حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنے تصنیف حیات
الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیؓ فرماتے ہیں جب بھی حضورؐ
کے صحابہ ؓ کو کسی چیز میں شک ہوااور انہوں نے اس کے بارے میں حضرت عائشہؓ
سے پوچھا تو انہیں ان کے پاس اس چیز کا علم ضرور ملا ۔
حضرت قبیصہ بن ذویبؓ فرماتے ہیں حضرت عائشہ ؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ
جاننے والی تھیں حضورؐ کے اکابر صحابہ ؓ ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔
حضرت ابو سلمہؓ فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ حضورؐ کی سنتوں کو
جاننے والا اور بوقت ضرورت ان سے زیادہ سمجھداری کی رائے والا ،آیت کے شان
نزول کو اور میراث کو ان سے زیادہ جاننے والا نہیں دیکھا ۔
حضرت مسروق ؒ سے پوچھا گیا کیا حضرت عائشہ ؓ علم میراث کو اچھی طرح جانتی
تھی انہوں نے کہا جی ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے
حضورؐ کے بزرگ اکابر صحابہ ؓ کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ ؓ نے میراث کے بارے
میں پوچھا کرتے تھے ۔
حضرت محمود بن لبیدؒ کہتے ہیں نبی کریم ؐ کی تمام اذواج مطہرات کو حضورؐ کی
بہت سی حدیثیں یاد تھیں لیکن حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہؓ جیسی کوئی نہ
تھی اور حضرت عائشہ ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں فتویٰ دیا
کرتی تھی او ر پھر انتقال تک ان کا یہ مشغلہ رہااﷲ ان پر رحمت فرمائے اور
حضور ؐ کے اکابر صحابہ ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ حضورؐ کے بعد ان کے
پاس آدمی بھیج کر سنتیں پوچھا کرتے تھے ۔
حضرت معاویہ ؓ فرماتے اﷲ کی قسم میں نے حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ فصیح و بلیغ
اور ان سے زیادہ عقل مند کوئی خطیب نہیں دیکھا ۔
قارئین نبی کریم ؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری اور نبوت ملنے کے بعد دین
قیامت تک کے آنے والے مسلمانوں کے لیے مکمل کیے جانے کے اعلان سے بہت پہلے
عورتوں کی جو حالت زار قدیم عرب معاشرے میں تھی وہ سینکڑوں ،ہزاروں اور
لاکھوں کتابوں میں تحریری شکل میں موجود ہے عورت کو پاؤں کی جوتی بھی سمجھا
جاتا تھا ،عورت کو جنسی تسکین کا ایک ذریعہ بھی جانا جاتا تھا ،بیٹی ہونے
کی صورت میں عورت کا وجود باعث تذلیل بھی سمجھا جاتا تھا اور عرب معاشرے
میں دنیا کی دیگر جاہلانہ روایات کی طرح اس حد تک گندی مثال بھی موجود تھی
کہ ایک عورت تعدد ازدواج کے ذریعے استحصال کا نشانہ بھی بن رہی تھی اور عرب
معاشرے میں دل کو پھاڑ دینے والی یہاں تک مثالیں موجود تھی کہ جاہلانہ غیرت
اور عزت کی نشانی کے طور پر معصوم بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا جاتا
تھا عورت کو تحفے تحائف کے طور پر تقسیم کرنا اور بانٹنا ایک نارمل کیس تھا
لیکن جب رحمت العالمین حضرت محمد ؐ دنیا میں تشریف لائے اور اسلام کا پیغام
برحق بھٹکی ہوئی انسانیت تک پہنچایا تو جہاں مردوں کے حقوق و فرائض کا تعین
ہو اوہیں پر ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں اور بیویوں سمیت عورت کے ہر رشتے کے حقوق
و فرائض کے متعلق بھی انتہائی واضح احکامات انسانیت تک پہنچا دیئے گئے یہ
دین بر حق ہی تھا کہ جس نے عورت کو اس حد تک مقام دیا کہ ایک ماں کے پاؤں
کے نیچے اس کی اولاد کے لیے جنت رکھ دی گئی ۔
قارئین اس تمہید کا مقصد بہت اہم ہے پاکستان اور آزادکشمیر ایسے معاشرے ہیں
کہ جہا ں ایک طرف تو عورت عزت اور احترام کی سب سے بلند چوٹی پر بیٹھی ہے
اور دوسری جانب زوال اور پستی کی وہ انتہاہے کہ جس کے متعلق سوچ کر ہی روح
کانپ جاتی ہے ساحر لدھیانوی نامی اردو کے بہت بڑے شاعر عورت کے موضوع پر جب
شاعری کرتے ہیں تو ان کا قلم روشنائی کی بجائے خون سے لکھنا شرو ع کر دیتا
ہے اور ان کے قلم سے یہ اشعار نکلتے ہیں ۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا ،مسلا کچلا
جب جی چاہا ،دھتکار دیا
اوتار پیمبر جنتی ہے
پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو
بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
اور اسی طرح ساحر لدھیانوی چیخ چیخ کر پوچھتا ہے
ثناء خوانِ تقدیس ِ مشرق کہاں ہیں
قارئین ہندو معاشرے کے بھی اگرا ٓپ بغور جائزہ لیں تو عورت کو وہی مقام اور
ذلت دی گئی جو دنیا کے دیگر جاہلانہ رسوم و رواج رکھنے والے معاشروں میں دی
جاتی تھی اس حوالے سے ایتھنز یونان سے لے کر کسری کی ایرانی سلطنت کو لے
لیجئے یا فراعین مصر سے لے کر سکندر یونانی (جسے غلط العام میں سکندر اعظم
کہا جاتا ہے حالانکہ سکندر کی ذات میں عظمت والی کوئی بات نہیں تھی وہ صرف
ایک فاتح تھا اور اس نے طاقت کے زور پر دنیا فتح کی تھی اور کردار کے
اعتبار سے ہم اس کی عظمت کے ہر گز قائل نہیں ہیں ) تک تمام تہذیبوں کو آپ
اگر پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ صنف نازک کے ساتھ ان تمام
معاشروں نے مذہب اور ثقافت کے نام پر کیسے کیسے بھیانک ظلم کیے ۔
قارئین آج اگر ہم آزادکشمیر اور پاکستان کے شہری ودیہی علاقوں کا جائزہ لیں
تو سب سے پہلے ہمیں ہندو ؤں کے ساتھ عرصہ دراز رہنے کی وجہ سے مرتب ہونے
والے اثرات معاشرے پر دکھائی دیں گے آج بھی دیہی علاقوں میں عورت کو پاؤں
کی جوتی قرار دیا جاتا ہے اور کسی بھی اہم معاملے میں عورت کو فاتر العقل
اور بیوقوف سمجھتے ہوئے اس سے کوئی بھی رائے لینا بھی اعلیٰ درجے کی
بیوقوفی سمجھا جاتا ہے کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ ایک طرف تو ہماری
تمام مساجد اور منبر ِ رسول ؐ پر بیٹھے ہوئے جید علمائے کرام صبح شام یہ
راگ الاپتے ہیں کہ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دیئے اور یہ حدیث
شریف بھی بار بار دہرائی جاتی ہے کہ ’’ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘‘ اور
دوسری جانب جب یہی نمازی اور حاجی جب اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو
مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر اپنی ماؤں ،بیویوں ،بہنوں او ر بیٹیوں کے ساتھ
وہی سلوک کرتے ہیں جو الا ماشاء اﷲ پاکستان کے تمام مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
ز نے عوام کے ساتھ کیا او ر جس طرح یہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر عام عوام کو
چاہے وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہو ں انہیں ’’ یو بلڈی سویلینز You Bloody
Civilians‘‘کہہ کر مخاطب کرتے رہے اسی طرح کا سلوک ان انتہائی نیک مسلمانوں
میں اپنی گھر کی خواتین کے ساتھ کرنا اپنی انا کی شان سمجھا ۔
قارئین آزادکشمیر میں ایک انتہائی خوبصورت روایت حالیہ دور حکومت میں
دیکھنے میں آئی ہے کہ ایک انتہائی ذہین اور پڑھی لکھی دیندار نوجوان خاتون
جو آزادکشمیر کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ سے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ وہاں کی
شہریت بھی رکھتی ہیں اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی ہیں وہ خواتین کی ترقی اور
سماجی بہبود کے محکمے کی وزیر ہیں ان کے والد محترم آزادکشمیر کے صدر ہیں
جی ہاں میری مراد محترمہ فرزانہ یعقوب کی شخصیت ہے محترمہ فرزانہ یعقوب نے
جب سے راولاکوٹ جیسے روایت پرست معاشرے اور علاقے سے عوامی ووٹوں کی اکثریت
سے کامیابی حاصل کر کے قانون ساز اسمبلی میں اس طرح آئیں کہ وہ آئیں او ر
آتے ساتھ ہی اپنی مہذب گفتگو ،پر وقار انداز اور دین دار رویے کی وجہ سے
حکومت او ر اپوزیشن بنچز انہیں ہمیشہ ایک بہن اور بیٹی جیسی عزت دی ۔محترمہ
فرزانہ یعقوب کو سماجی بہبود اور ترقی نسواں کا وزیر بنا یا گیا او ر وزیر
بنتے ساتھ ہی انہوں نے آزادکشمیر کے طول و عرض میں خواتین کی ترقی اور
معاشرے میں انہیں ایک نمایاں رول دلوانے کے مشن پر کام شروع کر دیا اس
حوالے سے انہوں نے اپنی وزارت کے زیر انتظام سوشل ویلفیئر اور ویمن
امپاورمنٹ یعنی سماجی بہبود اور خواتین کی معاشی و سماجی ترقی او ر طاقت کے
منصوبوں پر کام شروع کرتے ہوئے دو علیحدہ علیحدہ شعبے قائم کیے ۔میرپور میں
ان کے اسی شعبے میں سردار محمد شکیل کام کر رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں
انہوں نے میرپور کے تمام تعلیمی اداروں او ر سماجی و رفاعی سطح پر کام کرنے
والی اہم ترین خواتین و حضرات کا ایک خصوصی اجلاس بلوایا اس اجلاس میں
میڈیا کی طرف سے بڑے بڑے ناموں نے شرکت کی۔ تقریب میں سینئر صحافیوں راجہ
سہراب خان ،جنرل سیکرٹری کشمیر پریس کلب میرپور سجاد حیدر جرال ،پریس
انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ضلع میرپور کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجہ اظہر ،دیا ویلفیئر
فاؤنڈیشن اور گائیڈنس ہاؤس کی چیئرمین پرسن مسزغزالہ خان ،ریڈیو آزادکشمیر
کے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل ،ادارہ تحفظ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر
سردار ادریس ،غازی الہی بخش گرلز کالج کی پرنسپل پروفیسر انجم افشاں نقوی
،گرلز ہائی سکول ایف ون کی پرنسپل رخسانہ مجاہد وائس پرنسپل اعزا شاہین
،اسسٹنٹ ڈائریکٹر سکول شمیم مرزا ،ڈویژن ڈائریکٹر تنویر کوثر ،ڈی پی او
یاسر بشیر ،اے جے کے آر ایس پی کے پروگرام منیجر سردار محمد یونس خان ،صغیر
احمد پی آئی ڈی ،محمد شبیر لال فاؤنڈیشن ،ڈاکٹر طاہر محمودصدر این جی او کو
آرڈینیشن کونسل ،پروفیسر طاہر فاروق ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز امتیاز احمد ،ڈپٹی
ڈائریکٹر زراعت ،شاہین اختر ،سہیلا اعجاز ،آمرا گل ،سفینہ فاروق ،صغرا ناز
،مصباح سلیم ،سبیقہ اکرم ،چوہدری اصغراور دیگر نے بھی شرکت کی۔ اس تقریب کے
انعقاد کا سہرا آزاد کشمیر کے محکمہ سماجی بہبود وترقی نسواں کے
ڈائریکٹرسرفراز عباسی اور سردار لیاقت کے علاوہ ان کے محکمہ کے سربراہ
سیکرٹری سوشل ویلفیئر راجہ عباس کے سر رہا۔ اس موقع پر آزاد کشمیر میں
خواتین بالخصوص بیویوں پر تشدد ،جنسی استحصال ،بچیوں پر تیزاب پھینکنے کے
واقعات ،عزت اور وقا ر کی خاطر بہنوں بیٹیوں کو قتل کرنے جیسی حرکتوں
،ابارشن ،عورتوں کی خرید و فروحت ،زبردستی کی شادیوں ،بچپن ہی میں استحصال
کرتے ہوئے معصوم بیٹیوں کی شادیوں ،جبری طور پر اولاد جنم دینے پر مجبور
کرنا ،تعلیم اور دیگر حقوق کے حوالے سے عدم مساوات ،صحت کی بنیادی سہولیات
کی عدم فراہمی ،خواتین کے کام کرنے کی جگہوں پر انہیں جنسی طو رپر ہراساں
کرنے کے واقعات اور گھر میں کام کرنے والی خواتین ورکرز کو بہت کم معاوضے
دینے کے موضوعات پر گفتگو کی گئی ۔اس حوالے سے یہ بات دیکھنے میں آئی کہ
تمام شرکاء انتہائی جذباتی بھی ہوئے او ر انہوں نے مذہبی روایات اور
احکامات خداوندی کی روشنی میں ان تمام واقعات کو باعث شرم قرار دیا ۔وزیر
سماجی بہبود و ترقی نسواں نے اس انتہائی کم عمری میں جس انقلاب کی طرف سفر
شروع کیا ہے ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر ان کی یہ کمپین کامیاب ہو گئی اور
معاشرے نے یہ سمجھ لیا کہ ان کی نسل کی بقاء اور ترقی کے لیے صنفِ نازک کو
وہ تمام حقوق دینا لازم ہے جو حضرت محمد ؐ نے اﷲ تعالیٰ کے قرآن اور اپنی
سنت کی روشنی میں رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال کے طور
پر چھوڑے ہیں تو ہمارا معاشرہ ترقی کی انتہا کو ایک انتہائی کم مدت میں
حاصل کر سکتا ہے ۔عورتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اسے سلوک نہیں بلکہ
بد سلوکی کہا جاتا ہے اور بقول چچا غالب ہم اپنی نیک تمنائیں ان الفاظ میں
بیان کریں گے کہ
ہر ایک بات پہ کہنے ہو تم ’’ تو کیا ہے ‘‘
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟
نہ شعلے ہیں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تُند خو کیا ہے ؟
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزی عدو کیا ہے ؟
چیک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے ؟
جلا ہے جسم جہاں ،دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے ؟
رگوں میں دوڑتے پھر نے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے ؟
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادہ گلفام و مشکبو کیا ہے ؟
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے ؟
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ؟
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے ؟
قارئین وزیر سماجی بہبود و ترقی نسواں کے میرپور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سردار
شکیل نے جس سماجی موضوع کو زیر بحث لایا ہے اس پر بہت سا کام کرنا باقی ہے
ہم معاشرے کے تمام طبقات سے یہ درد مندانہ اپیل کریں گے کہ وزیر سماجی
بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب کی طرف سے شروع کیے گئے اس جہاد
میں شامل ہو جائیں اگر ہم نے ایک بیٹی ،بہن ،بیوی اور ماں کو اس کے حقوق دے
دیئے اور اسے بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وہ عزت دے دی جو ہمارے پیارے
پیغمبر حضر ت محمد ؐ امہات المومنین ،اپنی بیٹیوں اور تمام عورتوں کو دے کر
ہمارے لیے ایک مثال چھوڑ کر گئے ہیں تو رب کعبہ کی قسم ہماری آنے والی
نسلیں اخلاق کا وہ عروج حاصل کریں گی جو کسی بھی معاشرے کو تہذیب یافتہ بنا
دیتا ہے اﷲ تعالیٰ ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے آخر میں حسب
روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا
’’ بتاؤدو اور دو کتنے ہوتے ہیں ‘‘
دوسرے دوست نے تھوڑا سوچ کر جواب دیا
’’ یار تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ مجھے سوشل سٹڈی نہیں آتی ‘‘
پہلا دوست ہنس کر بولا
’’ اوبھائی میں نے تو اسلامیات کا سوال پوچھا ہے ‘‘
قارئین بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی اسلام کا نام لے کر ڈھیر سارے
ایسے کام کیے جاتے ہیں جن کا اسلام کے اصل پیغام کے ساتھ دور دور تک کوئی
تعلق نہیں ہوتا عورتوں کے ساتھ روارکھا جانے والا عدم مساوات کا رویہ برتنے
والے لوگ بھی اپنی ’’ مرضی کے اسلام ‘‘ کا سہارا لیتے ہیں اﷲ ہمیں دین کو
درست فہم میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین ۔وزیر حکومت
محترمہ فرزانہ یعقوب اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سردار شکیل نیکی کے جس کام کا آپ
نے آغاز کیا ہے ہم ہر حالت میں اس کا ساتھ دیں گے ۔ |