بڑے بوڑھے کہتے رہے ہیں کہ سر زمین بے آئین میں رہنا اور زندگی گزارنا جنگل
کے قانون کے تحت زندگی بسر کرنے کے مترادف ہے ایک ایسی دنیا میں جہاں
استحصال، ظلم و جبر کے خلاف کوئی روک ٹوک نہ ہو، بے خوف نقل و حرکت کی
آزادی نہ ہو، اپنے ضمیر کے مطابق بولنے یا لکھنے کا اختیار نہ ہو۔وہ ایک
بڑے قید خانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ آج بھی کئی لوگ اس ملک میں ایسے
ہونگے جنہوں نے اس ہولناک ماحول کا خود مشاہدہ کیا ہوگا جو آزادی سے پہلے
بھی موجود تھے۔ اور ان تکالیف کو بھی بھگتا ہوگا جو جرمِ غلامی کی سزا کے
طور پر ان کی زندگی کا حصہ بن گئی ہوگی۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب
کچھ سات سمندر پار کے اس ملک سے ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے جو متمدن
دنیا میں جمہوریت اور حق خود اختیاری کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ مگر
پاکستان کے عوام کو جینے کا حق دینے پر نہ اُس وقت آمادہ تھا اور ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ وہ آج آمادہ ہے۔ اس زباں بندی اور انسانی حقوق کی پامالی
کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بس صرف ٹیکنالوجی کا فرق آگیا ہے۔ پہلے کوئی اور
سلسلہ ہوا کرتا ہوگا اور آج یہ کاروائی ڈرون حملے کے ذریعے کیا جا رہا
ہے۔کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جو آخر کار اس ظلم کے خلاف صف آراء ہوئے ہونگے
اور اپنی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہونگے اور غلامی کی لعنت کے خلاف ہنس ہنس
کر لڑتے رہے ہونگے۔ ملک و قوم کے ان ہی محسنوں کی قربانیوں کی بدولت یہ ملک
اور یہاں کے عوام آزاد ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ وہ قوم جو ماضی کے سوا
اپنے ہر سہولت سے محروم ہو چکی تھی حال و مستقبل کی امین بن گئی اور اس
امانت کا ظہور اس آزادی کی شکل میں جو آج پاکستان کے آئین کے نام سے موسوم
اور جمہوریت کے رہنما اصولوں کی شکل میں حرکت پذیر ہے، ملک کا آئین ہی
ہماری قومی امنگوں کا مظہر ہے بلکہ قوم کے لیئے بھی ایک نمونہ ہے۔ کیونکہ
اس میں ذات، فرقہ، نسل اور مذہب کی تفریق سے بالاتر اس سوسائٹی کے خواب کو
شرمندہ تعبیر کیا گیا ہے جو انسان صدیوں سے دیکھ رہا تھا۔ یعنی ملک کے ہر
شہری کے ساتھ مساویانہ انصاف ، ہر باشندے کے ساتھ ریاست کا برابر سلوک،
تحریر، تقریر ، خیال اور اجتماعی سرگرمیوں کی آزادی ، تمام فرقوں، مذہبوں
اور تہذیبی اکائیوں کو اپنے اپنے دائرے میں پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا
ہونا، یہ مستحکم ستون جن پر پاکستانی آئین کی شاندار عمارت کھڑی ہوئی ہے،
دنیا کے تمام جمہوری اصولوں کا نچوڑ اور پاکستانی قوم کی روشن خیالی اور
بلند ہمتی کی علامت ہے۔اس سے آگے اس شعر سے مستفید ہونے کو دل چاہتا ہے:
خود سری سے آگہی تک یہ سفر کیسا لگا
جس جگہ کل تک حویلی تھی کھنڈر کیسا لگا
بے وطن جب تھے تو گھر کی یاد میں تڑپا کیئے
لوٹ کر پردیس سے آئے تو گھر کیسا لگا
آج آپ کو یہ لفظ نیا نہیں معلوم ہوگا کہ بہت خراب ہیں ، بہت زیادہ خراب ہیں
حالات، ہر پل نیا حادثہ نیا واقعہ۔ بندہ بشر اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے، تکریمِ
انسانیت دم توڑ گئی ہے، اعتبار ختم ہوگیا ہے۔ حد ہے انسان انسان سے خوفزدہ
ہے، بے کل ہے، بے چین ہے، کوئی جائے اماں نہیں، سائباں نہیں، اپنی اپنی
ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ مفاد عزیز تر ہے، سب کا نہیں بس اپنا۔ نفسا
نفسی ہے، قیامت کا منظر ہے، خونِ ناحق بہہ رہا ہے، دہشت گردی عروج پر ہے،
نجانے اور کسے کہتے ہیں قیامت!چلیئے کوئی نہ سہی قیامتِ صغریٰ تو ہر لمحہ
برپا ہے ناں۔ کہیں بم برستے ہیں، کہیں انسانی بم پھٹتے ہیں، کہیں ڈرون حملے
ہوتے ہیں کہیں چھینا جھپٹی ہے، معمولی معمولی باتوں پر اور چھوٹی چھوٹی
چیزوں پر قتل و غارت گری مچی ہوئی ہے، کہیں جگہ نقلِ مکانی ہو رہی ہے تو
کہیں ہنستے بستے گھر بار اُجڑ رہے ہیں، اور کئی گھرانوں کے افراد شہرِ
خموشاں کو آباد کر رہے ہیں۔ان تمام باتوں کا خاصہ ہے کہ یہاں کوئی پوچھنے
والا نہیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ کب اس پر روک ٹوک ہوگی، کب حالات سدھریں
گے۔اگر ان حالات کا مشاہدہ سچے دل کے ساتھ حکمران کریں تو یقینا اس کا
سدّباب بھی ہو سکتا ہے مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ’’ بلی کے گلے میں گھنٹی
باندھے کون؟‘
‘
پاکستان روزِ اوّل سے ہی ہمہ رنگ ثقافتوں اور تہذیبوں کا حامل رہا ہے، اس
ملک کے چاروں سمت کئی تہذیبوں اور ثقافتوں اور رنگ برنگی اور نوع بنوع
بولیاں بولنے والے بستے ہیں، یہ عوام سب کچھ جانتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے
ووٹ کا مقدس فیصلہ کرکے کچھ اربا ب کو اربابِ اقتدار بنا دیتے ہیں جبکہ اسی
عوام کی زندگی میں صبح و شام کتنے ہی ایسے مقام آتے ہیں جب ہم بھی دانتوں
تلے انگلیاں دباتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ یہ لوگ جن کے ہاتھوں میں ہم
نے اپنی زمام دی ہے، جو بظاہر سمجھدار بھی ہیں، کیا کر رہے ہیں، کیا یہ
نہیں جانتے کہ کہانی کس موڑ پر جا پہنچی ہے اور اس کے بعد آنے والے دنوں
میں کیا ہوگا۔ ہر سطح پر مشکلیں موجود ہیں، ہر ادارے میں مشکلات ہیں، مگر
پھر بھی شفاف طریقے سے دل کی اتاہ گہرائی میں ڈوب کر یہ فیصلے کرنے میں
کیوں تذ بذب کا شکار ہیں۔کب حالات کروٹ لے گا کب اس عوام کی زندگی بدلے گی۔
اس کا انتظار سب عوام کر رہی ہے آپ بھی کیجئے۔
حقیقت تلخ ضرور ہے لیکن اس کے اظہار میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ ہمارے ملک
کی سیاسی فکر اور عوامی فکر دونوں میں یکسانیت نہیں پائی جاتی یعنی سیاسی
جماعتیں اور رائے دہندگان دونوں ہی ذات، فرقہ، برادری اور طبقہ کا چشمہ لگا
کر انتخابی معاملوں کو دیکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ جب صورتحال اس قدر
ناگفتہ بہ نظر آئے کہ ایک نہایت ایماندار شخص کو صرف اس وجہ سے حاشیہ پر
ڈھکیلنا عام ہو کہ وہ جس ذات کی نمائندگی کر رہا ہو اس کے رائے دہندگان کی
آبادی کم ہو اور دوسرے لوگوں کا غلبہ ہو تو ایسے میں تبدیلی کا خواب دیکھنا
اور سیاست کی وادی کو صاف و شفاف بنانے کی امید پالنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
یہ سب کچھ اور اس جیسے اور بہت سے مسائل ہیں جن پر نظرِ کرم کی اشد ضرورت
ہے۔ تاکہ ہمارا پاک وطن اور یہاں بسنے والے تمام لوگ اپنی ترقی کا جو خواب
دیکھتے چلے آئے ہیں بلکہ آج تک دیکھ رہے ہیں وہ شرمندۂ تعبیر بھی ہو جائے۔
کاش!
پاکستان کے عوام کو یہ شکایت تو بہت ہے کہ ملک میں ان کی آواز سنی نہیں
جاتی، کسی بھی نازک گھڑی میں ان کو ملزم بنا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے، حکومت
کے سرکاری اداروں میں ان کی نمائندگی محدود ہو کر رہ گئی ہے، سرکاری
ملازمتوں سے وہ دن بدن بے دخل ہوتے جا رہے ہیں، ان کی زبان و تہذیب کو
منصوبہ بند طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے،عام زندگی کا مشاہدہ ہے کہ کسی
چھوٹے سے مجمع تک اپنی آواز پہنچانے کے لیئے لوگ لاؤڈ اسپیکر کی مدد حاصل
کرتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام ذرائع ابلاغ کے بغیر ہی اس ہنگامہ شور و غل
میں اپنی آواز ارباب تک سنی جانے کی امید موہوم باندھ رکھی ہے جس میں نہ آج
کامیابی کی توقع ہے نہ کل ہو سکتی ہے۔ |