سندھ فیسٹیول سندھی ثقافت، اور تہذیب کا اظہار

سندھی ثقافت، سندھی بولی اور سندھی تہذیب کے لئے سندھی دانشور، ادیب، اور پڑھے لکھے افراد پریشان ہیں، مجھے اس پریشانی اور درد کا احساس ممتاز صحافی اور لکیکھ اعجاز نصیر کی کتاب سفر کہانیوں کی تقریب میں جاکر ہوا۔ سندھی ادیب دانشور بھی اسی طرح پریشان ہیں جیسے اردو والے سب کو اپنی تہذیب ، زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا غم ہے۔ نصیر اعجاز کا شکوہ تھا کہ ہمارے بچے سندھی زبان جو ہزاروں سال قدیم ہے سے نا آشنا ہوتے جارہے ہیں۔اسکولوں میں سندھی زبان کے لئے رکھے گئے اساتذہ خود سندھی سے نا آشنا ہیں۔ رہی سہی کسر موبائیل پر میسیج نے پوری کردی ، سندھی ہو یا اردو والے سب اپنیزبان رومن کظ میں تحریر کر رہے ہیں۔ شائد یہی احساس ہو جس میں حکومت سندھ نے اپنی ثقافت اور تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے سندھ کے قدیم شہر موئن جو دڑو میں 'سندھ فیسٹیول' کرنے کی ٹھانی۔ 'سندھ فیسٹیول' کی افتتاحی تقریب پرشکوہ انداز میں ہوئی جس کا آغاز آتش بازی سے ہوا جس کے بعد محفلِ موسیقی منعقد ہوئی۔اس تقریب کا افتتاح پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔ افتتاحی تقریب کے دوران گفتگو میں بلاول کا کہنا تھا کہ فیسٹیول کا مقصد سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنا ہے۔فیسٹیول کے آغاز پر سندھ کے روایتی ملبوسات پہنے ماڈلز نے کیٹ واک کی۔ پاکستان کی مشہور پاپ گلوکارہ عینی کے علاوہ کئی لوک فنکاروں نے سندھی ثقافتی نغمے پیش کیے۔ جس کے بعد بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار راحت فتح علی خان نے اپنی آواز کا جادو جگایا جبکہ نوجوانوں میں مشہور گلوکار علی گل پیر نے اپنا گانا 'سائیں تو سائیں' پیش کیا۔تقریب میں سابق وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سمیت 500 مہمانوں مدعو تھے جن میں پیپلزپارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنما،لیڈر ،سفارت کار علاوہ شوبز اور مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔'سندھ فیسٹیول' کی افتتاحی تقریب کے موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے اس فیسٹیول کی غرض و غائیت بتاتے ہوئے کہا کہ فیسٹول کے ذریعے نوجوان نسل صوبے کے تاریخی مقامات اور قدیم ثقافت سے آگاہ کرنا ہے۔ اس پندرہ روزہ 'سندھ فیسٹیول' کا آغاز سندھ کے تاریخی ورثے کی حیثیت رکھنے والے شہر موئن جو دڑو سے ہوا ہے۔ فیسٹیول یکم فروری سے 15 فروری تک سندھ کے مختلف شہروں میں جاری رہے گا۔سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی سندھ فیسٹیول کی تقریبات شروع ہوگئی ہیں۔موہن جودڑو میں ہزار سال پرانی تہذیب اب پتھروں، ٹیلوں، گلیوں،اور نشانات کی صورت میں محفوظ ہے۔ سندھ پر ہمیشہ سے صوفیانہ اورلوک موسیقی، کا اثر رہا ہے۔ سندھی لوک گیتوں اور فنکاروں نے سندھ کے محبت اور امن کے پیغام کو عام کیا ہے۔ اس پندرہ روزہ فیسٹول کا مقصد بھی نئی نسل کو سندھ کی روایات اور ثقافت سے روشناس کرانا ہے۔ اس لئے فیسٹول کی افتتاحی تقریب میں سندھ کی قدیم طرز زندگی کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا۔سندھ کی قدیم اور جدید ثقافت پر مبنی عروسی لباس پہنے ماڈلز نے جلوے بکھیرے،اس دوران لوک فنکار سائیں ظہور کے گیت نے سماں باندھ دیا۔گلوکارہ عینی نے بھی اپنے انداز میں لوک گیت گائے۔ملک بھر میں مشہور'سائیں 'نے بھی ،اپنی سائیں گیری کا جادو دکھایا۔سندھی دھنوں پر جدید انداز میں ڈانس پیش کیا گیا تو بھی حاضرین داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔راحت فتح علی خان نے بھی اپنی مدھر آواز سے کانوں میں رس گھولے۔سندھی ثقافت کو اجاگر کرتی لیزر شو نے بھی تقریب کی شان بڑھائی جسے سب نے پسند کیا۔کراچی میں ساحلی علاقے کلفٹن میں قائم 'باغِ ابن قاسم' میں 'سندھ ولیج فیسٹیول' لگایا گیا ہے جہاں سندھ کی ثقافتی اشیا فروخت کیلئے رکھی گئی۔یہاں بھی 'سندھ ولیج فیسٹیول' کا افتتاح بلاول بھٹو زرداری نے اپنی بہنوں بختاور اور آصفہ کے ساتھ مل کر کیا۔ افتتاحی تقریب میں وزیراعلی سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی اور پیپلزپارٹی رہنما اویس مظفر بھی موجود تھے۔'سندھ ولیج فیسٹیول' میں اندرون سندھ سے آنے والے افراد نے سندھی ملبوسات، گھریلو استعمال کی اشیا، سندھی دستکاری، سندھی اجرک ٹوپی اور دیگر اشیا کے متعدد اسٹالز لگائے ہیں۔ جب کہ لوک فنکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے سندھی موسیقی سے فیسٹیول میں رونقیں بڑھا تے رہے ۔'سندھ فیسٹیول' میں بچوں کے لیے بھی مختلف کھیل اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا تھا جبکہ کھانے پینے کی اشیا بھی ثقافتی فیسٹیول کا حصہ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کی تاریخ و تہذیب پانچ ہزار سال نہیں 50ہزار سال پرانی ہے سندھ کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم تہذیبوں میں ہوتا ہے اس لیے ثقافتی میلے سندھی تہذیب کا حصہ ہیں۔ سند ھ کے شہروں قصبے اور دیہات میں تقریبا سارے سال ہی عرس ، میلے ہوتے ہیں۔ سندھ کی قدیم تہذیب کے شاہکار کوٹ ڈیجی قلعہ، رنی کوٹ، کارونجھر، عمرکوٹ، مکلی، بھنبھور، موئن جو دڑو اروڑ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی کے فرئیر ہال میں بھی سندھ آرٹ فیسٹیول منعقد کیا جارہا ہے جس میں پاکستان کے نامی گرامی مشہور فن کاروں کے فن پارے نمائش کیلئے رکھے گئے ہیں۔فرئیر ہال میں سجی آرٹ نمائش میں بینظیر بھٹو شہید کے پسندیدہ فنکاروں کی آرٹ کلیکشن بھی رکھی گئی ہے جن میں احمد پرویز، بشیر مرزا، گل جی، صادقین اور دیگر آرٹسٹوں کے فن پارے شامل ہیں۔ کیلئے مختص فنڈز کو روک کر جشن پر خرچ کی جائیگی۔ اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ اس جشن سے پہلے تھرکول کے افتتاحی منصوبے کے بہانے بھی جشن منایا جائیگا۔ جہاں پر تمام مجرم اور مدعی ایک ساتھ ہوں گے۔سندھ کی ثقافت کے تحفظ کے حوالے سے سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم پر پاکستان کے متعدد ماہرین آثار قدیمہ نے شدید تنقید کی ہے۔بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ کئی ہزار سال پرانے موہن جوڈارو میں ثقافتی میلے کا انعقاد کریں، تاہم ماہرین کے مطابق اس سے اس قدیمی ثقافی ورثے کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ موہن جو ڈارو کئی ہزار برس قبل دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک بہت بڑی تہذیب تھی، جو مٹ گئی، مگر اپنے پیچھے تاریخی نقوش چھوڑ گئی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے عالمی تاریخی ورثہ کہلائے جانے والے موئن جو ڈارو کو سندھ کی شاندار تاریخی پہچان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ادھر اس فیسٹیول کے انعقاد میں مصروف صوبائی حکومت کے عہدیداروں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس فیسٹیول سے موہن جو ڈارو کے آثار کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ صوبائی محکمہ برائے آثارقدیمہ کے ایک عہدیدار قاسم علی قاسم کے مطابق وہ اس سلسلے میں انتظامات کی نگرانی کر رہے ہیں اور ہر طرح سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ میلے سے موہن جو ڈارو کو کسی طرح کا کوئی نقصان لاحق نہ ہو۔سرزمینِ سندھ ہمیشہ سے صوفیاء اور اولیا اﷲ کی آماجگاہ رہی ہے۔ اس خطے میں ہمیشہ امن کی باتیں ہوئی ہیں۔ سندھ کی مہمان نوازی بھی مشہور ہے۔ سندھ کے لوگ جتنے سیدھے سادے ہیں۔ سندھ کی سادہ زندگی آج بھی مشہور ہے، جہاں ایک غریب اپنی غربت اور مفلوک الحالی کے باوجود مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ ایک دو بکریوں یا گائے، بھینس اور زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے پورے ایک خاندان کا گزر بسر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو پْرسکون زندگی دیکھنی ہو تو وہ سندھ کے کسی دیہات میں کچھ دن گزار کر دیکھ لے۔ فجر کی اذانوں سے قبل ایک نئی صبح کے آغاز اور سورج ڈھلتے ہی رات کی آمد کے مناظر بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ پھر رات کو گاوں کی اوطاق میں بزرگوں کی کچہریاں بھی بے مثل ہیں جن میں بظاہر اَن پڑھ لوگ عقل و دانش کی وہ باتیں کرتے ہیں۔فرد شناسی کا فن بھی ان بزرگوں کو خوب آتا ہے۔ ایک ہی ملاقات میں کسی فرد کا پورا معائنہ کرکے اس کی شخصیت کا اندازہ لگا لیتے ہیں اور اسی بنیاد پر اس سے مستقبل میں تعلقات استوار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔مشہور ہے کہ سندھ کے لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں اور ان کی روایات اب بھی اسی طرح قائم ہیں جیسا کہ زمانہ قدیم میں تھیں۔ لیکن بہت سے سندھی اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے سندھی قوم کواپنی ثقافت اور روایات سے دور کیا جارہا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس مہم کا سہرا سندھی میڈیا کے سر جاتا ہے، جو دعویٰ تو سندھ اور سندھیوں کی ترقی کا کرتا ہے، لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔

سندھی میڈیا نے سندھ میں اسلحہ کلچر کو عام کیا۔ اگرچہ سندھ کی ثقافت میں کلہاڑی کو اہمیت حاصل ہے لیکن واضح رہے کہ سندھی معاشرے میں ہر کسی کے کلہاڑی اٹھانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کلہاڑی صرف اْس فرد کے پاس ہوتی تھی جو یا تو جنگل میں جانور چراتا، چوکیداری کرتا یا کبھی کسی دشمن سے بچاوکے لیے اسے اٹھاتا۔ لیکن میڈیا سے نشر ہونے والے ڈراموں میں اب تو پندرہ سولہ سال کے نوجوانوں کے ہاتھ میں بھی اسلحہ دکھائی دیتا ہے جس کی ہر وقت نمائش کی جاتی ہے۔ سندھ میں اسلحہ کی نمائش اس طرح کی جارہی ہے جیسے ہمارے ہاں موبائل فون کی ہوا کرتی ہے۔ بغیر کسی سبب کے صرف ٹی وی ڈراموں میں پیش کردہ کرداروں سے متاثر ہوکر نوجوانوں نے اسلحہ اٹھالیا ہے جس سے ان کا اور معاشرے کا مستقبل تباہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

سندھی میڈیا سے قبل سندھ میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن سندھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بعد ہر روز اخبارات میں اور ٹی وی پر کئی پریمی جوڑوں کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر معاشرے میں اس طرح کے ایک دو واقعات ضرور ہوتے ہوں گے، لیکن ایسے معاملات کو اچھال کر یہ تصور دینا کہ سندھ کی ہر لڑکی گھر سے باہر نکل کر شادی کرنا چاہتی ہے۔درست نہیں ہے۔ سندھی میڈیا اپنے ڈراموں میں خاص سندھی دیہاتی پس منظر میں یہ بھی دکھا رہا ہے کہ گھر سے نکلنے والی ہر لڑکی اپنے کسی محبوب سے ملنے کے لیے ہی نکلتی ہے۔ لیکن سندھ کی حقیقی زندگی میں اس کا نام نشان بھی نہیں ہے۔سندھی کلچر ڈے کے نام پر سندھی خواتین کو ٹوپی اجرک پہنا کر سڑکوں پر نچانے کا سہرا بھی سندھی میڈیا کے سر جاتا ہے۔ اگر سندھی ثقافت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں سندھی ٹوپی اور اجرک مرد کی شان ہے، نہ کہ عورت کی۔ عورت کو اجرک صرف اسی وقت پہنائی جاتی ہے جب اسے کسی موقع پر عزت دینا مقصود ہو۔ خواتین کا سندھی اجرک سے بنے جوڑے پہننا بھی سندھی روایات کے خلاف ہے۔ سندھ کے دانشوروں اور سندھی زبان، ثقافت اور روایات کی حفاظت کرنے والوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اربابِ اختیار سندھی تہذیب و ثقافت اور معاشرے کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419607 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More