پریشانی کے ساتھ ساتھ ایک گھمبیرسا اضطراب اس عورت کی
آنکھوں سے چھلک رہا تھا جب کہ ایک جانا انجانا سا خوف اس کی پھولی ہوئی
سانسوں سے امڈ کر باہر آرہا تھا۔میں جیسے ہی اپنے ادارے کے آفس میں داخل
ہوا اس عورت نے میری طرف دیکھااور خوف زدہ آواز سے بولیـ"سرمیری بیٹیاں
کہاں ہیں؟ اس عورت کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے مجھے خدشات بہت ہوئے مگر
اپنے اعصاب کو قابو میں رکھتے ہوئے میں نے مختصرجواب دیاکہ وہ چھٹی کر گئیں
ہیں۔سوال پوچھنے سے پہلے وہ سکون جو شاید اس عورت کو آس لگائے میرے ادارے
تک لایا تھا وہ بھی غائب ہو گیا۔میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ عورت اپنی خوف
زدہ اور پھولی ہوئی سانسوں سے صرف اتنا ہی بول پائی"سر کتنی دیر ہوئی؟"میں
نے جواب میں آدھا گھنٹاکہا تو وہ ایک دم چکرائی اور اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھ
کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
اس عورت کی یہ کیفیت میرے لیے حیران کن تب تھی کہ یہ عورت ایک پریشان کن
ماحول پیدا کر چکی تھی ۔جب معاشرتی حالات خوف ناک سوچوں کا موجب بن چکے ہیں
مجھ سے جب مزید صبر نہ ہو سکا تو میں نے اس عورت کی پریشانی کی وجہ پوچھ ہی
لی۔جس پر اُس عورت نے کہا"سر میں ابھی گھر سے آئی ہوں لیکن میری بیٹیاں
ابھی تک گھر نہیں پہنچی ہیں جب کہ آپ کے ادارے سے ہمارے گھر تک کا راستہ
صرف 15منٹ کا ہے"
عورت کا یہ جواب بھی میرے لیے پریشان کن تھا مگر فوراً خیال آیا کہ یہ
لڑکیا ں کبھی کبھی میرے ادارے سے اپنے ماموں کے گھر بھی جاتی ہیں جہاں ان
کی والدہ انھیں ساتھ لے کر تب گھر جاتی ہیں اپنا یہ خیال جب میں نے اس عورت
کو بتایا تو اس عورت کے چہرے پرکچھ امید کی لہر دوڑی اور اس عورت نے اپنے
بھائی کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی بیٹیاں اپنے ماموں کے گھر ہی ہیں
جہاں وہ اپنی والدہ کا انتظار کر رہی ہیں ۔
میرے سوال پوچھنے سے پہلے ہی وہ عورت تھوڑی شرمندگی سے بولی "سر حالات اتنے
خراب ہیں کہ وسوسے ہر وقت دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں کچھ ماہ پہلے5سالہ
بچی کے ساتھ جو واقعہ ہوا اُس سے تو بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ ہماری بچیاں
کسی صورت بھی محفوظ نہیں "
5سالہ بچی کے ساتھ ہونے والے واقعہ پر میں بخوبی واقف ہوں مگر میں نے اُس
عورت کو مزید بولنے پر مجبور ایسے کیا کہ جیسے میں اس واقعہ سے انجانا
ہوں۔واقعہ سے متعلق میری نا آشنائی جان کر اُس عورت نے کہا کہ آپ کسی بھی
ٹی وی چینل پردیکھ لیں باربار روزانہ کوئی کوئی کوئی ایسا واقعہ ضرور ہوتا
ہے کیسے درندوں نے اُس پھول جیسی بچی کے ساتھ درندگی کی ہے اُس معصوم بچی
کا چہرہ آج کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی میری آنکھوں کے سامنے جب گردش کرتا
تو مجھے اپنی بچیوں کا خیال آتا ہے اور خوف و دہشت سے میرا بُرا حال ہو
جاتا ہے میں ہر وقت اپنی بچیوں کو اپنے پاس رکھتی ہوں ایک منٹ بھی یہ نظروں
سے اوجھل ہوں تو اوسان خطا ہو جاتے ہیں میں اُس معصوم بچی سے تو نہیں ملی
ہوں مگر ٹی وی چینلزنے اُس معصوم کے بارے میں ایک ایک چیز بتائی ہے بریکنگ
نیوز سے لے کر ٹاک شوز بھی ہو ئے مگر پھر بھی سکون نہ ملا۔ حالات بہت خراب
ہیں سر نہ کوئی روک ٹوک،یہاں کوئی قانون نہیں،یہاں سیاست دان جو ووٹ حاصل
کرنے کے لیے ہمیں اپنی ماں، بہن اور بیٹی بنا لیتے ہیں مگر جیت کرایسے
اجنبی بن جاتے ہیں جیسے انھیں ووٹ آسمان سے ملی ہیں اور جب کوئی ایسا سانحہ
ہوتا ہے تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ڈرامہ بازی کرتے ہیں ۔اس بچی کے ساتھ
جو ہوا اس پر بھی ان عوامی نمائندگان نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اُس کے
گھر جاکر تصاویر بنائیں اور ملزموں کو پکڑنے کے جھوٹے وعدے کر کے آجاتے
ہیں۔کوئی کہتا ہے تفتیش جاری ہے کوئی کہتاہے ملزموں کی تلاش جاری ہے کوئی
کہتاہے کہ عبرت کا نشانہ بنائیں گے کوئی کیا کہتا ہے اور کوئی کیا۔مگر سر
یہاں کس کو پھانسی ہوئی ہے؟ کس کو قانون کے مطابق سزائیں دی گئیں ہیں؟کس کو
عبرت کا نشانہ بنایا گیا ہے؟ یہاں ملکی قاتل ہوں یا غیر ملکی قاتل مقتولین
کے لوا حقین کو پیسے دے کرپھانسی سے بچ جاتے ہیں۔کرپشن کرنے والے عبرت کا
نشانہ بننے کے بجائے اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ مجرم باعزت بری ہوجاتے
ہیں۔جس کے پاس پیسہ ہے وہ پیسوں کے بل بو تے پر اپناکال دھن سفید کرکے
باعزت زندگی گزارتے ہیں کس ماں کی کوکھ کو سکون ملا؟سیالکوٹ میں بے دردی سے
قتل ہونے والے نوجوانوں کی ماں کو کیا انصاف مِلا؟ کراچی میں رینجرز کے ہا
تھوں قتل ہونے والے نوجوان کی بہنوں کو انصاف ملا؟ڈرون حملوں میں چھوٹے
چھوٹے معصوم بچوں کی ہلاکت پر کس نے منصفی کی؟خود کش دھماکوں میں ہلاک ہونے
والوں کو کس نے انصاف فراہم کیاہے؟ راولپنڈی میں قتل ہونے ولی نوجوان
لڑکیوں کے قاتلوں کو کس نے پھانسی پر لٹکایا؟ عافیہ کو درندوں کے حوالے
کرنے
والوں کو کس نے عبرت کا نشانہ بنایا؟سر یہاں کچھ نہیں ہوتاہے نہ انصاف ملتا
ہے اور نہ ہی کلیجے ٹھنڈے ہوتے ہیں جس کے پاس پیسہ ہے وہ اپنے آپ کو
بچالیتاہے غریب کبھی عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں تو کبھی پولیس سٹیشنوں میں
،رہی سہی کسریہ سیاسی نمائندے اپنی سیا ست چمکا کر دیتے ہیں یہاں متاثرین
کا استحصال کرنے کے لیے سبھی اپنا حصہ ڈال کر خاموش ہو جاتے ہیں آخر میں
متاثرین اکیلے رہ جاتے ہیں اور ایک مستقل پریشانی اور اضطراب۔
اس عورت کو اگر اپنی بیٹیوں کا خیال نہ آتا تو یہ اور بھی بولتی،مایوسی کا
اظہار ڈروخوف کے ملے جلے تاثرات سے کرتی مگر یہاں ہی اس نے بات ختم کی اور
میرے ادارے سے تیزی کے ساتھ چلی گئی جیسے کہ ایک وہم ایک خوف نے اس کو
مجبور کیا ہو۔
اس عورت کی کسی بات پر میرا راضی ہونا یا نہ ہوناکیا اہمیت رکھتاہے ؟یہ
مجھے بھی معلوم ہے اور بیشتر پاکستانی بھی جانتے ہیں مگر سوچنے کے لیے یہ
امر ہے کہ اس مایوسی،لاقانونیت،ظلم و ستم اور نا انصافیوں کو ختم کرنے کے
بارے میں کیا ہم نے کبھی کوئی اقدام کیا؟ معاشرے میں مایوسی پھیلانے والے
عناصر سے کہاں تک جان چھڑائی؟آزاد قوم بن کر کب سوچا؟ کبھی نہیں۔۔۔۔ اگر ہم
نے یہ سب کچھ کیا ہوتا یو یقینا ہمیں قاتل تختہ دار پر لٹکتے نظر آتے۔ چور
، ڈاکو،لٹیرے اور کرپٹ افراد عبرت کا نشانہ بنے تاریخ کا حصہ ہوتے ،میڈیا
مایوسی نہ پھیلاتااور مائیں،بہنیں ظلم کا شکار کبھی نہ ہوتیں۔ لوٹا ابھی
بھی جا سکتا ہے ذہنی آزادی ابھی بھی حاصل کی جاسکتی ہے مگر ایسے
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ |