جس گھر پے خدا کرم کی نگاہ کرتا ہے
فقط اُسی گھر کو خدا بیٹی عطا کرتا ہے
مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی ہمارے
معاشرے میں پرانی سوچیں اور بیٹی ، بیٹوں میں امتیاز کا عمل جاری ہے۔
آج بھی کچھ لوگ بیٹی کی پیدائش پے اُداس اور مایوسی محسوس کرتے ہیں۔
آج کل اگر بیٹی کو پیدا ہوتے ہی نہیں مارتے مگر جینے کی ایسی سزائیں دیتے
ہیں کہ سزائیں بھی رو پڑتی ہیں۔
بیٹی کو اسکول اور کالجوں میں جانے نہیں دیا جاتا ۔بیٹیوں کو ہمیشہ قیدِ
نظر میں رکھا جاتا ہے ۔ہر وقت تنقید کی جاتی ہے ۔
یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو۔یہاں نہ جاؤ ، وہاں نہ جاؤ۔زندگی کو محال کر دیا
جاتا ہے ۔ایسے ماحول میں بیٹی بد ذہن ہو جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ
یا گھر سے فرار ہو جاتی ہے یا پھر خودکشی کر لیتی ہے ۔
میرے خیال سے بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دینا چاہیے ۔تاکہ بیچاری اِس قید
جیسی زندگی سے تو بچ سکے۔
بیٹی تو وہ چراغ ہے جس کی تمام عمر خوشیوں کی روشنی دیتے ہوئے جلتے ہی گزر
جاتی ہے۔پہلے مائیکے والوں کے لئے روشنی اور پھر سسرال والوں کے لئے ۔ایک
بیٹی ہی ہے جو ماں باپ کے دُکھ درد میں سائے کی طرح شریک رہتی ہے۔
ایک بیٹی ہی ماں کے اشکوں میں ڈوب جاتی ہے۔
ایک بیٹی ہی باپ کی مجبوریوں کو سمجھ کے اپنی خواہشوں کی زبان کاٹ دیتی ہے
۔
بیٹی عزت کی مشعل ہے ۔بیٹی کو بُرا مت سمجھو۔
جہاں ایسے لوگ موجود ہے جو آج بھی بیٹیوں کی پیدائش پے افسوس کرتے ہیں ۔وہاں
ہی ایسے بھی لوگ آباد ہیں جو بیٹیوں کو رحمت کا ذریعہ کہتے ہیں۔
ماں باپ تو بیٹی کی پیدائش ہوتے ہی بیٹی کی شادی کی فکروں میں کھوجاتے ہیں
۔
بیٹی کو ہر خوشی مہیا کرتے ہیں ۔میں ہر حوا کی بیٹی کے لئے دعا کرتاہوں کہ
خدا بیٹیوں کی عزتوں وقار کی حفاظت کریں ۔آمین
اگر بیٹے شا ن ہوتے ہیں باپ کی
تو بیٹی ماں کی ردا ہوتی ہے۔
یہ میرا پہلا کالم ہے مہربانی فرما کے اگر کوئی غلطی یا کوئی بات بُری لگے
تو معاف فرمائیے گا۔شکریہ |