دنیا کے قدیم ترین شکاری

بیس لاکھ سال قبل ہمارا گزر بسر شکار ہی پر ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی آبادی اور ان کی غذائی ضروریات پوری کرتے ہوئے انسان نے اپنے بنیادی جبلی تقاضے ’’بقا‘‘ کے پیش نظر خوراک حاصل کرنے کے نئے طریقے اختیار کیے۔ اس میں سب سے پہلے اس نے خود پودے کاشت کرنے اور جانور پالنے کا آغاز کیا، جسے علم بشریات کے ماہرین انسانی سماج کی تنظیم نو سے تعبیر کرتے ہیں۔ زراعت کی اس ابتدائی شکل کے قدم بہ قدم آبادی میں مزید اضافہ ہوا اور اس فن میں مہارت حاصل کرنے والی ’’زرعی سوسائٹی‘‘ نے شکار کے ’’قدیم‘‘ طریقے سے غذا حاصل کرنے والوں کو یا تو نقل مکانی پر مجبور کردیا یا پھر انھیں تباہ و برباد کر ڈالا۔ زراعت کا ہنر سیکھتے ہی انسان نے دیہات بسانا شروع کیے جو آگے چل کر بڑے شہروں اور پھر بڑی اقوام میں تبدیل ہوئے۔ اس طرح قدرے مختصر عرصے میں ’’شکاریوں‘‘ کا طرز زندگی قریباً ناپید ہوگیا۔ آج بھی صرف شکار کے ذریعے گزر بسر کرنے والے انسانی گروہ یا قبائل ایمازون، آرکٹک، اور کچھ افریقی خطے میں پاپونیوگنیا کی ریاست میں موجود ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ توجہ ’’ہازا‘‘ افراد کو حاصل ہوئی۔

شمال وسطی تنزانیہ میں معروف ’’رفٹ ویلی‘‘ کے بیچوں بیچ ایاسی جھیل کے کنارے بسنے والا ایک ہزار افراد پر مشتمل یہ گروہ علم بشریات کے ماہرین کے نزدیک زندہ رکازات یا Living Fosile کا درجہ رکھتے ہیں، اس علاقے کو ہازالینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی زبان کو بھی ہازا ہی کہا جاتا ہے۔ ابتداً ماہرین لسانیات ہازا بولی کو افریقی زبانوں کی کھوئسان فیملی میں شمار کرتے تھے لیکن جدید تحقیق کے مطابق یہ ایفروایشائی قدیم زبانوں کے کشٹک خاندان سے تعلق رکھتی ہے اس کے بعض الفاظ قدیم شکاریوں کی ناپید ہوچکی زبان ’’کوادزا‘‘ سے بھی ملتے جلتے ہیں۔ ہازا افراد اپنی زبان لکھتے نہیں ، لیکن ان کے ہاں قدیم قصے اور اساطیر سینہ بہ سینہ منتقل ہوئے ہیں۔ اپنے اس قدیم مسکن میں رہنے والے ہازا افراد کی تعداد اب صرف ہزار نفوس تک محدود ہوچکی ہے۔ ان میں سے کچھ قریبی دیہات میں کام تلاش کرنے کے لیے جا چکے ہیں اور بعض نے سیاحوں کو جدید دنیا میں قدیم حیات کی ان چلتی پھرتی باقیات سے متعارف کروانے کے لیے گائیڈ کا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔ لیکن آج بھی ایک چوتھائی ہازا افراد شکار ہی کے ذریعے خوراک حاصل کرنے کے طریقے پر کاربند ہیں۔
 

image


یہ فصلیں نہیں اگاتے، جانور نہیں پالتے اور نہ ہی گھر بناتے ہیں۔ ان کا طرز زندگی رفٹ ویلی کے شمالی علاقے سے ملنے والی قدیم ترین انسانی باقیات سے معلوم ہونے والے طرز حیات سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ مختلف جینیاتی تجربات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہازا افراد ابتدائی نسل انسانی کے نمائندہ ہیں اور اس کی واضح شہادت آج سے دس ہزار برس قدیم کے ان کے طرز حیات سے ملتی ہے۔ ہزاروں برس سے قدیم انسانی ورثے کو سنبھالے رکھنے والے یہ افراد اپنی اسی ’’ثابت قدمی‘‘ کی وجہ سے دنیا میں باقی بہت سے قدیم انسانی گروہوں اور قبائل سے مختلف ہیں اور اسی وجہ سے تحقیق کاروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اینتھروپولوجی کے پروفیسر اور دو دہائیوں سے ہازا افراد پر تحقیق میں مصروف فرینک مارلو کا کہنا ہے ’’ وقت ان کے لیے رکا نہیں لیکن انھوں نے اپنے ارد گرد زراعت اختیار کرنے والے گروپس کے باوجود غذا تلاش کرنے کے قدیم روایتی طریقوں کو برقرار رکھا ہے، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ممکنہ طور پر قرن ہا قرن گزرنے کے باوجود ان کی زندگیوں میں بہت کم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔‘‘ تعجب کی بات ہے کہ شکاری ہونے کے باوجود آج تک ہازا کبھی اپنے آس پاس بسنے والوں سے نہیں لڑے۔ ان کی آبادی کبھی بھی اتنی گنجان نہیں ہوئی کہ جس کے باعث کوئی متعدی مرض پھیلے اور نہ ہی اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ یہ کبھی قحط سالی کا شکار ہوئے ہوں۔ اس کے برعکس اس بات کے ثبوت ملتے ہیں کہ ان کے اطراف میں آباد زراعت کے جدید ذریعے سے خوراک حاصل کرنے والے کئی گروہ فصل کی تباہی یا غذائی قلت کے باعث کچھ عرصہ ان کے ساتھ رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہازا نے ’’اپنے‘‘ علاقے میں آنے والے ان پناہ گزینوں کا نہ تو حقارت کی نگاہ سے دیکھا، نہ ہی دھتکارا اور نہ ہی اسے زمین پر قبضے کی کوشش قرار دے کے آنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہازا افراد کے نزدیک ذاتی ملکیت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ماہرین کے مطابق زمین پر ذاتی ملکیت کا تصور زراعت کی ابتدا کے بعد ہوا اور ساتھ ہی کاشت کاری سے غذاء کے حصول کے بعد متعدی امراض، سماجی طبقاتی نظام، گاہے بہ گاہے قحط سالی اور بڑی سطح پر جنگ و جدل کا ظہور ہوا۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے محقق و مصنف جیرڈ ڈائمنڈ زراعت کو ’’انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی‘‘ قرار دیتے ہیں، جسے اب کبھی سدھارا نہیں جاسکے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہازا افراد کی روزمرہ خوراک آج بھی ترقی یافتہ دنیا میں بسنے والے افراد کے مقابلے میں بہت مختلف ہے اور وہ اب بھی اناج کی ’’دریافت‘‘ سے قبل کے غذائی معمول پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا کوئی پیشہ نہیں، کاروبار یا ملازمت کا کوئی تصور نہیں ، آقا و غلام کی کوئی تفریق نہیں۔ یہ اپنے خاندان کے چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر رہتے ہیں جس میں مرد دن میں کم از کم چھے گھنٹے تک شکار کی تلاش میں گزارتے ہیں۔ عورتیں دن بھر پھل اور جنگلی ترکاریاں جمع کرتی ہیں، مرد شکار کے ساتھ ساتھ شہد بھی حاصل تلاش کرتے ہیں۔ ہازا افراد پر تحقیق کرنے والے تمام ہی محققین نے انھیں باقاعدہ ’’قبیلہ‘‘ قرار دینے میں تامل کا مظاہرہ کیا ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ یہ مختلف گروہ یا ٹکڑیوں کی صورت میں رہتے ہیں اس لیے ان گروہوں کے لیے ’’کیمپ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو عام طور پر بیس سے تیس افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ صرف جنگلی بیری کے موسم میں یہ کیمپ آپس میں مل کر سو افراد تک کا کیمپ بنا لیتے ہیں۔ ان میں قبائلی سرداری نظام کا وجود نہیں، جب ایک ہی کیمپ کے افراد کے درمیان کوئی تنازعہ جنم لیتا ہے تو عمومی طور پر کوئی ایک فریق اپنا کیمپ چھوڑ کا دوسرے کیمپ میں شامل ہوجاتا ہے اور تنازعہ ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرد بیمار ہو جائے تو بھی وہ اپنا کیمپ چھوڑ دیتا ہے کیوں کہ کئی بار وہ بیماری کا سبب اس جگہ کو سمجھتا ہے جہاں اس کا کیمپ آباد ہے۔ کیمپ شکار کی دست یابی، موسم کی تبدیلی اور جنگلی پھلوں تک آسان رسائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کیمپ کا کوئی مرد اپنے کیمپ کی جائے سکونت سے دورکوئی بڑا جانور شکار کرلیتا ہے تو پورا کیمپ ہی عارضی ’’شکار گاہ‘‘ منتقل ہوجاتا ہے اور گوشت ختم ہونے تک وہیں دعوت اڑاتا ہے۔

ہازا قبائل چوں کہ مستقل گھر نہیں بناتے اور نہ ہی ان کے پاس زیادہ ساز و سامان ہوتا ہے اس لیے سال بھر کے مختلف اوقات میں یہ بیاباں گردی کرتے رہتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بہ آسانی منتقل ہوجاتے ہیں۔ بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں غلامی کے علاوہ ہازا افراد نے آس پڑوس کے ترقی پذیر قبائل کے ہاتھوں بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا، ان کی تعداد محدود تر ہوتی گئی۔ ان کی چلتی پھرتی بستیاں رفٹ ویلی کے علاقے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ہازا کی طرح دیگر قدیم شکاری گروہ یا قبائل کے طرز حیات میں زراعت اور دیگر جدید طور طریقے شام ہوچکے ہیں، وہ کچی مٹی کے گھر بھی بناتے ہیں اور ان کے ہاں کسی حد تک تعلیم کا رواج بھی جڑ پکڑ چکا ہے لیکن ہازا ہیں کہ بدلنے کو تیار نہیں۔ تنزانیہ کے حکام اپنے ملک میں بسنے والے ہازا اور اس جیسے دیگر قبائل یا گروہوں کو اپنے قومی امیج پر داغ تصور کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ عالمی سطح پر ہونے والی معاشی تبدیلیوں اور ترقی میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے قدیم طرز زندگی پر کاربند ان انسانوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تنزانیہ کی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کئی اقدامات بھی کیے گئے جس کے نتیجے میں بہت سے قبائل تو ’’طرز کہن‘‘ چھوڑ کر ’’آئین نو‘‘ اپنانے کو تیار ہوچکے ہیں لیکن ہازا افراد کے معاملے میں یہ کوششیں زیادہ کام یاب ثابت نہیں ہوسکیں۔ اسی وجہ سے چند برس قبل تنزانیہ کے صدر جکایا کک ویتے نے انھیں تنبیہ کی تھی کہ ’’ہازا! تمھیں بدلنا ہوگا‘‘۔ حکومت کی جانب سے انھیں سرکاری ملازمتوں اور ان کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے مختلف پروگرامز بھی شروع کیے گئے لیکن بڑی سطح پر اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
 

image

ہازا افراد پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کے ذہن میں کلاس روم میں دی جانے والی تعلیم غیر دل چسپ اور بے سود ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں زندہ رہنے کے لیے صرف تیر اندازی، نیزہ بازی اور شکار کے لیے مطلوب دیگر صلاحیتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو وہاں نہیں سکھائی جاتیں اور نہ ہی وہ باہر کی دنیا میں جانا چاہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کا خیال بھی یہی ہے۔ افریقا کا پورا خطہ بقا اور ترقی کی جدوجہد میں مصروف ہے، تبدیلیوں کے اس سر پٹکتے سمندر میں ’’ہازا‘‘ جیسے جزیرے آج بھی موجود ہیں۔ ہازا بدلنا نہیں چاہتے ، یہ اسے ضد یا ہٹ دھرمی جو بھی نام دیا جائے لیکن محققین اس بات کے قائل ہیں کہ ان کی مدد سے انسانوں کے سماجی، معاشی اور معاشرتی ارتقا کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، وہ نسل انسانی کی زندہ تاریخ ہیں، اور اپنی تمام تر پس ماندگی کے باوجود دور جدید کے انسانوں کو بہت سے پیچیدہ سوالوں کے جواب فراہم کرسکتے ہیں۔

ماضی اور حال:
ماہرین کے مطابق ہازا افراد پچاس ہزار سال سے تنزانیہ کے اسی علاقے میں آباد ہیں جنھیں ہازالینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ہازا افراد کی نسل در نسل منتقل ہونے والی روایات میں بھی اسی بات کی تکرار ملتی ہے کہ وہ ابتدا ہی سے اسی خطے میں آباد ہیں۔ محقیق کے مطابق پانچ سو قبل مسیح میں تنزانیہ کے اس علاقے میں شکاری قبائل ہی رہتے تھے۔ اسی دور میں شمال مشرقی افریقا کے جزیرہ نما علاقے جسے ’’ہارن آف افریقا‘‘ کہتے ہیںسے ’’بانٹو‘‘ قبائل جب تنزانیہ پہنچے۔ یہ قبائل دھاتی آلات اور ہتھیار رکھتے تھے اور زراعت کرنا جانتے تھے۔ ان قبائل کے پھیلاؤ کے سبب ہازا اور دیگر شکاری قبیلے مختلف علاقوں تک محدود ہوتے چلے گئے۔ ہازا لینڈ کے آس پاس زراعت کرنے والے قبائل انیسویں صدی عیسیوی میں ایاسی جھیل کے پاس آباد ہونا شروع ہوئے ان میں سے بہت ماسائی، سوکوما اور اسانزو قبائل نے ہازا افراد سے دشمنی کا آغاز کیا۔ زراعت کرنے والے یہ قبائل چوں کہ جانور پالتے تھے اور ہازا صرف جانوروں کا شکار کرتے تھے اور ان کے نزدیک ان کی ملکیت کا بھی کوئی تصور نہیں تھا اس لیے کئی ہازا افراد ان قبائل کی جانب سے مویشی چوری کے ’’جرم‘‘ میں قتل کیے گئے۔ انیسویں صدی میں افریقا میں قائم ہونے والی یورپی نوآبادیات کے بعد اسانزو قبیلے نے کئی ہازا افراد کو غلام بنا کر یورپی حملہ آوروں کے سپرد بھی کیا۔ بیسویں صدی میں جب یورپ نے افریقا کا رخ کیا اور وہاں نوآبادیات قائم کیں تو ہازا لینڈ جرمنی کے زیر تسلط علاقوں میں شامل ہوا۔ 1894میں جرمن سیاح آسکر باؤمن نے ہازا افراد کے متعلق دوسرے قبائل اور افراد سے ملنے والی معلومات قلم بند کیں۔ اس سے قبل ہازا براہ راست بیرونی دنیا کی نظر سے اوجھل تھے اور اکثر زبانی روایات ہی سے ان کے بارے میں معلومات میسر آتی تھیں۔ 1911کے بعد مختلف یورپی باشندوں کو ہازا افراد تک رسائی حاصل ہوئی۔1927تک ان علاقوں میں برطانوی نوآبادیات قائم ہوچکی تھیں۔ برطانوی حکومت نے ہازا افراد کو زراعت اختیار کروانے کی کوششیں کیں جو ناکام ہوئی ، ایسی ہی دوسری کوشش 1939میں بھی رائیگاں گئی جب کہ حکومت ِتنزانیہ کے قیام کے بعد 1965اور1990میں بھی ان کے طرز زندگی کو زراعت، جدید سہولتون اور عیسائیت کی تبلیغ کے ذریعے بدلنے کی متعدد کاوشیں ہوئیں جا بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔ جرمن نوآبادیات کے زمانے ہی میں ہازالینڈ کے ارد گرد بڑے علاقے پر کاشت کاری کی گئی، تین یورپی خاندانوں نے اس علاقے میں رہائش اختیار کی تنزانیہ کے مختلف علاقوں سے یہاں کاشت کاروں کو یہاں لایا گیا، مشنری اسکول کھلے لیکن ہازا افراد کی بڑی تعداد نے ان تبدیلیوں کو یکسر مسترد کردیا۔
 

image

1960کے بعد سے آج تک ہازا افراد جینیات، لسانیات اور بشریات کے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ 2001میں بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی جانب سے ہازا افراد پر نشر کی جانے والی دستاویزی فلموں نے ہازا لینڈ کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ ’’تہذیب یافتہ‘‘ دنیا سے آنے والے سیاحوں نے ہازا افراد کو الکوحل سے متعارف کروایا اور آج ٹی بی اور زچگی کے باعث اموات کے ساتھ ساتھ شراب نوشی بھی ہازا افراد کی موت کا ایک بڑا سبب بن چکی ہے۔ 2007میں تنزانیہ کی حکومت کی جانب سے ہازا لینڈ سے منسلک یائیڈا وادی متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کو ’’ذاتی سفاری پلے گراؤڈ‘‘ منصوبے کے لیے لیز پر دی اور ان علاقوں سے ہازا اور داتوگا افراد سے خالی کروانا شروع کردیا۔ مزاحمت کرنے والے افراد کو جیل بھیج دیا گیا لیکن عالمی میڈیا میں اس اقدام کی شدید مزمت کے باعث یہ ڈیل ختم کردی گئی۔

ہازا کا مذہب:
ماہرین بشریات کے مطابق ہازا افراد کوئی باقاعدہ مذہب نہیں رکھتے، ان کے ہاں چند کائنات کے بارے میں چند عقائد یا تصورات پائے جاتے ہیں جنھیں کسی حد تک ان کے مذہبی عقائد کہا جاسکتا ہے۔ یہ تصورات سورج، چاند، ستاروں اور ان کے آباواجداد سے متعلق ہیں۔ تخلیق کے بارے میں بس وہ یہ تصور رکھتے ہیں کہ ان کے آبا باؤ باب کے درخت یا زرافے کی گردن کے ذریعے زمین پر اترے اور پھیل گئے۔ ان کے ہاں عبادت، عبادت گاہ یا مذہبی پیشوا کا وجود نہیں نہ ہی کسی روحانی پیشوا کا کوئی تصور ہے۔ دیگر قدیم افریقی قبائل کی طرح ہازا کے ہاں جادو، بھوت پریت یا چڑیلوں کا کوئی تصور نہیں، لیکن وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ جادو کرنے والے قبائل انھیں اپنے جادو سے متاثر کرسکتے ہیں۔ ان کے واحد ایک ہی رسم پائی جاتی ہے جسے ’’ایپمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس رسم میں وہ الاؤ کے گرد رقص کرتے ہیں اور مختلف جانوروں کا گوشت پکاتے ہیں۔ افریقا میں یورپی نو آبادیات قائم ہونے کے بعد ہازا افراد کو عیسائیت سے متعارف کروانے اور قبول مذہب کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں جو کام یاب نہیں ہوسکیں۔

گھر نہیں پر گھریلو جھگڑے ہوتے ہیں:
ہازا افراد کا کوئی باقاعدہ سماجی نظام نہیں۔ نہ ہی پیدائش، شادی یا اموات کے مواقع پر کوئی رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ شادی کے لیے کوئی نظام وضع نہیں اور نہ ہی کوئی تقریب یا رسم ادا کی جاتی ہے۔ نوجوان مردوزن اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا شروع کردیتے اور ان کا ساتھ رہنا ہی اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ اب ’’میاں بیوی‘‘ ہیں۔ عام طور ہازا جوڑے پوری عمر ایک ساتھ گزارتے ہیں۔ہازا افراد لنگور سے خاص ’’دشمنی‘‘ رکھتے ہیں اور اس کے شکار کو بہادری قرار دیا جاتا ہے اس لیے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ہازا عورت اسی مرد کو اپنا جیون ساتھی بناتی ہے جس نے کم از کم پانچ لنگور شکار کر رکھے ہوں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ تعجب خیز بات ہے کہ آج سے دس ہزار سال قبل کے طرز زندگی پر چلنے والے ہازا افراد میں خواتین پر تشدد کے واقعات نہیں ہوتے۔ مرد اور عورت اپنے حصے کا کام نمٹاتے ہیں تاہم اگر مرد شکار کم لائے، جانور کی کھال درست طریقے سے نہ اتاری ہو یا گوشت خراب ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے بیوی سے جھڑکیاں بھی کھانا پڑ جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ اس کے مقابلے میں ایسے ہازا افراد جنھوں نے ترقی قبول کی اور قریبی دیہی علاقوں میں منتقل ہوئے، ان خاندانوں میں گھریلو تشدد کے واقعات پیش آئے اور کئی دوسرے قبیلے یا علاقوں میں جا کر شادی کرنے والی کئی ہازا لڑکیاں واپس لوٹ آئیں۔
YOU MAY ALSO LIKE:

The Hadza's homeland lies on the edge of the Serengeti plains, in the shadow of Ngorongoro Crater. It is also close to Olduvai Gorge, one of the most important prehistoric sites in the world, where homo habilis - one of the earliest members of the genus Homo - was discovered to have lived 1.9 million years ago.