قارئین! آج انتہائی حساس اور
پیچیدہ موضوع پر آپ کے سامنے چند انتہائی سچی گزارشات اور کچھ اندر کی
کہانیاں آپ کے سامنے ہم پیش کر رہے ہیں موضوع اتنا اہم ہے کہ ہم نے آج
فیصلہ کیا ہے کہ براہ راست تمام باتیں بغیر کسی گھماؤ پھراؤ کے آپ کے سامنے
رکھی جائیں۔ آزاد کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے کہ جس کے تین ڈویژنز میرپور،
مظفرآباد اور راولاکوٹ میں 1947 ء سے لے کر 2011ء تک انتہائی فضول قسم کی
برادری ازم پر مبنی اور علاقائیت جیسی منافرتوں کو پروان چڑھانے والی سیاست
کو فروغ دیا جاتا تھا جاٹ، راجپوت، سدھن، گوجر، مغل، انصاری، مرزا، جرال،
بھٹی اور دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اہل سیاست نے ہمیشہ
برادریوں اور قبیلوں کے نام پر یا تو بلیک میل کیا اور یا پھر تقسیم در
تقسیم کے عمل سے گزارتے ہوئے انہیں اس حد تک شعور یافتہ ہی نہ ہونے دیا کہ
وہ ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں کی ایشوز اور ایجنڈاز کی سیاست کی طرف
توجہ دے سکتے حالانکہ 43 لاکھ نفوس پر مشتمل آزاد کشمیر کا یہ علاقہ
انتہائی زبردست قسم کے وسائل بھی رکھتا ہے اور یہاں کی افرادی قوت کے متعلق
انتہائی دلچسپ قسم کے حقائق بھی موجود ہیں میرپور ڈویژن کے دس لاکھ سے زائد
افراد دوہری شہریت رکھنے والے برطانوی کشمیری شہری ہیں اور مجموعی طور پر
آزاد کشمیر کے بائیس لاکھ کے قریب افراد برطانیہ، امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ
،سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں یا تو دوہری شہریت رکھتے ہیں
اور یا پھر نوکری کاروبار یا محنت مزدوری کی غرض سے وہاں پر مقیم ہیں سٹیٹ
بینک آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق صرف میرپور ڈویژن کے چھوٹے سے
علاقے میں کام کرنے والے دو سو کے قریب انٹرنیشنل اور نیشنل بینک کی برانچز
میں پانچ سو ارب روپے سے زائد سرمایہ موجود ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ اس علاقے کی اہمیت کیا ہے اور اسی طرح حال ہی میں برطانوی ہاؤس آف
لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد جو میرپور ہی سے تعلق
رکھتے ہیں انہوں نے راقم سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ہر سال یہ
تارکین وطن پاکستان کو چودہ ارب ڈالرز سے زائد فارن ایکسچینج بھیجتے ہیں جو
پاکستان کے لئے ’’لائف لائن‘‘کی حیثیت رکھتا ہے۔
قارئین! اس تمہید کے بعد اب آئیے موضوع پر بات کریں جیسا کہ ہم نے آپ کو
بتایا کہ جون 2011کے انتخابات سے پہلے آزاد کشمیر میں تینوں ڈویژنز کے عوام
کو مختلف ایشوز پر لڑایا جا تا تھا اور ان ایشوز میں میڈیکل کالج کا قیام
سب سے بڑا جھگڑا تھا جس کیلئے تینوں ڈویژنز کے عوام آزاد کشمیر کی بیشتر
سیاسی جماعتوں اور ان کے ’’بقراط صفت‘‘ لیڈرز کی مہربانیوں سے آپس میں لڑتے
رہتے تھے اور کئی مرتبہ میڈیکل کالج کے قیام کا فیصلہ ہوتے ہوتے رہ جاتا
تھا 26 جون 2011کو پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر میں بھاری اکثریت کے ساتھ
کامیا ب ہوئی مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے مسلم کانفرنس کے بطن سے جنم لے کر
اپنی اس مادر جماعت کا تقریباً صفایا کر دیا اور 2006ء کی اسمبلی میں
35نشستیں جیتنے والی مسلم کانفرنس پانچ نشستوں تک محدود ہو گئی چوہدری
عبدالمجید جو پیپلزپارٹی کے صدر تھے اعصاب شکن جنگ کے بعد قائد ایوان منتخب
ہوئے اور اپوزیشن کے زمانے سے وہ یہ راگ الاپ رہے تھے کہ ان کی پارٹی کی
شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو نے برطانیہ میں بریڈ فورڈ کے شہر میں ان کی
دعوت پر آخری جلسے میں شرکت کی تھی اور اس جلسے میں شہید بی بی نے یہ وعدہ
کیا تھا کہ اہل میرپور اور تارکین وطن کشمیریوں کی قربانیوں کے اعتراف میں
وہ میرپور کے عوام کو برسراقتدار آنے کی صورت میں میڈیکل کالج اور
انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے تحفے دیں گی۔ قصہ مختصر چوہدری عبدالمجید وزیراعظم
آزاد کشمیر بننے کے فوراً بعد وفاقی حکومت، صدر پاکستان آصف علی زرداری اور
پارٹی کی مرکزی قیادت پر زور دینے لگے کہ شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو کے
یہ وعدے وصیت ہیں اور انہیں پورا کیا جائے اس موقع پر مظفرآباد اور
راولاکوٹ کے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی چوہدری عبدالمجید نے کمال بصیرت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تاریخی کام کیا۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے جب
انہیں میرپور میں میڈیکل کالج کے قیام کی منظوری دیتے ہوئے آگے بڑھنے کا
کہا تو اس موقع پر چوہدری عبدالمجید صدر پاکستان آصف علی زرداری سے کہنے
لگے کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرپور اور مظفرآباد میں ایک ساتھ دو
میڈیکل کالجز قائم کر دیئے جائیں یہ آزاد کشمیر کے عوام کا حق ہے اور
پاکستان پیپلزپارٹی کے اس سلوگن کا عکاس ہو گا کہ جس کے مطابق ہمیشہ یہ کہا
جاتا ہے کہ بانی قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی بنائی ہی کشمیر
کے نام پر تھی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اجازت دیدی اور بیک جنبش قلم
آزاد کشمیر میں ایک نہیں بلکہ دو میڈیکل کالجز میرپور اور مظفرآباد کے مقام
پر منظور ہو گئے اس دوران پونچھ ڈویژن اور راولاکوٹ کے عوام میں شدید ردعمل
دیکھنے میں آیا اور راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے صدر آزاد کشمیرسردار یعقوب
نے صدر پاکستان آصف زرداری اور وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی سے
خود بھی بات کی اور پاکستان آرمی اور پاکستان کی بیورو کریسی میں
موجودپونچھ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سدھن قبیلے کے افراد کو اس ایک ایجنڈے
پر متحد کر لیا کہ راولاکوٹ میں بھی میڈیکل کالج قائم کیا جائے یہ تحریک
بھی کامیاب ہوئی اور راولاکوٹ میں بھی میڈیکل کالج منظور ہو گیا۔
یہاں تک کی کہانی تو انتہائی سادہ اور دلنشیں ہے اب آیئے چلتے ہیں کچھ
پیچیدگیوں کی طرف۔ یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ میڈیکل کالج دو حصوں پر
مشتمل ہوتا ہے پہلے حصے کو میڈیکل فیکلٹی کہا جاتا ہے جس میں انتہائی تجربہ
کار اور ماہر پرنسپل ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر تمام مضامین سے تعلق رکھنے
والے ماہر ترین پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز اور درجہ
بدرجہ دیگر عملے کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرے حصے کو ٹیچنگ ہسپتال کی سہولت
کہا جاتا ہے یوں سمجھ لیں کہ وہ میڈیکل کالج کہ جہاں ایک کلاس میں ایک سو
میڈیکل سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہوتے ہیں پی ایم ڈی سی کی یہ شرط ہے کہ اس میڈیکل
کالج کے ساتھ تمام جدید ترین طبی وتشخیصی سہولتوں کے ساتھ مزین پانچ سو
آپریٹنگ بستروں کا ہسپتال منسلک ہونا لازمی ہے۔
قارئین! محترمہ بینظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے لئے پاکستان میں
پانچ میڈیکل کالجز کو بطور پرنسپل کامیابی کیساتھ چلانے والے انتہائی ماہر
اور دیانتدار پروفیسرآف فورنزک میڈیسن پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کا
انتخاب ہوا، میر واعظ مولوی محمد فاروق میڈیکل کالج مظفرآباد کے لئے
پروفیسر ڈاکٹر اقبال منتخب ہوئے جبکہ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
میڈیکل کالج راولاکوٹ کے لئے پہلی مرتبہ کسی بھی میڈیکل کالج کیلئے پرنسپل
بننے والے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الرحمن کے نام قرعہ فال نکلا۔ان تینوں پرنسپل
صاحبان نے شب وروز دوڑ دھوپ کر کے اپنے اپنے میڈیکل کالج کیلئے میڈیکل
فیکلٹی اکھٹی کرنی شروع کی سب سے پہلے تجربہ کار ترین پروفیسر ڈاکٹر میاں
عبدالرشید نے کراچی، لاہور، راولپنڈی سے لے کر پاکستان کے تمام شہروں سے
ماہر ترین پروفیسرز ، ایسوسی ایٹ پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز سمیت دیگر عملہ
جمع کر لیا ابھی ان تمام کالجز کے پی سی ون منظور نہیں ہوئے تھے اس لئے ان
کالجز کے تمام عملے کے لئے وزیراعظم آزاد کشمیر نے انقلابی فیصلہ کرتے ہوئے
انہیں تنخواہیں اور دیگر مراعات آزاد کشمیر کے بجٹ اور ترقیاتی سکیموں میں
کٹوتی لگا کر دینے کافیصلہ کیا یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان کے
تمام بڑے شہروں سے آنے والے ان ڈاکٹرز کو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے
مشاورت کرتے ہوئے پاکستان کے تمام میڈیکل کالجز کی نسبت 30سے 40 فیصد زیادہ
تنخواہیں اور مراعات دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ میڈیکل فیکلٹی میں کوالٹی
ڈاکٹرز اکٹھے کئے جائیں یہ تینوں میڈیکل کالجز کامیابی کے ساتھ چلنے لگے
اور پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی لیڈرز صبح شام مختلف
جلسوں میں ان تین میڈیکل کالجز کو میگا پراجیکٹس کا نام دے کر سیاسی سطح پر
اس کامیابی کا جشن منانے لگے میڈیکل کالجز کو تسلیم کروانے کے لئے پاکستان
میڈیکل اینڈڈینٹل کونسل نے جو وزٹ کیے وہ بھی کامیاب ہوئے اور کلاسز میں
داخلے شروع ہو گئے یہاں تک کی کہانی انتہائی پرسکون اور دل کو تسکین دینے
والی ہے اضطراب کا سامان اس وقت پیدا ہوا کہ جب پاکستان میں پیپلزپارٹی کو
مسلم لیگ ن اور عمران خان کی سونامی تحریک انصاف نے زبردست قسم کی شکست دی
اور پیپلزپارٹی سندھ تک محدودہو کر رہ گئی قبل ازیں آزاد کشمیر کی اپوزیشن
جماعت مسلم لیگ ن آزاد کشمیر بار باریہ بات دہرا رہی تھی کہ آزاد کشمیر کا
وہ علاقہ کہ جہاں ایک میڈیکل کالج کی ضرورت تھی وہاں کسی بھی قسم کی مالی
منصوبہ بندی کئے بغیر تین میڈیکل کالجز قائم کئے گئے ہیں اور ان میڈیکل
کالجز جیسے ’’سفید ہاتھیوں‘‘کو پالنے کے لئے آزاد کشمیر کی تمام ترقیاتی
سکیمیں روک دی گئی ہیں اور پانچ سال کا ترقیاتی منصوبہ آئندہ پندرہ سالوں
میں بھی پورا نہیں ہو سکے گا جوں ہی پاکستان میں مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی
اسی موقع پر آزاد کشمیر کے ان میڈیکل کالجز کے پی سی ون منصوبے منظوری کے
لئے وفاقی وزارت پلاننگ ومنصوبہ بندی اور وزارت خزانہ میں پیش ہوئے اور
وہاں پر جاکر فائل رک گئی اورمیڈیکل کالجز کے تمام عملے کی تنخواہیں بندش
کا شکار ہو گئیں پانچ ماہ گزر گئے اور ان میڈیکل کالجز کے عملے کوتنخواہیں
ادا نہ کی گئیں بے چینی بڑھنے لگی اور معاملہ ڈراپ سین کی طرف جانے لگا
یہاں ہم میڈیکل کالج کے دوسرے اہم ترین جزو یعنی ٹیچنگ ہسپتال کے متعلق بھی
کچھ باتیں آپ کو بتاتے چلیں میرپور میڈیکل کالج کے ساتھ نیو سٹی ہسپتال کو
ٹیچنگ ہسپتال کی حیثیت سے پی ایم ڈی سی کے سامنے پیش کیا گیا راولاکوٹ کے
میڈیکل کالج کے ساتھ سی ایم ایچ اور شیخ زید ہسپتال منسلک کیا گیا جبکہ
مظفرآباد میڈیکل کالج کے لیے بھی ایمز اور سی ایم ایچ موجود تھے میرپور کا
سب سے بڑا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپو ر میں ہی پہلے سے قائم ایک
پرائیویٹ کالج محی الدین میڈیکل کالج کے ساتھ منسلک تھا ایک موقع پر یہ
خطرہ پیدا ہوا کہ پی ایم ڈی سی محترمہ بے نظیربھٹو شہید میڈیکل کالج میرپو
ر کے ساتھ مناسب ٹیچنگ ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اس کالج پر پابندی عائد ہو
سکتی ہے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے راتوں رات میرپور کے ہسپتال کو
ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال قرار دے کر اس ہسپتال کا محی الدین اسلامک میڈیکل
کالج میرپور کے ساتھ کیا گیا معاہدہ کینسل کر دیا اور اس ہسپتال کو میرپور
میڈیکل کالج کے ساتھ اٹیچ کر دیا یہاں ہم یہ بات بتاتے جائیں کہ پروفیسر
ڈاکٹر عبدالرشید میاں پر ان کے ناقدین کی طرف سے دو سالوں سے با ر بار یہ
الزام لگایا جاتا تھا کہ آخر کیوں وہ میڈیکل کالجز کے عملے اور ماہر ترین
پروفیسر ڈاکٹرز کو استعمال کرتے ہوئے نیوسٹی میرپور کے ہسپتال کو اپ گریڈ
کر کے اسے باقاعدہ ٹیچنگ ہسپتال کی شکل نہیں دے رہے پروفیسر ڈاکٹر میاں
عبدالرشید اس الزام کا بار بار یہی جواب دیتے رہے کہ حکومت آزادکشمیر
انتہائی پیچیدہ قسم کی مالی مشکلات سے گزر رہی ہے اور کالج کے عملے کی
تنخواہیں ہی پورا کرنا بہت مشکل ہے ا نہیں نیو سٹی ہسپتال کو ٹیچنگ ہسپتال
بنانے کے لیے فنڈز کون مہیا کرے گا محی الدین اسلامک میڈیکل کے لوگوں نے
آزادکشمیر کی عدالت میں کیس کر دیا اور خوش قسمتی سے اس کیس کا فیصلہ حکومت
آزادکشمیر کے حق میں ہوا اسی دوران یہ خبر میڈیا پر آئی کہ پی ایم ڈی سی نے
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کا ’’ سرپرائز وزٹ ‘‘ کرتے
ہوئے فیکلٹی میں کچھ کمی اور ٹیچنگ ہسپتال کا معیار کے مطابق نہ ہونے کی
وجہ سے اس کالج میں کچھ عرصے کے لیے نئے داخلوں پر پابندی لگا دی ہے اس خبر
کی باز گشت ابھی گونج رہی تھی کہ اچانک میڈیا پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو
گئی کہ انتہائی دیانتدار اور اہل ترین ماہر پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو
میڈیکل کالج میرپور پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو بغیر کسی چارج شیٹ کے
پرنسپل کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے اور مظفرآباد میڈیکل کالج کے پرنسپل
پروفیسر اقبال کو میرپو ر کالج میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے اور مظفرآباد
میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل کو اسی ادارے میں پرنسپل کی حیثیت سے ترقی دے
دی گئی ہے اس کا رد عمل انتہائی خوفناک رہا مظفرآباد کی تمام سیاسی جماعتیں
اور سماجی تنظیمیں اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے اگلے ہی روز اسمبلی کا
گھیراؤکر کے اپنے کالج کے پرنسپل پروفیسر اقبال کا تبادلہ منسوخ کروا دیا
یہاں پر ایک اور انتہائی مضحکہ خیز قسم کی بیوقوفی بھی کی گئی کہ نوٹیفکیشن
جاری کیا گیا کہ پروفیسر اقبال اب مظفرآبا د اور میرپور دونوں میڈیکل کالج
کے ایک پرنسپل ہیں پی ایم ڈی سی کے واضح رولز کے مطابق یہ غیر قانونی ہے
میرپور میڈیکل کالج کے طلبہ و طالبات اور سو ل سوسائٹی بھی سڑکوں پر نکل
آئے اور ابھی تک شدید ترین احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اتفاق سے تین روز بعد
وزیراعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف آزادکشمیر کے دار الحکومت مظفرآباد کے
پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر جوائنٹ سیشن سے خطاب کرنے کے لیے
آئے اور خطاب کے بعد جب ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ وہ تشریف رکھتے تھے تو
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹریز کے سینئر آفیسر وفاقی سیکرٹری
برائے کشمیر افیئر ز اینڈ گلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ نے پوری میٹنگ میں
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل کو میاں نواز
شریف وزیراعظم پاکستان کے سامنے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ کیا وجہ ہے کہ آپ سے
صرف تین میڈیکل کالجز درست طریقے سے نہیں چل رہے اور آپ نے میڈیکل کالجز کے
پرنسپلز کو شٹل کاک بنا کر رکھ دیا ہے ‘‘ اس سوال کے جواب میں کوئی بھی
مناسب دلیل نہ دی گئی اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھی اس
کا نوٹس لے لیا ۔
قارئین یہاں پر ہم انتہائی درد دل اور انتہائی دیانتداری کے ساتھ آپ سے
گزارش کرتے ہیں کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں سابق پرنسپل محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کی غیر قانونی اور انتہائی مشکوک انداز
میں کی گئی برطرفی کے معاملہ کو سنجیدگی سے نہ دیکھا گیا تو اس کے انتہائی
خطرناک اثرات آزادکشمیر کے تمام میڈیکل کالجز پر مرتب ہونگے اور آئندہ
پاکستان بھر کے تمام میڈیکل کالجز او ربڑے شہروں سے کوئی بھی اچھا ماہر اور
قابل پروفیسر آزادکشمیر میں سروسز دینا ہر گز پسند نہیں کرے گا اس وقت
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے قرار داد پاس کر لی ہے کہ پاکستان اور
آزادکشمیر کے کسی بھی میڈیکل کالج کے پرنسپل کو تعیناتی کے بعد پانچ سال تک
اس کے عہدے سے نہیں ہٹایا جا سکتا اگر پروفیسر عبدالرشید میاں پاکستان میں
کسی میڈیکل کالج کے پرنسپل ہوتے اب تک یہ معاملہ ہائی کورٹ میں رٹ کی صورت
میں چیلنج ہو جاتا ۔ڈاکٹر عبدالرشید میاں سمیت آزادکشمیر کے تمام میڈیکل
کالجز میں درجنوں پروفیسرز سپیشل کنٹرکٹ پر ہائیر کیے گئے ہیں اور بغیر کسی
نوٹس کے کسی کنٹرکٹ ملازم کو بھی ا سطرح یکدم فارغ کر دینا ایک انتہائی
سنگین غلطی ہے سیکرٹری کشمیر افیئرز گلگت اینڈ بلتستان شاہد اﷲ بیگ اس
معاملے پر سٹینڈ لے چکے ہیں اور شنید ہے کہ آنے والے چند دنوں میں معاملے
کی انتہائی اعلیٰ سطح کی انکوائری کروائی جائے گی یہاں یہ بتانا بھی
انتہائی اہم ہے کہ معطل کیے جانے والے دیانتداراور اہل ترین پرنسپل پروفیسر
ڈاکٹر عبدالرشید میاں کے متعلق میڈیا پر یہ افواہیں بھی پھیلائی گئی ہیں کہ
انہوں نے کروڑوں روپے کا غبن کیا ہے یا ٹیچنگ ہسپتال کو اپ گریڈ نہ کرنا ان
کی غلطی ہے اور یا پھر جتنی بھی بد انتظامی تھی اس کا موجب ان کی ذات ہے یہ
تمام افواہیں جھوٹ کا پلندہ ہیں یہاں ہم آخر میں ضرور کہیں گے کہ اگر
پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کی برطرفی قائم رہی اور معاملہ اسی طرح چلتا
رہا تو آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز آنے والے چند ماہ میں پاکستان سے
تعلق رکھنے والے تمام پروفیسرز سے محروم ہو جائیں گے اور یہ تینوں میڈیکل
کالجز فیکلٹی سے محروم ہونے کے بعد بلیک لسٹ کر دیئے جائیں گے حکومت
آزادکشمیر کو چاہیے کہ دانش مندی کا ثبوت دے اور اپنے غلط فیصلے کو فوراً
واپس لے ورنہ چند دنوں تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا حکم نامہ تو
ان کے پاس پہنچنے ہی والا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان میاں
محمد نواز شریف سیکرٹری کشمیر افیئر ز گلگت اینڈ بلتستان شاہد اﷲ بیگ کے
احتجاج کا نوٹس تو لے ہی چکے ہیں اس صورت میں آزادکشمیر حکومت کے لیے ’’ سو
جوتوں کے ساتھ سو پیاز کھانے‘‘ والا محاورہ عملی صورت میں پیش آئے گا ۔خدا
را قومی معاملات پر سیاست نہ کریں رہی بات کرپشن کی تو اس کے لیے انکوائری
ضروری ہے کہ میڈیکل کالجز کے معاملات میں پیسہ کس کس نے کھایا ہے اور دودھ
کس کس بلے نے پیا ہے یہ منظر عام پر آنا ضروری ہے ۔ |