جلدی اپنا کام ختم کرکے میں آفس سے نکل کر بنک جانا چاہتی
تھی لیکن میری نظر میز پر پڑی رسید پر ٹھہر گئی جس کی مجھے فوٹو کاپی
کروانی تھی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ آفس کی فوٹو کاپیئر مشین خراب تھی سوچا ساتھ
ہی اسلامیات ڈیپارٹمنٹ ہے چلو وہاں سے کرواتی جاؤں گی۔ پیین نے کہا بھی تھا
میڈم میں کروا دیتا ہوں لیکن میں نے انکا ر کر دیا کیوں کہ میں ذاتی کام
خود کرنے پر ترجیح دیتی ہوں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ انسان کوزیادہ نہیں تو
کم از کم تھوڑاسا حلال کر کے کھانا چاہیئے اور سرکاری ملازموں سے ہمیشہ
سرکاری کام ہی لینا چاہیے خیر چند ہی قدموں کے فاصلے پر اسلامیات ڈیپارٹمنٹ
میں داخل ہوئی، آفس میں بیٹھے پروفیسر صاحب بائیں ہاتھ میں موبائل پکڑے
دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے کچھ میسج لکھ رہے تھے اور زیر لب مسکرا
رہے تھے (ایک لمحہ کے لیے مجھے محسوس ہو ا کہ میرا ایک سال کا بھتیجا ان سے
بہتر موبائل سے کھیل سکتا ھے۔ ) جلدی تو مجھے تھی پر نہ جانے کیوں میں بیٹھ
گئی ۔ پروفیسر صاحب کے سر پر سندھی ٹوپی ، کالی اور تھوڑی سفید داڑھی ان کی
با ادب اور بارعب شحصیت کا ٹھپا لگا رہی تھی ،لیکن ان کے ہونٹوں پر ہلکی
مسکراہٹ ان کے رنگین مزاج کی چغلی کھا رہی تھی۔ بات دور نکل جائے گی چلیں
واپس موضوع پہ آئیں، جی تو موبائل پر جنید جمشید کی خوبصورت آواز میں نعت
کی دلفریب ٹون بجی۔ پروفیسر صاحب موبائل کے استعمال میں تھوڑے اناڑی ثابت
ہوئے، کال رسیو کرتے ہی انہوں نے سپیکر کا بٹن دبا دیا اس سے کالر کی آواز
کمرے میں بلند ہونے لگی۔ لاجواب بے مثال آواز تھی خاتون نے چھکلتے ہوئے
لہجہ میں سلام عرض کیا ،اسلامیات کے پروفیسر کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی ،دل
چاہا واپس چلی جاؤں لیکن تجسس تھا سو بیٹھی رہی۔ خاتون کچھ زیادہ ہی شوخ
آواز اور شوخ مزاج ثابت ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
حیرت اس بات کی تھی کہ اس داڑھی کے پیچھے کیسا انسان چھپا بیٹھا ہے خاتون
کا کہنا تھا ’’میرے حاجی صاحب کل زمین کو سراب کیئے بغیر ہی چلے گئے‘‘ ،
پروفیسر’’ محترمہ کل جمعہ تھا دینی پیاسوں کو بھی تو سراب کرنا تھا نا اب
میں اتنا بے حس اور بد کردار بھی نہیں ہوں کہ جمعہ پڑھانے کے فرائض سے منہ
موڑ لوں ــ‘ــ۔ خاتون نے ایک گہری سانس لی اور کہا ، ـ’’ بنتے تو بہت حاجی
ہیں دیکھ لیا آپ کے جمعہ کو بھی۔۔۔۔۔۔ـ‘‘ ۔پروفیسر نے بے ساختہ قہقہ لگاتے
ہوئے کہا ’’ کیا حاجیوں کے جذبات نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔؟‘‘ اور فون بند کر دی،
اور میری طرف متوجہ ہوئے جی میڈم معذرت چاہتا ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑا
کال بہت ضروری تھی لوگوں نے تو مفت میں علماؤں کو آگے چڑھایا ہوا ہے۔ میں
اپنے وقت ضائع کرنے پر پچھتا رہی تھی لہذا کچھ بھی کہنا ضروری نہ سمجھا
اورآفس سے نکل آئی۔
سارے راستے یہی سوچتی رہی کہ انسان آخر چاہتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ علماء، مولوی
حضرات ،حاجی صاحبان اسلام کے رکھوالے چوغوں داڑیوں اور ٹوپیوں کا سہارا لے
کر نفس کی تسکین کر رہے ہیں ۔ایسے افراد اسلام کا نام خراب کر کے مغربی
طاقتوں کی اسلامی ملک میں اجارہ داری قائم کرنے کا موقع فرہم کر رہے ہیں
۔یہی افراد گھر کے بھیدی ہیں اور اپنی لنکا ڈھا رہے ہیں۔ غیرت کے نام پر
قتل کرنے والے خود کتنے غیرت مند ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟یہی افراد سکولوں ،
مسجدوں اور مدرسوں میں بیٹھے قوم کے معماروں کواسباق پڑھا رہے ہیں لیکن
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سربراہ کس قسم کی سربراہی فرما رہے ہیں اور کس
حد تک ملک کی جڑیں مظبوط کر رہے ہیں ۔یہ میری ذاتی رائے ہے اور اس میں کوئی
شک نہیں کہ ذاتی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔کہنے کو تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے
لیکن کون لوگ اس کو لمحہ فکریہ سمجھتے ہیں اور کون لوگ اس کو لمحہ تماشہ
سمجھتے ہیں ۔بہر حال جو کچھ جو بھی سمجھ رہا ہے اس کا اثر اسلامی جمہوریہ
پاکستان پر ہو رہا ہے اور بیرونی طاقتیں انہی لمحوں سے فائدہ اٹھا کر اس
ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔بس ایک اجتماعی سوچ اور عمل کے تحت ہی ملک
کومنافقوں سے بچایا جا سکتا ہے۔۔۔
کچھ لوگ اس کالم کو افسانہ سمجھیں گے، کچھ حقیقت ، کچھ شدت پسندی اور کچھ
آنکھوں دیکھا حال۔۔۔۔۔۔ مجھے بس یہ کہنا ہے کہ جو بھی سمجھیں لیکن یہ تحریر
ہمارے معاشرے میں ہونے والے واقعات کی عکاسی کرتی ہے۔ بہت ساری تنقیدی
نگاہیں اس پر پڑیں گی اور تنقیدی قلم اٹھنے کا بھی خدشہ ہے لیکن تنقید
برائے اصلاح ہونی چاہیے حاص طور پر ان کی اصلاح جنہوں نے اس ملک کا بیڑا
اٹھایا ہوا ہے۔
|