حضرت مولانا محمدیوسف
کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ
فرماتے ہیں حضور ؐ بدھ کے دن قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے پاس تشریف لے گئے آپ
ؐ نے فرمایا اے جماعت انصار انہوں نے عرض کیالبیک یا رسول ؐ آپ ؐ نے فرمایا
زمانہ جاہلیت میں تم لوگ اﷲ کی عبادت نہیں کیاکرتے تھے لیکن اس زمانہ میں
تم میں یہ خوبیاں تھیں کہ تم یتیموں کا بوجھ اُٹھاتے تھے اپنا مال دوسروں
پرخرچ کرتے ہیں اورمسافروں کی ہر طرح کی خدمت کرتے تھے یہاں تک کہ جب اﷲ
تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی دولت عطا فرما کر اور اپنے نبی ؐ کو بھیج کر تم
پر بہت بڑا احسان کیا تو اب تم اپنے مال سنبھال کر رکھنے لگ گئے ہو
(حالانکہ مسلمان ہونے کے بعد اور زیادہ خرچ کرنا چاہیے تھا کیونکہ اسلام تو
دوسروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتاہے ) لہذا انسان جو کچھ کھاتاہے اس پر اجر
ملتا ہے بلکہ درندے اور پرندے جو کچھ (باغوں اور کھیتوں وغیرہ میں سے )
کھاجاتے ہیں اس پر بھی اسے اجر ملتاہے (بس یہ فضیلت سننے کی دیر تھی کہ )
وہ حضرات انصار ؓ ایک دم (اپنے باغوں کو ) واپس گئے اور ہر ایک نے اپنے باغ
کی دیوار میں تیس تیس دروازے کھول دیئے ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں حضور ؐ نے سب سے پہلے جو بیان فرمایا اس کی صورت یہ
ہوئی کہ آپ ؐ منبر پر تشریف لے گئے اور اﷲ کی حمد وثنا بیان کی اورفرمایا
اے لوگو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند فرمایا ہے لہذا
اسلام میں سخاوت اورحسن اخلاق کے ساتھ اچھی زندگی گزارو غور سے سنو سخاوت
جنت کاایک درخت ہے اوراس کی ٹہنیاں دنیا میں جھکی ہوئی ہیں لہذا تم میں سے
جو آدمی سخی ہوگا وہ اس درخت کی ایک ٹہنی کو مضبوطی سے پکڑنے والا ہوگا
اوروہ یونہی اسے پکڑے رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں پہنچادیں گے
غور سے سنو کنجوسی دوزخ کاایک درخت ہے اور اس کی ٹہنیاں دنیا میں جھکی ہوئی
ہیں لہذا تم میں سے جو آدمی کنجوس ہوگا وہ اس درخت کی ایک ٹہنی کو مضبوطی
سے پکڑنے والا ہوگا اور وہ یونہی اسے پکڑے رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اسے
دوزخ میں پہنچا دیں گے پھر آپ ؐ نے دومرتبہ فرمایا تم لوگ اﷲ کی وجہ سے
سخاوت اختیار کرو تم لوگ اﷲ کی وجہ سے سخاوت اختیار کرو ۔
قارئین ایک دکھی سی کیفیت میں بے ربط سے خیالات کی ایک بارات کہہ لیجئے یا
اگر سوچوں کو کسی جنازے کے پیچھے چلنے والے بے ہنگم ہجوم سے تشبیہ دے لوں
تو غلط نہ ہوگا ایسی کیفیت عموماً اس وقت طاری ہوتی ہے کہ جب کوئی شدید
صدمہ قلب وذہن کو متاثر کرے اور ذہن میں اتنی طاقت باقی نہ رہے کہ وہ
خیالات کو کسی سلیقے کے ساتھ کسی کے سامنے پیش یا بیان کرسکے جب دلوں پر
آنسوؤں کے بادل چھائے ہوں تو اس وقت کچھ ایساہوتاہے کہ الفاظ میں بھی نمی
کاتاثر نمایاں ہوجاتاہے چاہے وہ الفاظ تحریر کیے جائیں یا اپنی زبان سے
بیان کیے جائیں اس لیے آج میں اپنے تمام پڑھنے والوں سے گزارش کروں گا کہ
آج کے کالم میں اگر آپ کوجگہ جگہ سپیڈبریکرز یا بے ربطی کاتاثر ملے تو بشری
کمزوری سمجھ کر اسے معاف کردیجئے گا ۔
قارئین میرے سامنے اس وقت حاجی محمدسلیم کا پریشانی میں ڈوبا ہوا چہرہ بار
بار آرہاہے انجمن فلاح وبہبود انسانیت نور فاؤنڈیشن برطانیہ کے زیر انتظام
میرپور میں چلنے والے ڈائلسز سنٹر کی کرسی پر حاجی محمدسلیم بیٹھے ہوئے تھے
اور ڈائلسز کرنے والی مشین سے مختلف تاریں نکل کر حاجی محمد سلیم کے جسم
میں پیوست تھیں حاجی محمد سلیم کے جسم سے خون نکل کر ڈائلسز مشین میں
جارہاتھا اور صفائی کے مرحلے سے گزرنے کے بعد یہ خون اسی مشین سے واپس حاجی
محمدسلیم کے جسم میں داخل ہورہاتھا راقم ان کے سامنے بیٹھا تھا اور حاجی
محمد سلیم پرنم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ اپنے پندرہ سال پرانے
خواب کی پوری داستان دوہرا رہے تھے حاجی محمدسلیم برطانیہ سے جب میرپور آئے
تو ان کے بہنوئی شدید بیماری کے عالم میں اسی ڈائلسز سنٹر سے چند قدم کے
فاصلے پر موجود میڈیکل وارڈ کے سی سی یو میں داخل تھے حاجی محمد سلیم کی
اہلیہ محترمہ نے گھر آکر حاجی سلیم سے ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور کی حالت
زار ،وہاں پر پائی جانے والی گندگی ،میلی چادروں ،شکستہ دیواروں کا ذکر کیا
اور حسرت سے کہا کہ آپ علماء کرام کابڑا اکرام کرتے ہیں دینی محفلوں اور
مسجد وں کی تعمیر پر کثیر رقم خرچ کرتے ہیں کیایہ ممکن نہیں کہ آپ اس ڈی
ایچ کیوہسپتال میں برطانیہ کے معیار کے مطابق چند اچھے کمرے یا وارڈز بنا
کردے دیں حاجی محمدسلیم اگلے ہی روز ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچے اور پوچھا کہ
اس ہسپتال کے سربراہ کون ہیں انہیں موجودہ ڈائریکٹرجنرل ہیلتھ اور اس وقت
کے ایم ایس ڈی ایچ کیوہسپتال میرپور ڈاکٹر عبدالقدوس کے دفتر پہنچادیاگیا
حاجی محمد سلیم نے اپنی نیک نیتی سے انہیں آگاہ کیا ڈاکٹر عبدالقدوس تین
منٹ کی ملاقات میں سمجھ گئے کہ ان کے دفتر میں آنے والا یہ انسان کوئی عام
انسان نہیں ہے ڈاکٹر عبدالقدوس نے حاجی محمد سلیم کو بتایا کہ میڈیکل وارڈ
کے سی سی یو میں صرف چھ بیڈ موجود ہیں جن پر تمام ایمرجنسیز بشمول دل کے
امراض میں مبتلا لوگ داخل کیے جاتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدوس نے حاجی محمدسلیم
کو بریفنگ دینے کے دوران قائل کیا کہ آزادکشمیر بھر میں چونکہ دل کے امراض
کے علاج کیلئے کوئی بھی کارڈیالوجی ہسپتال موجود نہیں ہے اس لیے آپ اﷲ
کانام لے کر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنانے کی ذمہ داری اُٹھا لیں
حاجی محمد سلیم نے اﷲ کانام لے کر یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی 2002میں کے
آئی سی کی خوبصورت بلڈنگ تعمیر ہوگئی اس دوران جتنی بھی مشکلات پیش آئیں
انہیں دور کرنے کیلئے اس وقت کے چیف سیکرٹری آزادکشمیر شکیل درانی اور
کمشنر میرپورڈویژن سردار خورشید پیش پیش رہے اور تمام مشکلات کاسامنا انہوں
نے حاجی محمد سلیم کے ساتھ مل کر کیا اس وقت کے وزیراعظم سردار سکندر حیات
خان نے اس ادارے کاافتتاح کیا اور ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر اور ڈاکٹر یوسف
چوہدری جیسے ماہرین امراض قلب نے ایمرجنسی کارڈیالوجی کیئر اہل کشمیر کو
فراہم کرنا شروع کردی جب آٹھ سال کاعرصہ گزرا تو حاجی محمدسلیم کو ڈاکٹر
اورنگزیب عالمگیر نے بتایا کہ کے آئی سی پر کام کا بوجھ اتنا بڑھ چکاہے کہ
اب ہمیں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے مریض واپس بھیجنے پڑتے ہیں یہ سن کر حاجی
محمد سلیم نے دوبارہ بسم اﷲ کی اور پچاس بستروں پرمشتمل کے آئی سی فیز ٹو
کی ایک خوبصورت عمارت تعمیر کرکے اس کاافتتاح جنوری 2011ء میں اس وقت کے
وزیراعظم سردار عتیق احمد خان سے کروایا جون 2011ء کے انتخابات میں پاکستان
پیپلزپارٹی نے چوہدری عبدالمجید کی قیادت میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کی
اور چوہدری عبدالمجید وزیراعظم بن گئے اس دوران راقم نے ایف ایم 93میرپور
ریڈیو آزادکشمیر کے سربراہ چوہدری محمدشکیل کی ہدایت پر استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان کے ہمراہ آزادکشمیر میں میرپور اور مظفرآباد کے مقام پر میڈیکل
کالجز کی تعمیر کی منظوری حاصل کرنے کی خوشی میں ایک خصوصی مذاکرہ رکھا ایف
ایم 93میرپور کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنیدانصاری ‘‘میں
وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ،بانی کے آئی سی حاجی محمدسلیم
،محترمہ بینظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر میاں
عبدالرشید ،وائس پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی اور پاکستان میڈیکل
ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ریاست علی چوہدری نے اس مذاکرے میں شرکت کی حاجی
محمدسلیم نے میڈیکل کالجز کے قیام پر چوہدری عبدالمجید کو سلام پیش کیا اور
وعدہ کیا کہ جب وہ میرپور آئیں گے تو حاجی محمد سلیم انہیں پھولوں کے ہار
بھی پہنائیں گے اورانہیں اپنے ہاتھوں سے مٹھائی بھی کھلائیں گے قصہ مختصر
چند ہی دن گزرے تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری محمدطیب نے اتفاق سے
ہمیں فون کرکے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی میرپور آمد کا پیشگی بتایا تو
ہم حاجی محمدسلیم کی رہائش گاہ پر ان سے خوش گپیاں کرنے میں مصروف تھے اور
چائے بھی پی رہے تھے چوہدری محمد طیب نے بتایا کہ وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید آدھے گھنٹے میں اپنی رہائش گاہ پر پہنچیں گے اور ہم حاجی محمد
سلیم کو ساتھ لے کرآجائیں حاجی محمد سلیم نے فوراً پھولوں کے ہار ،گلدستے
اور نفیس بیکر ی کی بنی ہوئی خوش ذائقہ مٹھائیوں کی ایک بہت بڑی ٹوکری
منگوائی اور ہم وزیراعظم ہاؤس کی طرف چل دیئے وہاں پہنچنے تو پولیس اور
انتظامیہ نے ہاتھوں ہاتھ دو منٹ کے اندر ہمیں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے
پاس پہنچا دیا حاجی محمد سلیم نے وزیراعظم کے گلے میں ہار ڈالااورپیار سے
انہیں بوسہ دیا راقم جب وزیر اعظم کے گلے میں ہار ڈالنے لگا تو وزیراعظم نے
وہ ہار ہمارے ہاتھ سے لیکر حاجی محمدسلیم کے گلے میں ڈال دیا اورہم دیکھتے
رہ گئے خیر اب ہم وہاں پربیٹھے اور باتوں کاسلسلہ شروع ہوا وزیراعظم کہنے
لگے کہ حاجی صاحب میں آپ کے گھر حاضر ہونا چاہتاہوں حاجی محمدسلیم شرارت سے
مسکرائے اور پکا سامنہ بناکر پوچھا کیوں ؟ اس پر وزیراعظم بولے کہ آپ نے
غریب مریضوں کے علاج کیلئے دل کاہسپتال بنایا ہے میں آپ کاشکریہ اداکرنے
آؤں گا حاجی محمدسلیم ابھی مزید شرارت کے موڈ میں تھے وہ مزاحیہ انداز میں
کہنے لگے کہ وزیراعظم صاحب آپ بڑے آدمی ہیں اور آپ کے ساتھ بہت بڑی تعداد
میں آپ کا عملہ بھی ہوتاہے میرا گھر چھوٹا سا ہے آپ اس میں سما نہیں سکیں
گے اس پر وزیر اعظم زور سے ہنسے اور کہنے لگے میں اکیلا آؤں گا ہا ل میں
پچاس سے زائد اعلیٰ بیورو کریٹس بشمول سیکرٹریز احسان خالد کیانی ،چوہدری
منیر حسین ،چوہدری محمدطیب ودیگر موجود تھے وہ بھی وزیراعظم اور حاجی
محمدسلیم کی محبت بھری چھیڑ چھاڑ سے لطف اندوز ہورہے تھے اور اپنی اپنی
ہنسی چھپانے کی کوشش کررہے تھے اس دوران راقم نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
کو مخاطب ہوکر کہا کہ حاجی محمد سلیم نے سیکرٹری ہیلتھ کو یہ کہاہے کہ آپ
کے آئی سی فیز ٹو کو بہتر انداز میں چلائیں تو اگلے سال آپ کو میں نئی
تعمیرات کرکے دے دوں گا لیکن سیکرٹری ہیلتھ بریگیڈیئر سومرو نے ہاتھ جوڑ
کرکہاہے کہ حاجی صاحب ہمارے محکمے کے پاس ڈاکٹرز اورنرسوں کی کمی ہے آپ
مزید تعمیرات نہ کریں اس پر وزیراعظم چونکے اور انہوں نے پوچھا کہ اگر کے
آئی سی کو تین سو بستروں پر مشتمل مکمل دل کاہسپتال بنایا جائے تو تعمیرات
پر کتنا خرچ آئے گابیوروکریسی کے افسران نے فوراً فی فٹ کے حساب سے تعمیرات
کیلکولیٹ کیں او ر بتایا کہ ان تعمیرات پر چار کروڑ روپے لگیں گے وزیراعظم
نے حاجی محمد سلیم کاہاتھ محبت سے پکڑا اور کہنے لگے حاجی صاحب بسم اﷲ کریں
حاجی محمد سلیم کہنے لگے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوچکی ہے میں اکیلا یہ رقم
فوری طور پر افورڈ نہیں کرسکا اس پر وزیراعظم کہنے لگے آدھے پیسے میں دوں
گا اس پر حاجی محمد سلیم کی رگ شرارت ایک مرتبہ پھرپھڑکی اور وہ بولے
دوشرائط ہیں ایک تو یہ کہ یہ آدھی رقم آپ عوامی بجٹ سے نہیں دیں گے بلکہ
اپنی جیب سے دیں گے اوردوسری شرط یہ کہ پہلے آپ اپنا حصہ ادا کریں آپ کے
پیسے پہلے خرچ کروں گا اپنے پیسے بعد میں خرچ کروں گا اس پر وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید بولے منظور ہے حاجی محمدسلیم نے تعمیرات کی حامی بھر لی
اورمحفل میں موجود تمام افسران اور عوام کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ۔
قارئین حاجی محمدسلیم نے اس وعدے کے بعد ٹھیکیدار کوطلب کیا اورجب ٹھیکہ پر
دستخط کرنے لگے تو اُن کے اہل خانہ اورراقم نے ان سے گزارش کی کہ پہلے
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ان کی وعدہ کی گئی رقم تو حاصل کرلیں ورنہ
ابھی تعمیرات نہ کریں قصہ مختصر ہم کسی بھی قسم کی اختلافی گفتگو کو حذف
کرتے ہوئے بتاتے چلیں کہ ہم نے حاجی محمد سلیم کو اتنا تنگ کیا کہ انہوں نے
تعمیرات کامنصوبہ ترک کردیا اور غصے سے کہنے لگے کہ میں صبح ملایشیاء کاٹکٹ
حاصل کرکے سیر کرنے جارہاہوں صبح جب ہم ناشتا کرنے کی نیت سے ان کے پاس
پہنچے تو دیکھا کہ وہ تعمیرات کے ٹھیکے پر دستخط کرچکے ہیں اس پر ہم نے
حیرانگی سے پوچھا حاجی صاحب آپ نے گزشتہ شب تو منصوبہ ترک کردیاتھا یہ
راتوں رات کیاہوگیا کہ آپ نے صبح صبح ہی ٹھیکہ پر دستخط کرکے کام بھی شروع
کروادیاہے اس پر حاجی محمدسلیم پراسرار انداز میں مسکرائے اوریہ جملہ
اداکیا ’’ مجھے رات کو خواب میں اﷲ کی طرف سے اشارہ ہوگیا ہے کہ تم اپنا
کام شروع کرو ‘‘ اس پر راقم نے سوالات کی بوچھاڑ کردی کہ کیا اشارہ ہوا اور
اس کی تفصیلات کیاہیں اس پر حاجی محمدسلیم نے ہمیں بچوں کی طرف کھلانا شروع
کردیا اوردھمکی کی کہ اگر ہم نے مزید سوالات کیے تو وہ اپنے دوست جن کو بلو
الیں گے اور خوف کے مارے بے ہوش ہونے کی ذمہ داری راقم کے سر ہوگی باوجود
ہماری لاتعداد کوششوں کے حاجی محمدسلیم نے ’’ اشارے ‘‘ کے راز سے آج تک
پردہ نہیں اُٹھایا آج کے آئی سی کے تیسرے مرحلے کی تعمیرات مکمل ہوچکی ہیں
اور حاجی محمد سلیم راقم اور دیگر دوستوں کے ساتھ مشاورت میں موجودتھے کہ
چونکہ میں نے یہ تعمیرات اپنے پیارے دوست وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری
عبدالمجید کی دلی خواہش کے احترام میں کی ہیں اس لیے اس کا افتتاح بھی
وزیراعظم آزادکشمیر کریں گے اور اس موقع پر ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ
کے آئی سی میں اینجیو گرافی ،اینجیو پلاسٹی اور دل کے دیگر آپریشن شروع
کرنے کے لیے وزیراعظم ہی کی سربراہی میں ’’کے آئی سی بورڈ آف گورنرز ‘‘
تشکیل دیں تاکہ برطانیہ امریکہ اور پوری دنیا میں آباد دیگر دوستوں سے
رابطہ کرکے حکومت پر بوجھ ڈالے بغیر ہم کے آئی سی کوہم ایک مکمل کارڈیالوجی
ہسپتال بنانے کے منصوبے پر کام شروع کردیں ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ
اچانک ایم ایس ڈی ایچ کیوہسپتال ڈاکٹر مشتاق چوہدری کی طر ف سے یہ پیغام
حاجی محمدسلیم تک پہنچا کہ وہ کے آئی سی میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کے میل
میڈیکل وارڈ کو منتقل کررہے ہیں اس پر حاجی محمدسلیم اس وقت شدید غم اور
دکھ کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور ڈائلسز کی کرسی پر بیٹھ کر یہ پوری کہانی
ہمارے سامنے دوہرا رہے ہیں جو پہلے ہی سے ہمارے دل پر لکھی ہوئی ہے ہمیں
سمجھ نہیں آرہاکہ ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کیا کہیں کہ وہ حاجی محمد
سلیم کے اخلاص کی قدر کرتے ہوئے کے آئی سی کو تباہ کرنے کی سازش کو روک دیں
یہاں بقول چچا غالب کہتے چلیں
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج ِ فغاں کیوں ہو
نہ ہوجب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو ؟
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیاپوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو ؟
کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو ؟
وفا کیسی ؟ کہاں کاعشق ؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ ِ آستاں کیوں ہو ؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیاکم ہے ؟
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کاآسماں کیوں ہو؟
یہی ہے آزماناتو ستانا کس کوکہتے ہیں ؟
عدو کے ہولیے جب تم ،تو میرا امتحاں کیوں ہو؟
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے توغالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہربان کیوں ہو
قارئین یہاں ہم حاجی محمدصابر مغل ممبر برٹش ایمپائر ،ڈائریکٹر الشفاء آئی
ٹرسٹ اسلام آباد ،چیئرمین آگرہ گروپ آف ریسٹورنٹس برطانیہ کاذکر بھی کرتے
چلیں جنہوں نے سابق کمشنر سردار خورشید ہی سے مشاورت کرکے تقریبا ً چالیس
کنال زمین ضلع میرپور میں الشفاء آئی ٹرسٹ ہسپتال بنانے کیلئے خریدی تھی
اورآج تک اپنی جیب سے خریدی ہوئی اس زمین پر وہ گزشتہ دس سالوں سے قبضہ
حاصل کرنے سے قاصر ہیں اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ برطانیہ اور دیگر
بیرون ممالک سے آنے والے صاحب دل انسانیت کی خدمت کرنے والے لوگوں کے ساتھ
یہ معاشرہ ،یہ ریاست اور مختلف مافیاز مل جل کرکیا سلوک کررہے ہیں میں اپنے
قارئین سے گزارش کروں گا کہ اگر آپ کے اندر ایمان کے جذبات موجود ہیں اور
آپ حق کاساتھ دینا چاہتے ہیں تو خدارا وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے
درخواست کریں کہ وہ اس معاملے کاہمدردانہ نوٹس لیں اور حاجی محمد سلیم پر
گزرنے والی اس قیامت کودور کریں اگر کوئی ہم سے یا حاجی محمد سلیم سے رابطہ
کرنا چاہے تو اس کے لیے موبائل نمبرز 0322-5125065اور 0341-5192606حاضر ہیں
ہم درخواست کریں گے کہ اس معاملے کو خالصتاً سماجی رفاعی اورانسانی مسئلہ
سمجھا جائے اوراسے کسی بھی قسم کی سیاست کاکوئی بھی ’’تڑکا ‘‘ لگانے کی
کوشش نہ کی جائے ہمیں امید ہے کہ آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
جو ماضی میں ہمارا سب سے بڑا تنقید کاہدف ہوا کرتے تھے اورآج کل ہم ان کے
سب سے بڑے مداح ہیں کیونکہ انہوں نے انتہائی جرات سے کشمیر ی قوم کی عزت کی
بات کرتے ہوئے یہ کہاہے کہ ’’ہماری لاشوں سے گزر کر ہی کشمیر کو صوبہ
بنایاجاسکتاہے ‘‘ ان کی یہ بات اور موقف اتنے قیمتی ہیں کہ ہم ان کے تمام
گناہ دل سے معاف کرچکے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بانی نظریہ خودمختار
کشمیر اور پوری کشمیر ی قوم کے باغیرت اور کوئی بھی سودا نہ کرنے والے عظیم
لیڈرعبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم محاذ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے
کشمیری قوم کے اسی تشخص ،عزت وقا ر اور غیرت کی بات کیا کرتے تھے آج
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے یہ موقف اپنا کر ہمیں اپنا سب سے بڑا مداح
اور دوست بنا لیاہے اورہم ایک بے مایہ دوست کی حیثیت سے اپنے صاحب حیثیت
بزرگ دوست وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے درخواست کرتے ہیں کہ حاجی محمدسلیم
کے دل سے ہوکر آنکھوں کے راستے ٹپکنے والے آنسوؤں کے درد کومحسوس کریں اور
اس کامداوا کریں ۔
آخر میں حسب راویت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
انتہائی پیچیدہ بیماری کے ساتھ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس آیا ڈاکٹر نے اچھی
طرح معائنہ کرنے کے بعد مریض سے کہا
’’میں سمجھ گیا تمہیں کوئی بہت پرانی بیماری ہے جس کی وجہ سے تمہاری صحت گر
رہی ہے ‘‘
مریض گبھرا کر بولا
’’ڈاکٹر صاحب آہستہ بولیں وہ ساتھ والے کمرے میں ہی بیٹھی ہوئی ہے ‘‘
قارئین حاجی محمد سلیم ،حاجی محمدصابر مغل اور ان جیسے دیگر سرپھروں کو بھی
غریب انسانیت کی خدمت کرنے کی بیماری ہے اور یہ بیماری لاعلاج ہے اﷲ کرے یہ
بیماری دوسرے لوگوں کو بھی لاحق ہوآمین |