چھیدا ہوا پاکستان

’’سر پلیز میرے 1.5 نمبر بڑھا دیں کیونکہ میرا CGPA کا مسلہ بن رہا ہے ۔صرف 1.5 نمبر دینے سے میں ڈگری کے لیے Eligible ہو جاؤں گا۔ وگرنہ میرے 2 سال ضائع ہو جائیں گے‘‘ یہ التجا ایک یونیورسٹی (جس کا نام میں یہاں لینا مناسب نہیں سمجھتی) کے طالب علم نے کی۔ آفس میں HOD، میں، طالب علم اور دو اور نامور ہستیاں برجمان تھیں۔ طالب علم بروز التجا کیئے جا رہا تھا مگر HOD نے اپنے Laptop سے نظر اٹھا کر اسے دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا، آفس میں لگے گیس ہیٹر سے میرے سر میں درد اور سوچ میں گرمی پیدا ہو رہی تھی۔ طالب علم مسلسل ایک ہاتھ جیب میں ڈالے اور دوسرا ہاتھ دائیں کان کی لو دبائے جا رہا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ زہنی طور پر وہ طالب علم پریشان ہو رہا ہے، جوں جوں وہ نمبر کی بات کرتا ساتھ اپنا کان زور سے کھینچتا اور دائیاں پاؤں ہلکے ہلکے حرکت میں رکھتا۔ طالب علم کی ان حرکتوں سے مجھے بہت کوفت ہوئی اور HOD سے کہا سر آپ اس کو اچھے طریقے سے فارغ کریں یہ بہت پریشان ہے تاکہ مجھے بھی ا پنے Proposal Researchپہ بات کرنے کا موقع ملے۔ HOD نے جواب دیا ـ’’میڈم میں ایک بار Marking کرکے رزلٹ بھجوا چکا ہوں1.5 نمبر کے لیے میں دوبارہ اپنی پنسل کو حرکت میں نہیں دے سکتا کیونکہ اس حرکت سے یونیورسٹی میرے خلاف حرکت میں آجائے گی‘‘۔ـ

مگر کیا سچ میں حرکت ہوتی ہے۔۔۔؟ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، اس ملک میں کرنے کو کیا کچھ نہیں ہور ہا۔ ایک طالب علم چند نمبرز کے لیے گرے ہوئے لوگوں کے تلوے چاٹ رہا ہے اور دوسری طرف اعلی آفسران جعلی ڈگریوں کے ڈھیر سنبھالے اسمبلیوں میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں ۔ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 54 کے قریب اراکین کے ڈگریاں جعلی قرار دی جا چکی ہیں۔ جب کہ 200 قریب ارکان کی ڈگریاں ابھی بھی مشکوک ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس میں ایسے بھی لوگ شامل ہیں جو امتحان میں حاضر ہی نہیں ہوئے اور ڈگری تھام لی۔ HEC کے پاس ان سب کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔۔۔۔ لیکن کیا اس انکشاف کے بعد کوئی حرکت ہوئی۔۔۔۔۔۔ ؟ ہماری اسمبلیاں اس قسم کے زہر کے پیالے پیتے جا رہی ہیں، الیکشن کمیشن وقتا فوقتا ان ارکان کو نوٹس کا ٹیکہ بھی لگا تا رہتا ہے۔ لیکن کیا حاصل۔۔۔؟ کیا اس کے باوجود حرکت ہوئی۔۔۔ِ؟

دوہری سوچوں کے مالک لوگ نہ صرف اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں بلکہ اعلی وزارتوں سے بھی دلی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ بعض ارکان ایسے بھی ہیں جو بیچ کا راستہ اختیار کر کے سیکرٹری کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ تمام شرمناک حرکتیں ایک ایسے ملک میں ہورہی ہیں جس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لیبل لگایا گیا ہے۔ جس کے ارکان اسمبلی ، اسلام ، قرآن، قانون اور آئین کی حفاظت کا حلف اٹھاتے ہیں اور انھوں نے اسی پاکستان کو ’’پ‘‘ سے لے کر ’’ن‘‘ تک چھید کے رکھ دیا ہے اور اب یہ چھیدا ہوا پاکستان آج عالمی سطح پہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ چھیدا ہوا پاکستان کبھی میڈیا کے طرف رحم کی نظر سے دیکھتا ہے ، کبھی سپریم کورٹ کی دہلیز کو چاٹتا ہے۔ اور کبھی دوسرے ممالک کی بغلوں میں جھانکتا ہے۔

اس صورت حال کے ذمے دار منتحب کردہ ارکان ہیں، جو سفید چادر لپیٹ کر کالے عمل کرتے ہیں۔ملک کے مستقبل اور معماروں کو ذینی اذیت دے کر پاکستان کو ایک ڈفلی بنا رہے ہیں جس کو ہر ملک اپنی اپنی بساط کے مطابق بجا رہا ہے ۔ حکومت ذاتی مفاد کے لیے حزانے کو استعمال کر رہی ہے لیکن کچھ لوگ بھول رہے ہیں کہ ملاء کی دوڑ مسجد تک ہی ہوتی ہے، کیونکہ اب اس کے عوام آہستہ آہستہ بیدار ہو رہی ہے۔ برسوں کی نیند سے جاگی ہوئی قوم کے منہ میں دوبارہ انگوٹھا دلا کر اسے سلانا مشکل ہوتا ہے۔ لہذا اب ملک کی مٹی زرخیز کر کے نئے پودے اگانے کا وقت آگیا ہے کیونکہ اسی سے پاکستان میں کئے گئے چھیدوں کو بھرا جا سکتا ہے۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 41350 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.