صغیراحمد، پنجاب یونیورسٹی لاھور
پاکستان میں جہالت کی ایک جھلک بہت ہی قابل شرم ہے۔ اگرچہ کامیاب حکومتیں
خواندگی میں اضافے کے لیے بہت سے اقدامات کے دعوئے کرتے ہیں اور اس سلسلے
میں طرح طرح کی پالیسیاں بناتے رہتے ہیں مگر وہ سب اس وقت بیکار دکھائی
دیتی ہیں۔ جب ہم بہت ساری لڑکیوں کو ناخواندہ دیکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں
اپنے داعوؤں کو بہت ساری سیاسی اور معاشرتی اور سماجی وجوہات کی بناء پر
بروئے کار نہیں لاسکتے ہیں۔
وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے جو اعداد و شمارہ منظر عام پر آئے ہیں اُس سے
تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے بہت الگ جھلک پیش کرتی ہے۔ حالانکہ
پاکستان میں کواندگی کا تناسب 46%ہے جس میں لڑکیوں کا صرف 26%ہے۔ پاکستان
میں،163,000پرائمری اسکول ہیں جن میں سے صرف 40,000لڑکیوں کے لیے مختص کیے
گئے ہیں۔ جن میں سے 15,000پنجاب، 13,000سندھ NWFP 8000ہیں اور صرف
4,000بلوچستان میں ہیں۔
اِسی طرح 14,000ہائی اسکولوں میں سے30,00اور 10,000ہائیر سیکنڈری اسکولوں
میں سے 3000صرف لڑکیوں کے لیے ہیں بشمول 2میڈیکل کالجز کے۔
یہ صورت حال خاص طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں بہت ہی خراب ہے جس کی
وجہ کچھ معاشرتی اور سماجی وجوہات ہیں۔ کچھ جگہوں پر، خاص طور پر شمالی
علاقوں میں تو لڑکیوں کی تعلیم کو مذہبی بنیادوں پر اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
جو کہ مذہب کی مکمل طور پر غلط نمایندگی ہے۔ حالانکہ اسلام بھی دوسرے تمام
مذاہب کی طرح مردوں اور عورتوں دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا کہا گیا ہے۔
یہ حالت صوبہ بلوچستان اور صوبہ گلگت بلتستان میں بہت ہی زیادہ قابلِ
اعتراض ہے جہاں پر عورتوں کی شرح خواندگی 3-5%کے قریب ہے۔ یہاں پر
ناخواندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومتی ادارے وہاں پر
کوئی اسکول وغیرہ بنانا چاہتے ہیں تو وہاں کے جاگیردار اور وڈیرے، اگرچہ
اُن کا تعلق سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے نہ ہو وہ اس کی راہ میں رکاوٹ بن
جاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اِن کے محکوم لوگ پڑھ لکھ گئے تو
ہمارا وقار اور دب دبا ختم ہوجائے گا۔
لڑکیوں کی تعلیم میں ایک بہت بڑی رکاوٹ غربت بھی ہے۔UNICEFکی رپورٹ کے
مطابق 17.6%بچے اپنے خاندانوں کی بھوک مٹا رہے ہیں اور اُن کے لیے طرح طرح
کی مزدوری کرتے ہیں۔ بچوں کا اپنے گھریلو مدد کرنے کا یہ رجحان پاکستان میں
معمولی پہلو ہے اور اِس میں لڑکیوں کے کام کرنے کا تناسب زیادہ ہے۔
بڑے شہروں جیسے کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ میں لڑکیوں کی شرح تعلیم
بانسبت زیادہ ہے۔ کیونکہ ان شہروں میں لوگ ایک دوسرے سے مل کر لڑکیوں کو
اسکول بھیجتے ہیں۔ کیونکہ اُن میں پڑھے لکھے لوگوں کی بہتان ہے۔
اگرچہ حکومت کی توجہ شرح خواندگی کو بڑھانے کی طرف اتنی زیادہ نہیں ہے پھر
بھی کچھ مذہبی اور سیاسی پارٹیاں مختلفNGOکے ساتھ مل کر اس اہم مسئلہ کی
طرف توجہ دے رہی ہیں۔ جیسا کہ الخدمت NGOکے تحت تقریباً 100غیر رسمی تعلیمی
ادارے صوبہ سندھ، بلوچستان میں کام کر رہے ہیں۔ جہاں پر ناصرف لڑکیوں بلکہ
بالغ عورتوں کو بھی پرائمری تعلیم کے لیے داخل کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے
میڈیا بھی لوگوں کو اس حوالے سے آمادہ کرنے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کر
رہا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں اور انھیں زیورِ تعلیم سے آراستہ
کریں۔ تاکہ کل کو وہ ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ |