بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’تم عالم کا کورس کیوں نہیں کرتے؟؟؟‘‘
کچھ عرصے پہلے مجھ سے یہ سوال میرے ایک عزیز دوست نے کیا۔اس وقت تو میں نے
اسے سیدھا سا جواب دیا کہ ’’ بالکل!!! دونوں مل کر کرتے ہیں……‘‘ مگر بعد
میں میں نے اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا۔
عام طور پر ہمارے اسلامی معاشرے میں لوگ محض پیدائشی مسلمان ہوتے ہیں جنہیں
باریک بیں اﷲ والے ’’ قانونی مسلمان ‘‘ کہتے ہیں۔پھر کچھ لوگ جو اس دنیا کے
گھن چکروں سے خود کو آزاد کر کے اپنے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں ……
دین کو پڑھنا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تووہ صرف قانونی مسلمان سے بڑھ کر
ایمان کے کسی درجے کو پالیتے ہیں۔بس اب حرام اور حلال کی لسٹ تیار ہونا
شروع……اپنے آپ کو ظاہری طور پر بدلنا، دوسروں پر نکتہ چینی کرنا، فرقہ
واریت، تفرقہ بازی وغیرہ وغیرہ …… وہ اپنی ہر بات کو صحیح اور دوسروں کو
غلط راہ پر چلتا دیکھتے ہیں۔
یہ ابتدائی دور جب گزر جائے اور خوش قسمتی سے بندہ کسی اچھے ہاتھوں میں آ
جائے تو ان فتنہ پرور معاملات سے چھٹکارا پا لیتا ہے اور ذہن کو وسعت حاصل
ہوجاتی ہے۔ اب وہ دین کا صحیح معنی میں علم حاصل کر تا ہے اور کرتا جاتا ہے
کہ علم کی کوئی حد نہیں…… آخر کاروہ معاشرے میں ایک مشہور یا غیر معروف
عالم بن جاتا ہے اور قصہ ختم!!!
یہ حکمتِ ملکوتی یہ علم ِلاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں(یعنی مسلم ملت کے زوال کا درد
اور اسے عروج دینے کی کوشش نہیں تو کچھ بھی نہیں)
یہ ذکرِ نیم شبی ! یہ مراقبے ! یہ سرور!
تیری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اتفاقاََ جس دوست نے مجھے عالم کا کورس کرنے کی صلاح دی تھی وہ اور میں
دونوں ہی انجینیرز ہیں۔ اگر ہم سارے انجینیرز بیچلرز کرنے کے بعد پڑھائی
جاری رکھیں یا تحقیقاتی کاموں میں یا درس و تدریس کے لئے کسی یونیورسٹی میں
لیکچرار لگ جائیں تو یہ کارخانے کون چلائے گا؟؟؟ ان جہازوں کی مرمت کون کرے
گا؟؟؟ یہ نت نئے جنگی ہتھیار کون بنائے گا؟؟؟یہ اشیائے خوردونوش، تیل اور
گیس نکالنے کی رِگز، کیمیکل انڑسٹریز وغیرہ وغیرہ یہ سب تو ٹھَپ ہو جائیں
گی!!!
بالکل اسی طرح آج کارخانہ دنیابھی ٹھَپ ہے……کیونکہ اسے چلانے والے انجینیرز
ہی نہیں……آج ہمیں عالموں کی نہیں بلکہ اس کارخانے کواﷲ کے بتائے ہوئی طریقے
پر چلانے کے لئے مجاہدوں کی ضرورت ہے !!! عالم، مولوی اورصوفی توبھرے پڑے
ہیں……سچا مجاہد نظر نہیں آتا!!!
صوفی کی طریقت میں فقط مستیء احوال
مُلا کی شریعت میں فقط مستیء گفتار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیء کردار
لہذا دین سے دلچسپی رکھنے والوں کو وقت کی ضرورت کو سمجھنا چائیے۔اﷲ کا
کارخانہ اﷲ کی مرضی کے مطابق نہیں چل رہا!!! ہر سُو کُفر کا راج ہے……
سَو مسلمانوں کو دین کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعدپھِر میدان میں آنا چائیے
تا کہ وہ اس کارخانہء دنیا کو چلا ئیں جو کہ اﷲ والوں کے ہاتھ سے نکل چکا
ہے۔ یعنی عملی طور پر کام دکھائیں نا کہ وہی فتوے بازی، وضو کرنے کے ہزار
طریقے ،درود شریف کی فضیلت، جنت میں جانے کے شارک کٹ اور انہی پیچ و تاب
میں سارا وقت ضائع کر دیں۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ توُ
کتاب خواں ہے، صاحبِ کتاب نہیں
اوریہ بات صرف عالم بننے والوں کے لئے نہیں بلکہ صوفیوں، مولویوں، ملاؤں کے
لئے بھی ہے۔اور تنظیموں اور تحریکوں کے لئے بھی…… کہ وہ مجاہد پیدا کریں
صرف عالم ، صوفی ،مولوی یا اسلام پسند لوگ نہیں۔
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی آذاں اور مجاہد کی آذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگِس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
(تمام اشعار علامہ اقبال ؒ کے ہیں)
نوٹ: یہاں کوئی یہ نہ سمجھے کہ معاشرے سے علماء اکرام کا صفایا کرنے کی مہم
چلائی جا رہی ہے۔ امید ہے قارئین بات سمجھ گئے ہوں گے۔ |