پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی میں انسانی حقوق۔۔۔؟

دوستوں آپ سب یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا کہ اس اسلامی ریاست میں تمام انسان کو برابر کے حقوق ملے گئے۔نصف صدی گزرگئی ہے کہ اب تک پاکستانی عوام کو زندگی گزرنے کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔گزشتہ روزسعودی عرب کے شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے یہ وزیراعظم ڈاکٹر محمد نوازشریف کی قیادت میں درخشاں اور روشن مستقبل رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کا ملک ہر معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ہماری دوستی آزمودہ ہے جو ہر آزمائش پر پوری اتری ہے، ترقی اور خوشحالی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرینگے۔ سعودی کمیشن برائے سیاحت و نودرات کے چیئرمین شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔ ملاقات کے دوران صدر ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تمام شعبوں میں شراکت داری اور باہمی تعاون میں مزید اضافہ چاہتا ہے۔حکومت دونوں ممالک کے عوام کے باہمی مفاد میں سٹرٹیجک شراکت داری اور تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید تقویت دینے کی خواہاں ہے۔ شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ ان کا بیٹا عبداﷲ الشیخ اور پاکستان میں سعودی سفیر عبدالعزیز بن ابراہیم بن صالح الغدیر بھی موجود تھے۔۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً 15 لاکھ پاکستانی برادری کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستانی برادری دونوں ممالک کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔ امید ہے دونوں برادر ممالک کے باہمی مفاد میں اس پل کو وسعت اور تقویت دی جاتی رہے گی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جدہ میں زیر حراست پاکستانیوں کی حالت کے بارے میں ازخود نوٹس کے ایک ہی روزبعد وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب کو ایک ماڈل ریاست قرار دیا ہے۔ اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ان مظالم کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جو سعودی عرب میں تارکین وطن پر روا رکھے جاتے ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بنیاد محض مفادات کے حصول تک محدود ہے۔ ایک کے بعد دوسری پاکستانی حکومت سعودی حکمرانوں کی تعریف و توصیف میں قلابے ملاتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے حریص اور بدعنوان پاکستانی حکومتوں کا ایک اہم ذریعہ آمدنی رہاہے۔ تاہم اس کے عوض گزشتہ دو دہائیوں میں سعودی عرب نے پاکستان میں نظریاتی بنیادوں پر اپنے پاؤں جمانے اور اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سعودی عرب کے بارے میں صرف اچھی باتیں کی جاتی ہیں۔ حکومت، میڈیا اور مذہبی رہنما اس ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی برائیوں کا ذکرکرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اہل پاکستان سعودی عرب میں حرمین شریف کی موجودگی کی وجہ سے اس ملک کے عوام اور حکمرانوں کے ساتھ ہمیشہ محبت اور عقدیت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن انہیں اس کے بدلے میں سعودی عوام یا حکومت کی طرف سے کبھی اس طرح کا احترام اور محبت نصیب نہیں ہوئی۔ سعودی عرب کی طرف سے اس کا اظہار سرکاری بیانات یا پاکستان کے لئے مفت تیل کی فراہمی، مالی امداد اور فلاحی منصوبوں تک محدود رہتاہے۔سعودی عرب میں پاکستانی لوگوں کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی کہانی ہر وہ شخص سنا سکتا ہے جو اس ملک میں کام کرتا رہا ہے یا وہاں مقیم ہے۔ اس کا حال حرمین شریف، عمرہ یا حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جانے والے بھی کسی حد تک بتا سکتے ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستانی تارکین وطن سمیت لاکھوں مزدروں کے ساتھ سعودی عرب میں جو رویہ اختیار کیاگیا ہے، وہ بھی سعودی گھمنڈ، غیر انسانی قوانین اور نامنصفانہ رویوں کی واضح مثال ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس میں پاکستانی وزارت خارجہ سے ان ہزاروں پاکستانیوں کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے جو جدہ کے حراستی مرکز میں صرف اس جرم میں محبوس ہیں کہ ان کے کاغذات نامکمل ہیں۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو سعودی عرب سے نکالا جا چکا ہے۔ یہ سارے لوگ سعودی کفیلوں کو خطیر رقم دے کر کام کرنے کے لئے اس ملک میں گئے تھے۔ وہاں کے طریقہ کار اورنظام کے مطابق وہ کام کررہے تھے اور اپنے غریب خاندانوں کا پیٹ پال رہے تھے۔ تاہم سعودی حکمرانوں نے اچانک امیگریشن پریکٹس میں تبدیلی کرتے ہوئے لاکھوں پاکستانی تارکین وطن کے لئے اپنے ملک میں عرصہ حیات تنگ کر دیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سعودی حکمران پاکستان کی اشرافیہ اور حکومتوں سے ہمیشہ اچھے تعلق استوار رکھتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ ملک پاکستان سے دوستی کا دم بھرتاہے یا اس کا نظام تمام غلطیوں سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں اس وقت دنیا کی بدترین آمریت قائم ہے۔ عرب بہار کے نتیجے میں متعدد عرب ملکوں میں انقلاب اور تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے ہیں لیکن سعودی عرب میں اس قدرسخت پولیس سٹیٹ قائم کی گئی ہے کہ عام آدمی حکومت وقت کے یک طرفہ اور غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف بات کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

عالمی میڈیا میں زیر بحث گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں مسلط نظام کے خلاف بات کرنے یا اس میں تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کو سخت سزاؤں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ابھی چند برس قبل ہی اپنے حلیف ملک بحرین میں عوام کے احتجاج کو دبانے کے لئے سعودی افواج کو روانہ کیا گیا تھا اور انہوں نے مظالم اور استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ سعودی عرب کا نظام امتیازی رویوں اور ظالمانہ ہتھکنڈوں پر استوارہے۔ کسی کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے نہ ہی اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کا موقع دیا جاتاہے۔ بلکہ وہاں پر سعودی شاہی خاندان نے مذہبی اشرافیہ کے ساتھ مل کر ایک مخصوص فرقہ کو مسلط کیاہؤا ہے۔ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والوں کواپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے یا اس کی تبلیغ و پرچارکرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔برس ہا برس تک ملک میں مقیم غیر ملکی بھی بنیادی شہری حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ غیر ملکی ورکروں نے تیل سے حاصل دولت کی مدد سے ملک کی تعمیر و ترقی میں شاندار کردار اداکیا ہے لیکن سعودی حکام کی طرف سے کبھی اس کی ستائش نہیں کی گئی۔ بلکہ ان کے طرز عمل سے یہ احساس ہوتا ہے گویا وہ لوگوں کو اپنے ہاں کام کرنے کا موقع دے کر احسان کر رہے ہیں۔ غیر ملکی کارکنوں کے حوالے سے بھی ملک میں امتیازی رویہ روا رکھا گیا ہے۔ ایشیا و افریقہ کے ملکوں سے آنے والے ورکرز کو کے امریکہ اور یورپ سے آنے والے لوگوں کے مقابلے میں انتہائی ابتر حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔امریکہ اور یورپ چونکہ طویل عرصہ سے سعودی تیل کے محتاج رہے ہیں اس لئے عام طور سے سعودی حکومت کے غیر انسانی اقدامات پر بات سننے میں نہیں آتی۔ اگرچہ مغربی میڈیا بعض اوقات حقائق پر مبنی خبریں اور رپورٹیں پیش کر دیتا ہے لیکن امیر اور بااثر مغربی ممالک کی حکومتیں اپنے مفادات کی وجہ سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر آواز اٹھانے یا سفارتی دباؤ ڈالنے سے گریز کرتی ہیں۔

ان حالات میں پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ایک ایسے ملک کے نظام کو مثالی اور اس کے عوام کو قریبی دوست قرار دینے کی باتیں حیرت انگیز حد تک افسوسناک ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود کہ مملکتوں کے تعلقات میں بعض اوقات ناپسندیدہ حکومتوں کی بھی توصیف کرنا ہوتی ہے لیکن میاں نواز شریف نے جس طرح سعودی عرب کو مسلم امہ کے لئے ماڈل اسلامی ریاست قرار دیاہے۔ وہ سہانے فریب یا صریحاً جھوٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔سعودی عرب کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی انتہائی پرصعوبت حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے انہیں کوئی سہولت یا رعایت فراہم نہیں کی جا رہی۔ ایسے وقت میں پاکستانی وزیراعظم کا فرض تھا کہ وہ اس صورت حال پر بات کرنے کا حوصلہ کرتے اور سعودی حکام سے مطالبہ کرتے کہ پاکستانی ورکرز کے ساتھ انسانی اور منصفانہ رویہ کا مظاہرہ کیاجائے۔ لیکن اس کی بجائے وزیراعظم نے صرف مصنوعی توصیف و تعریف کو کافی سمجھا ہے جو کسی طرح ایک منتخب حکومت کے نمائندے کو زیب نہیں دیتا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ وہ پاکستانی عوام کے ووٹ کی بدولت برسراقتدار آئے ہیں جبکہ سعودی عرب جمہوری تصور سے یکسر لابلد ہے۔ وہاں تو عورتوں کو ڈرائیونگ کرنے یا تنہاسفر کرنے کی اجازت دینے سے بھی گریز کیا جار ہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ دنیا میں امن کے فروغ کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا احترام اور فروغ بھی بے حد ضروری ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں کو اس حوالے سے ابھی کئی منازل طے کرنی ہیں۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 179842 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.