیر پر ازخود نوٹس لیتے
ہوئے حکام کو طلب کیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف کی جانب سے
لئے جانے والے ازخود نوٹس میں کہا گیا کہ انہوں نے خود کئی مرتبہ پی آئی اے
میں سفر کیا اور پرواز تاخیر کا شکار ہوئی۔ اس کے علاوہ سندھ، پشاور
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی متاثر ہوئے اور جوڈیشل کونسل کی میٹنگ میں
تاخیر سے پہنچے جس کی وجہ سے اجلاس بھی تاخیر سے شروع کیا گیا۔ عدالت نے اس
سلسلے میں ایم ڈی پی آئی اے، ڈی جی سول ایوی ایشن اور لاہور کے ائیرپورٹ
منیجر کو طلب کیا تھا۔
یہ بھی پی آئی اے کی بد انتظامی کا تسلسل ہے کہ جس کے سبب صد مملکت کو
ایوان صدر میں پی آئی اے کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے اعلیٰ سطح کا
اجلاس بلانا پڑا۔ صدر آصف علی زرداری نے پی آئی اے کے انتظامی امور بہتر
بنا کر مسافروں کو آرام دہ سفری سہولیات فراہم کرنے کی تلقین کی ہے۔ صدر نے
اس اجلاس میں ہدایت کی کہ پی آئی اے کے انتظامی امور کو بہتر بنا کر
معاملات ٹھیک کیے جائیں اور مسافروں کی شکایات دور کر کے انہیں جدید سفری
سہولیات فراہم کی جائیں۔
پی آئی اے ملک کی پہچان ہے۔ لیکن بدانتظامی، لوٹ مار، بدعنوانی، اقربا
پروری، ناجائز بھرتی، اور اللے تللوں نے اس ادارے کو ایک ایسا مرد بیمار
بنا دیا ہے۔ جو بستر مرگ پر سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے اور ہم اب بھی اس سے
امید لگائے بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا 315
واں اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ جنوری سے جون 2008ء کے دوران ادارے کو 18
ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک اجلاس
کے بعد وزیر دفاع احمد مختار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روپے کی
قدر میں کمی اور تیل کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے پی آئی اے کو سال 2008ء کے
دوران 39 ارب روپے کا خسارہ ہوا، انہوں نے مستقبل میں بہتری کی امید دلاتے
ہوئے بتایا کہ پی آئی اے ملازمین کی اولاد کیلئے ملازمتوں میں پانچ فیصد
کوٹا مختص کیا گیا ہے، گریڈ 4 تک کے تمام کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل کیا
جا چکا ہے، ادھر: قومی ائیر لائن کے پائلٹوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ائیر
لائن پائلٹ ایسوسی ایشن اور انتظامیہ کے درمیان بھی رسہ کشی جاری ہے۔ پالپا
کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ ایم ڈی پی آئی اے سے مذاکرات نہیں کرینگے
بلکہ چیئرمین پی آئی اے سے مذاکرات کرینگے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ۰۸ ( اسی)
سے زائد کنٹریکٹ پائلٹوں کو مستقل کیا جائے۔
پی آئی اے میں کیا ہورہا ہے اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیر حاصل بحث کی
ہے۔ انہوں نے واضح طور پر اس مرد بیمار کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ پبلک
اکاﺅنٹس کمیٹی نے پی آئی اے میں ایک سال کے دوران 13 ارب روپے سے زائد کی
مالی بے ضابطگیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو مالی انتظامات
بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ کمیٹی نے ایک کھرب 34 ارب 7 کروڑ روپے مالیت کے
8 بوئنگ 777 کی خریداری میں ضابطے پورے نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا
اور پی آئی اے سول ایوی ایشن کے درمیان مقدمہ بازی کے حوالے سے چیئرمین
کمیٹی کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے باہمی تنازعات ثالثی کے ذریعے حل کریں٬
چیئرمین کمیٹی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کراچی میں واقع ہوٹل مڈوے کی
لیز میں ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے اضافہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
کسی دور میں پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھا۔ جب عہدوں پر تعیناتی سیاست پر
نہیں میرٹ پر ہوتی تھی۔ سیاسی تقرری کے بعد عہدیدار تو پھلنے پھولنے لگے ان
کی کاروں کے بیڑے میں تو اضافہ ہونے لگا لیکن ادارے کا بیڑا غرق ہو گیا۔
مشرف دور میں اس ادارے کے ایم ڈی نے جہاز پر شلوگن اور تھیم بدلنے کا ٹھیکہ
اپنی بیٹی کو دلوایا۔ یوں ۷۹ جہازوں کی فی کس ۵ لاکھ روپے سے تزئین نو کی
گئی۔ ایک سال میں 3 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ایک طرف سالانہ خسارہ بھی اس
کے برابر ہے۔ دنیا بھر میں نجی ائیر لائنز منافع میں جا رہی ہیں۔ لیکن پی
آئی اے تباہی سے دوچار ہے۔ انتظامیہ کا اداروں کے ساتھ وفادار ہونا ہی اس
کی کامیابی ہوتی ہے۔ جس کا پی آئی اے میں فقدان ہے۔ اس کا اظہار کمیٹی کی
کارروائی اور ہدایات سے بھی ہوتا ہے۔ حکومت تیل کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے۔
پی آئی اے اس قیمت پر تیل خریدنے سے قبل ہی کرایوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔
تیل کی قیمت کم ہونے پر اضافہ واپس نہیں لیا جاتا۔ یہ مسافروں کے ساتھ ظلم
ہے۔
افسروں کی من مانی کا اندازہ مڈوے کی لیز میں اضافے اور پی آئی اے اور سول
ایوی ایشن کی آپس میں مقدمہ بازی سے لگایا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے کی
انتظامیہ کو اخراجات کے معاملے میں چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلانے چاہئیں۔ مالی
بدعنوانیاں تو ناقابل برداشت ہیں۔ سابق افسران کو کٹہرا عدالت میں کھڑا کر
کے پوچھنا چاہئے کہ ان کہ غلط فیصلوں نے اداروں کا کیا حشر کیا۔ یہ ادارے
پارٹیوں کی جاگیر نہیں ہیں۔ جو جب چاہے یہاں اپنے من پسندیدہ افراد کو بھر
دے۔ ان افسران سے پوچھا جائے کہ ان کے غلط فیصلے کیسے ادارے کو تباہ کر رہے
ہیں۔ اگر یہ اخراجات ذمہ دار افسروں کے ذمے ڈال دئیے جائیں تو چند منٹ میں
مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ ایک طرف کرائے بے تحاشا ہیں٬ دوسری طرف مسافر پی
آئی اے کی سروس سے مطمئین بھی نہیں۔ جب ادارے موم کی ناک بن جائیں۔ ایک
گلوگارہ کے اشارے پر جہاز کا رخ موڑ دیا جائے۔ مسافروں کو بے توقیر اور
حقیر جانا جائے۔ تو مسافروں کے دم سے چلنے والی ائیر لائین کیسے کامیاب
ہوگی۔ |