افسوس کے طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے یہ کالم یوم یکجہتی
کشمیر سے دو دن قبل لکھا مگر اخبار کو بھیجنے سے قاصر رہا ،کشمیریوں سے
رشتہ ہی ایسا ہے کہ گاہے بگاہے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر قلم اٹھاتا
رہتا ہوں،پاکستان میں ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و
خروش سے منایا جاتا ہے، عام تعطیل ہوتی ہے، کشمیریوں کے ساتھ اظہار محبت
کیا جاتا ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر زندہ رہتا ہے، تاریخ تازہ رہتی ہے،آزادی
کے متوالیجن کی صبح و شام گولہ باری اور بارود کے سائے میں گزرتی ہے جن کی
ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت محفوظ نہیں، جن کے بچے خوف کے سائے میں
پرورش پا رہے ہیں،ظلم کی اندھیر نگری میں ایک نعرہ فضا میں بلند کرتے ہیں
’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ افسوس کے ہم بحثیت قوم اِن کو بھول بیٹھے،کچھ دن
قبل سینئر کالم نگار محترم حافظ شفیق الرحمن نے ’’خطے کا فلسطین ‘‘کے عنوان
سے کالم میں بہت ہی عمدہ اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نقشہ کھنچتے
ہوئے کشمیر کو خطے کا فلسطین کا لقب دیا ،جن کی جدوجہد جاری ہے نہ ہتھیار
ہیں نہ ہی اصباب،لیکن پھر بھی وہ آزادی کے لیے لڑے جا رہے ہیں۔ تاریخ شاہد
ہے،آزادی کی یہ تحریک بہت پرانی ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے جب کشمیر کو
انگریزوں سے خرید کر موجودہ ریاست جموں و کشمیر کی تشکیل کی تو کشمیریوں نے
اپنے حقوق کے لیے ’’کشمیر جمہوریہ‘‘ تحریک چلائی۔ 1931 میں کشمیری عوام نے
اپنے سینوں میں گولیاں کھائیں، آزادی کے لیے قربانیاں دی۔ اس وقت پاکستان
کا وجود نہ تھا۔ 1940 میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو آزادی جموں وکشمیر
کی تحریک ،قیام پاکستان کے بعد ایک سیاسی مسئلہ بن کر ابھری۔ کشمیریوں میں
یہ احساس بہت پہلے سے موجود تھا کہ وہ ایک ایسے خطے میں ایک ریاست کے طور
پر موجود ہیں۔ ان کی اپنی شناخت ایک ہے۔ 1947 میں جب پاکستان اوربھارت کو
آزادی حاصل ہوئی تو کشمیریوں کو بھی آزادی کی امید دکھائی دی مگر انگریز
اور ہندو کی ملی بھگت سے جموں و کشمیر کو متنازعہ بنا دیا گیا اور بھارت یہ
مسئلہ اقوام متحدہ لے گیا۔ مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کی حکومتوں نے
استعمال کیا۔ 1949 میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفراﷲ نے اقوام متحدہ
قرارداد پیش کی کہ اس مسئلے کو مسئلہ جموں و کشمیر کے بجائے پاکستان و
ہندوستان کے مابین تنازعہ کے طور پر سمجھا جائے۔ اِس ترمیم کے بعد بین
الاقوامی برادری نے جموں و کشمیر کو پاک بھارت کا متنازعہ مسئلہ قرار تو دے
دیا مگر ان 66 برسوں میں پاکستان کو چار ایسے ملک نہ مل سکے ،جو بھارت کے
خلاف کشمیر کے سلسلے میں اِس قرارداد کی تائید کر سکتے۔ اقوام متحدہ کی
قرارداد کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان لائن قرار دی گئی تھی، دونوں ملکوں
کے درمیان کئی بار مذاکرات ہوئے کئی عہد و پیماں ہوئے مگر مسئلہ کشمیر حل
کے بجائے مزید الجھتا گیا، مسلمان ممالک بھی آزادی کشمیر کے لیے بھارت پر
دباؤ ڈالتے اور نہ ہی اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتے ہیں۔ جب کہ بھارت کے
ساتھ ان کی کھربوں ڈالر کی تجارت ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا پھر بھی
حکمران اِس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی کے اُس مقام تک نہیں پہنچ پائے جہاں
جموں و کشمیر کی آزادی و خود مختاری ممکن ہو سکے۔حال میں بھارت کی نومولود
سیاسی پارٹی عام آدمی پارٹی(آپ )کے سربراہ اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروی
کیجروال نے کشمیر کے حوالے سے بیان دیا کہ’کشمیریوں کو آزادی رائے کا حق
دیا جائے‘‘تو ہندو آگ بگولہ ہو گئے ۔انہوں نے عام آدمی پارٹی (آپ )کے دفاتر
پر حملے شروع کر دئیے ۔ اقبال بھی کشمیر کی آزادی پر چیخ اٹھتے تھے ۔ــــ
آہ یہ قوم نجیب ومرب دست و تر دماغ
اے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر
پاکستان جو ترقی کی دوڑ میں انڈیا سے پیچھے رہ گیا ہے بلکہ اُلٹے قدموں میں
رینگ رہا ہے مزید ایٹم بم بنا کر اس سے آگے نکل جائے گا……؟؟؟ امریکہ و
اسرائیل کو مار گرائے گا……؟ یا پھر کشمیر کو آزاد کرا لے گا……؟ اگر تاریخ
کشمیر کو1988 کے بعد سے دیکھا جائے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں خون کی ندیاں
بہائی اور خواتین کے عزتیں پامال کی گئی ۔ کشمیری مسلمان انسانی جاٖٖن و
مال و آبرو کی غیر معمولی اور عظیم قربانیاں دے کر آزادی اور حق خود ارادیت
کی تحریک بین الاقوامی افق پر لائے آج بھی یہ قربانیاں جاری ہیں، ہندوستان
کی طرف سے ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم میں کمی کے بجائے تیزی آ رہی ہے۔
ہندوستان نے مظالم ڈھانے کے لیے وحشیانہ طریقے استعمال میں لائے ،پاکستان
کی عدم توجہ کی وجہ سے اب کشمیری اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ انسانی
حقوق اور سیاسی جماعتوں کی عدم توجہ بھی شرمناک ہے۔ اگر بھارتی فوجیوں کے
کشمیر میں مظالم پر نظر ڈالی جائے، جنوری 2011 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے
سو پور میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں دہشت گردی کے دو المناک واقعات سامنے
آئے جو جواں سالہ بہنوں عارفہ اور اختر کو سفاکی سے قتل کیا گیا۔ جموں و
کشمیر میں پیش آنے والے اس واقعہ نے ہر انسان کو خون کے آنسو بہانے پر
مجبور کر دیا۔ اِس واقعہ سے چند دن قبل بھارتی فورسز نے آسیہ اور نیلوفر کی
عصمت دری کے بعد اُن کو سفاکانہ طریقے سے قتل کر دیا ۔ کشمیریوں نے ہمیشہ
پاکستانیوں کے ساتھ مثبت رویہ روا رکھا، وہاں سے آنے والے مجاہدین سے میری
ملاقاتیں ہوئیں ایک مجاہد کا واقعہ میں آپ کی نذر کر رہا ہوں جس کو سن کر
میری آنکھوں سے رواں آنسو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انشاء اﷲ ایک دن
ضرور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ مجاہد کہتا ہے کہ ہم دو ساتھی کشمیر کے ایک
علاقے میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، ایک جنگل میں چھپ کر ریکی کر رہے تھے ہمارے
پاس کھانے کے لیے خوراک ختم ہو چکی تھی ہم نے پلان ترتیب دیا کہ رات ہوتے
ہی ہم آبادی میں جائیں گے، کسی گھر سے کھانا لے کر واپس آ جائیں گے، آدھی
رات کا وقت تھا ہم نے آبادی کا رخ کیا اور ایک گھر کادروازہ کھٹکھٹایا،
اندر سے زنانہ آواز آئی، ہمیں معلوم تھا کہ یہ مسلمانوں کا گھر ہے، ہم نے
اپنا تعارف کروایا، عورت نے دروازہ کھولا ہم اندر داخل ہو گئے، اُس نے
ہماری خدمت مدارت کی، اُس نے ایک ماں سے بڑھ کر ہمارے ساتھ سلوک روا رکھا
لیکن کسی مخبر نے انڈین آرمی کو ہماری موجودگی کی اطلاع دی اورآرمی اُس
عورت کے گھر آ گئی اُس نے ہمیں چھپا دیا، انڈیا فورسز جب گھر میں داخل ہوئی
اور اُس عورت سے سوال کیا کہ کہاں چھپایا ہے، اُن آتنگ وادیوں کو تو وہ صاف
مکر گئی اُس کو انہوں نے بہت ڈرایا دھمکایا، اُس کو مارا پیٹا بھی آخر کار
وہ بے بس ہو گئی، وہ بولی میں ابھی انہیں لاتی ہوں ہم چوکناہو گئے ، لیکن
وہ عورت ہمارے کمرے میں آنے کے بجائے دوسرے کمرے میں گئی اور اپنے جواں
سالہ بیٹے کو ساتھ لائی اور اُنہیں کہا یہ ہے مجاہد ہم دونوں کو ایک جھٹکا
لگا ابھی ہم سنبھلے ہی تھے کہ فوجیوں نے اُس لڑکے پر فائر کھول دیے وہ پر
شہید ہو گیا، آرمی فورسز جشن مناتے ہوئے وہاں سے نکل گئے عورت ہمارے پاس
آئی اور ہم اُس سے پہلے کہ کچھ پوچھتے، وہ بولی بیٹا تم (پاکستانیوں) کا ہم
پر بہت احسان ہے،اپنے بیٹے کی قربانی دے کر احسان کا ایک فی صد شاید میں
اپنا قرض اتار چکی، اس ماں کا حوصلہ دیکھ کرہم ششدرہ رہ گئے، اُس عورت کو
اپنے بیٹے کی لاش کی کوئی پروا نہیں تھی وہ ہماری خدمت میں لگی رہی اور رات
کے آخری پہر ہم وہاں سے نکلے شاید میں اُس ماں کو اور اُس رات کو زندگی بھر
نہ بھلا سکوں یہ تھی ۔اگر دوسری طرف نظر ڈالی جائے توکشمیریوں کا پاکستان
سے محبت کا ایک اور ثبوت ،علیحد گی پسند تنظیم دختران ملت کی سربراہ آسیہ
اندرابی کی قیادت میں گذشتہ سال سرینگر چوک میں کشمیری خواتین نے پاکستان
اور مسلمانوں کی بیٹی عافیہ صدیقی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں
خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، اب ذرا اُن لوگوں پر نظر ڈالتے ہیں جو
انتہائی کٹھن حالات کے باوجود بھی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں
ہم انہیں جتنا کوستے رہے لیکن اِس تلخ حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اپنی جان
کی بازی لگانے کے لیے وہ میدانوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ 1988 میں جب بھارتیوں
کے مظالم میں تیزی آئی تو پاکستان میں کچھ لوگوں نے جماعتوں کی شکل اختیار
کی، ان میں کچھ 1950 یا اس سے بھی پہلے کام کر رہی تھیں لیکن اس کے بعد وہ
منظم ہوئی ان میں لشکر طیبہ، جیش محمد، بیت المجاہدین، البدر المجاہدین،
حزب المجاہدین، تحریک المجاہدین سرفہرست ہیں لیکن ہمارے بعض بزدل حکمرانوں
نے اکثر جماعتوں پر پابندی لگو ا کر بھارت کے لیے راستہ ہموار کر دئیے اور
کشمیریوں کی آزادی کے خواب کو مزید دھندلا کر دیا۔ آج پاکستانی جوان ایک
لمحے کے لیے سوچے کہ اُس نے کشمیریوں کے لیے وقت نکال کر کسی پلیٹ فارم سے
اُن کی آزادی حق خود ارادیت کے لیے آواز اٹھائی؟کشمیر کے لال چوک میں
لہراتے ہوئے پاکستانی پرچم کا ہی مان رکھ لو یاد رکھو جوانوں ’’شہید کی جو
موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ وہ دن بھی یاد رکھو جب کشمیری لیڈر کو شہید کیا
گیا تو کشمیر سے ا ٹھنے والا یہ نعرہ ’’تیری منڈی میری منڈی راولپنڈی
راولپنڈی‘‘ تو یہاں کے کچھ باغیرت نوجوانوں نے اِس کا جواب دیا تھا ’’تیرا
نگر میرا نگر سری نگر سری نگر‘‘ بھارتی حکومت ہماری شہ رگ کو کاٹنے پر
سرگرم عمل ہے، امن کی آشا پر بنے نام نہاد فورم اس مسئلے کو پس پشت لے جانے
کی کڑی ہیں۔ خدارا پاکستانیوں جاگ جاؤ اگر اب بھی سوئے رہے تو یاد رکھو جب
شہ رگ کٹ جاتی ہے تو انسان مر جاتا ہے۔
’’ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر‘‘
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری |