حضرت مولانا یوسف
کاندھلوی ؒ اپنی حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن امیہ ؓ
فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے مجھ اکیلے کو جاسوس بنا کر قریش کی طرف بھیجا میں
حضرت خبیب ؓ کی ( اس ) لکڑی کے پاس گیا (جس پرحضرت خبیبؓ کو سولی پر چڑھایا
گیا تھا اور ان کا جسم ابھی تک اس پر لٹک رہا تھا ) اور مجھے جاسوسوں کا
بھی ڈر تھا کہ کہیں ان کو پتہ نہ لگ جائے چنانچہ لکڑی پر چڑھ کر میں نے حضر
ت خبیب ؓ کو کھولا جس سے وہ زمین پر گر گئے پھر میں چھپنے کے لیے تھوڑی دور
ایک طرف کو چلا گیا پھر میں نے آکر دیکھا تو حضرت خبیب ؓ مجھے کہیں نظر نہ
آئے اور ایسے لگا کہ جیسے زمین انہیں نگل گئی ہو او راس وقت تک ان کا کوئی
نشان نظر نہیں آیا ۔
حضرت ضحاکؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے حضرت مقداد ؓ اور حضرت زبیر ؓ کو حضرت
خبیب ؓ کو کو سولی کی لکڑی سے نیچے اتاڑنے کے لیے بھیجا وہ دونوں تنعیم
پہنچے ( جہاں مکہ سے باہر حضر ت خبیب ؓ کو سولی دی گئی تھی ) تو انہیں وہاں
حضرت خبیب ؓ کے ارد گرد چالیس آدمی نشہ میں بد مست ملے ان دونوں نے حضرت
خبیب ؓ کو لکڑی سے اتارا پھر حضرت زبیر ؓ نے ان کی نعش کو اپنے گھوڑے پر
رکھ لیا ان کا جسم بالکل تر و تازہ تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی
پھر مشرکوں کو ان حضرات کا پتہ چل گیا انہیں نے ان حضرات کا پیچھا کیا جب
مشرکین ان کے پاس پہنچ گئے تو حضرت زبیر ؓ نے ( مجبور ہو کر ) حضرت خبیب ؓ
کی نعش کو نیچے پھینک دیا جسے فوراً زمین نے نگل لیا ۔اسی وجہ سے حضرت خبیب
ؓ کا نام بلیع الارض رکھا گیا ( اس کا ترجمہ یہ ہے وہ آدمی جسے زمین نے نگل
لیا تھا )۔
قارئین یہ بات ایک زندہ حقیقت ہے کہ حق کی خاطر سچ کے مسافر کو ہمیشہ بڑی
بڑی مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں سچ کہنا اور سچ پر قائم رہنا دنیا کا مشکل
ترین کام ہے یہ وہی کام ہے جو ہر دور میں اﷲ تعالیٰ کے بر گزیدہ بندوں نے
اپنی اپنی جانوں کے اوپر وقت کے فرعونوں ،قارونوں ،شدادوں اور دیگر ڈکٹیٹر
کے مظالم برداشت کرتے ہوئے کرنا جاری رکھا ہم اپنے آپ کو ان برگزیدہ شخصیات
میں کوئی مقام نہیں دینا چاہتے لیکن ہم انہی اہل حق سے محبت رکھتے ہیں اور
اپنے آپ کو دل کی گہرائی سے ایک انتہائی ناقص انسان سمجھتے ہوئے دل سے
ایمان رکھتے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں ہیں کہ ہماری آزمائش کی جائے ہم
انتہائی کمزور ہیں اور ہماری اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ ہمیں کسی آزمائش میں ڈالے
بغیر ہماری ٹوٹی پھوٹی کوششوں کو قبول کر لے آمین ۔
قارئین گزشتہ دنوں ہم نے آپ کی خدمت میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل
کالج میرپور کے غیر قانونی طو ر پر حکومت کی طرف سے برطرف کیے جانے والے
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کا ایک ’’ زندہ مقدمہ ‘‘ مُردوں کے اس
دیس میں سب کے سامنے رکھا اور اس کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائی سے وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کی ان تمام کاوشوں کا بھی ذکر کیا کہ جن کے
ذریعے انہوں نے میرپور میں میڈیکل کالج قائم کرنے کے لیے آزادکشمیر کے دیگر
دو ڈویژنز میں بھی میڈیکل کالج قائم کر کے جھگڑے کی بنیاد ہی ختم کر دی ہم
نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے جذبے ،اخلاص ،کوششوں اور جنون کی حد تک
آزادکشمیر میں میڈیکل کالجز کے قیام کے لیے چلائی جانے والی تحریک کی تمام
جھلکیاں آپ کے سامنے رکھیں ۔یہ سب سلسلہ جاری تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم
موبائل فونز پر ایس ایم ایس سروس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزادکشمیر
اورپاکستان بھر کی سول سوسائٹی او رپالیسی ساز قوتوں کو پیغامات بھیج بھیج
کر جگانے کی کوششیں بھی کر رہے تھے کہ اگر غیر قانونی طور پر معطل شدہ
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بحال نہ کیا گیا تو ا سکا نقصان
آزادکشمیر کی آنے والی نسلیں بھگتیں گی اور حکومت آزادکشمیر کو چاہیے کہ یا
تو پرنسپل میاں عبدالرشید کی برطرفی کے اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے ،ان
کے اوپر جن بھی الزامات کی بدولت ان کی برطرفی عمل میں لائی گئی ہے چارج
شیٹ کی شکل میں وہ تمام الزامات عوام کے سامنے رکھے جائیں بصورت دیگر خلق
خدا یہی سمجھے گی کہ ماضی کی دیگر کرپشن کہانیوں کی طرح اربوں روپے کی کوئی
اور کرپشن کہانی چھپانے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو قربانی کا
بکرا بنایا گیا ہے ہماری یہ کاوشیں جاری تھیں اور اسی دوران ہمیں اطلاع ملی
کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپو ر کے طلباء و طالبات کے
ہاسٹلز کے سامنے منگلا پولیس کی ایک گاڑی یا چند گاڑیاں پار ک کی گئی ہیں
اور کچھ لوگ پولیس کا نام لے کر معصوم طلباء و طالبات کو ڈرانے اور دھمکانے
کی کوششیں کر رہے ہیں کہ اگر سٹوڈنٹس نے اپنے محبوب اور دیانتدار پرنسپل
میاں عبدالرشید کی بحالی کے لیے کسی قسم کا احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی
تو انہیں گرفتار کر کے انہیں ’’ ڈرائنگ روم ‘‘ کی سیر کروائی جائے گی
۔ڈاکٹر ز کی طرف سے جب ہمیں یہ اطلاع ملی اور انہوں نے انتہائی پریشانی کے
عالم میں ہم سے اپیل کی کہ ہم میڈیا کے مجاہد قبیلہ کا فرض اداکرتے ہوئے ان
کی مدد کریں ہم نے فوراً پاکستان کے پانچوں بڑے الیکٹرونک میڈیا چینلز کے
ڈائریکٹرز نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کو پیغام بھجوایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو
شہید میڈیکل کالج میرپور کے طلباء و طالبات کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیا جا
رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم نے انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان جو ایک
انتہائی دیانتدار ،پروفیشنل اور ہر دل عزیز ذمہ دار آفیسر ہیں یہ پیغام
انہیں اور چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل کی خدمت میں بھی ارسال کر دیا ۔اسی
دوران ہمیں وفاقی سیکرٹری کشمیر افیئر ز اینڈ گلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ نے
فون کیا او ر یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر انہوں نے اپنے باس وفاقی وزیر
امور کشمیر و گلگت بلتستان برجیس طاہر کا انٹرویو کرنے پر شکریہ ادا کیا
اور بتایا کہ راقم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر اور ریڈیو پاکستان
کے تمام چینلز پر اپنے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘
میں چوہدری برجیس طاہر کا جو انٹر ویو کیا تھا اس کا پوری دنیا سے زبردست
رسپانس ملا ہے ہم نے شاہد اﷲ بیگ سے عرض کیا کہ یہ تو ہمارا فرض تھا جو ہم
نے ایک کشمیری ہونے کی حیثیت سے ادا کیا لیکن ہم اس وقت ایک پریشانی میں
مبتلا ہیں انہوں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید
میڈیکل کالج میرپو ر کے طلباء و طالبات کو ہراسا ں کرنے کے اس معاملے کو ان
کے سامنے رکھ دیا انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ وہ ذمہ دارلوگوں کو
ابھی رابطہ کر کے اس بارے میں ہدایات جاری کرتے ہیں اگلے روز ہم پاکستان
ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر طاہر محمود کے ہمراہ ایس ایس پی میرپور
راجہ عرفان سلیم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے جانے کی تیاری کر رہے تھے کیونکہ
انہوں نے ہمارے مشترکہ کاروبار کے آفس سے لاکھوں روپے نقدی چرانے والے
چوروں کو تین دن کے اندر گرفتار کر کے رقم برآمد کر لی تھی ہمیں اچانک ایک
نامعلوم نمبر سے فون آیا ہم نے فون اٹنڈ کیا تو دوسری طرف سے ایک صاحب نے
اپنا تعارف ایس ایچ او منگلا کے طو ر پر کروایا اور ہم سے دریافت کیا کہ ہم
جو ایس ایم ایس سول سوسائٹی کو کر رہے ہیں کہ آج کے مظاہرے میں شرکت کر کے
وہ غیر قانونی طور پر برطرف کر دہ پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل
کالج میرپو ر کو بحال کروانے کے لیے اپنا اخلاقی فرض ادا کریں اس پر ہمارا
کیا موقف ہے ہم نے ان سے گزارش کی یہ ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے کہ ہم
اپنے تئیں جس بات کو درست سمجھتے ہیں اس کا اظہار کریں اور اظہار کرنے کے
دوران کسی کو بھی تکلیف نہ پہنچائیں ہم نے ان سے یہ بھی عرض کی کہ اس حوالے
سے وفاقی سیکرٹری کشمیر افیئرز و گلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ بھی تصدیق کر
چکے ہیں کہ پر امن احتجاج کرنا آپ کا حق ہے اور اس سے آپ کو دنیا کی کوئی
بھی طاقت نہیں روک سکتی ان کا نام سن کر ایس ایچ او صاحب نے شکریہ ادا کر
کے فون بند کر دیا ہم ڈاکٹر طاہر کے ہمراہ ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم کے
دفتر چلے گئے ہمیں دیکھ وہ زور سے ہنسے اور کہنے لگے میں نے لاکھوں روپے تو
تین دن میں برآمد کر لیے لیکن چند ہفتے قبل آپ کے والد صاحب کی دوکان سے جو
بیس لحاف چوری کیے تھے میں ابھی تک وہ برآمد نہیں کر پایا او رمجھے اس کا
افسوس ہے ان کی اس ادبی بات پر ہم بھی محظوظ ہوئے اور ڈاکٹر طاہر بھی لطف
اندوز ہوئے ۔ہم نے تصاویر کھینچیں اور ان کی سربراہی میں میرپور پولیس کی
بہترین کارکردگی پر انہیں مبارکباد پیش کی ۔انہوں نے ہمارے لیے قہوہ
منگوانے کا آرڈر جاری کیا اور انتہائی خوشگوار ماحول میں ہم گفتگو کرنے لگے
اسی دوان ہمارے ایک دوست نے فون کر کے ہمیں اطلاع دی کہ ہم جہاں کہیں بھی
ہیں ہم فوری طور پر اپنے فون بند کر کے روپوش ہو جائیں کیونکہ میڈیکل کالج
کے معاملے کی وجہ سے کچھ لوگ ہمیں اٹھانے کے لیے آ رہے ہیں ہم نے اپنے دوست
سے عرض کی کہ پیارے بھائی ہم اس وقت میرپور ضلع پولیس کے سربراہ راجہ عرفان
سلیم ایس ایس پی کے منگوائے گئے قہوہ کا انتظار کر رہے ہیں اور اس وقت ہم
ان کے ’’ معزز مہمان ‘‘ ہیں لیکن ہمارے دوست نے انتہائی تشویش بھرے انداز
میں ہمیں ڈانٹتے ہوئے روپوش ہونے کا حکم جاری کیا ہم نے قہوہ کا انتظار
چھوڑا اور فون بند کر کے عملاً ’’ دم دبا کر ‘ ‘ بھاگ کھڑے ہوئے تھوڑی دیر
بعد اوسان بحال ہوئے تو ہم نے اپنے چند دوستوں اور بالخصوص پاکستان میں
الیکٹرونک میڈیا کے چمکتے ہوئے ستارے ڈاکٹر معید پیر زادہ کو فون کر کے اس
آفت کی اطلاع دی اس پر وہ کہنے لگے آپ ایک صحافی ہیں اور آپ کا یہ فرض اور
حق ہے کہ آپ رپورٹنگ بھی کریں اور آزادی اظہار کے حاصل شدہ حق کے تحت اپنی
بات یا اپنا موقف لوگوں کے سامنے دلائل کی روشنی میں پیش کریں یو ں لگتا ہے
کہ آپ کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی گئی ہے پاکستان کی کوئی بھی ذمہ دار
اتھارٹی یا ایجنسی اس طرح کا کام نہیں کرتی لیکن اسکے باوجود میں کچھ ذمہ
دار لوگوں تک اس بات کو پہنچ کر فالو اپ لیتا ہوں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے
چار پانچ گھنٹے ہم روپوشی کے عالم میں خود فراموش رہے اور سوچتے رہے کہ ہم
نے ایسا کونسا گناہ کیا ہے کہ جس کی سزا اس صورت میں ہمیں مل رہی ہے چار
پانچ گھنٹے بعد ہمیں ہمارے دوستوں اور ڈاکٹر معید پیر زادہ نے فون کرکے
اطلاع دی کہ کسی بھی ایجنسی نے اس قسم کا نہ تو کوئی ارادہ رکھا ہے اور نہ
ہی وہ اس طرح کا کوئی منصوبہ آئندہ رکھتے ہیں کیونکہ وطن کی حفاظت کرنے
والے یہ مجاہد ہر لمحہ اﷲ کے راستے میں قربانیاں دے رہے ہیں اور ان کے کرنے
کے لیے او ر بہت سے کام باقی ہیں ڈاکٹر معید پیر زادہ نے ہمیں یہ بھی بتایا
کہ یہ مقامی سطح کا معاملہ ہے اور اس میں مقامی سطح کے کچھ لوگ ملوث ہیں ہم
روپوشی سے باہر آگئے اور سکھ کا سانس لیا لیکن سکھ کا سانس عارضی اس لحاظ
سے رہا کہ ہمیں اب بھی بالواسطہ طو ر پر غیر قانونی طو رپر معطل کیے جانے
والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کے مخالف کیمپ کی طر ف سے مارنے
پیٹنے کی دھمکیوں پر مبنی اشارے اس صورت میں دیے جا رہے ہیں کہ یہ کہا جا
رہا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک مقامی روزنامے کے دو جرنلسٹس کو ایک پلازے کے
مالک نے ’’ مرمت ‘‘ کے بعد سڑک پر پھینکوا دیا تھاایسا کسی اور کے ساتھ بھی
ہو سکتا ہے اور وہ ’’ کوئی اور ‘‘ انصار نامہ کا مصنف جنید انصاری بھی ہو
سکتا ہے
قارئین ہمارا آج کا یہ کالم ایک کھلی ایف آئی آر ہی سمجھ لیجئے اگر کل
ہمارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے یا ہمیں کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچایا
جاتا ہے تو ہمارے مجرم ہم نے نامزد کر دیئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ آزادکشمیر
اور پاکستان کے ہر شہری کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ کسی کی ’’ ناک کی آزادی
‘‘ اور حدود کو چھوئے بغیر آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ہمیں ان
تمام کم ظرف ،گھٹیا اور علم دشمن دوستوں سے گلہ ہے کہ وہ اپنی رائے کے
مخالف کوئی بات بھی سننا برداشت نہیں کرتے ۔
بقول ابن انشاء کہتے چلیں
سچ اچھا ،پر سچ کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم ہی کیوں سقراط بنو؟ سولی پہ چڑھو ،خاموش رہو
سچ اچھا ،پر سچ کے جلو میں زہر کا ہے ایک پیالا بھی
لب کو سیو ،چپ ہی رہو ،کچھ نہ کہو ،خامو ش رہو
یا اگرہم چچا غالب کی زبان میں موجودہ صورت حال کو بیان کریں تو کچھ یوں ہو
گا ۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر ِ لخت لخت کو
عرصہ ہُوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
پھر وضع احتیار سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرم ِ نالہ ہائے شر ربار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے
پھر بھر رہا ہے خامہ ء مژگاں بہ خون ِ دل
سازِ چمن ظرازی داماں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار ِ منت درباں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ ء طوفاں کیے ہوئے
قارئین یہاں کچھ بریکنگ نیوز بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتے چلیں جیسا کہ ہم
نے گزشتہ کالم میں اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ ہمیں اعلیٰ عدلیہ سے امید
ہے کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹوشہید میڈیکل کالج میرپور کے اس انتہائی حساس
معاملے کا نوٹس لے کر اس سلسلہ میں قانونی تقاضے پورے کرے گی او ر اخلاقی
ذمہ داریاں ضرور ادا کی جائیں گی لیجئے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہائی کورٹ
میں غیر قانونی طو رپر برطرف کیے جانے والے ذمہ دار اور دیانتدار ترین
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کی دائر کردہ رٹ منظور کر لی گئی ہے
او ر حکومت آزادکشمیر کو جلد ہی نوٹس موصول ہو جائے گا یہاں ہم یہ بھی
بتاتے چلیں کہ آج ہی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کی
اکیڈیمک کونسل کا اعلیٰ سطحی اجلاس قائم مقام نو تعینات شدہ پرنسپل پروفیسر
ڈاکٹر اقبال کی سربراہی میں منعقد ہوا ور اس اجلاس میں سب سے پہلا نقطہ جس
پر قرار دمنظور کی گئی وہ یہ تھا کہ اکیڈیمک کونسل غیر قانونی طو رپر
پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کی برطرفی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے
اور حکومت سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ انہیں فی الفو ربحال کیاجائے اور
آزادکشمیر میں پاکستان بھر سے آنے والے پروفیسرز اور سینئر ڈاکٹرز میں
بڑھنے والی تشویش او ر بے چینی کو ختم کیا جائے جو اس غیر قانونی برطرفی کے
بعد روز بروز بڑھ رہی ہے
قارئین موجودہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اورماضی کی طرح ہم آج بھی
ایمان کی حد تک یہ یقین رکھتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید میڈیکل
کالجز کی ترقی کے لیے دل سے مخلص ہیں انہیں صرف اچھے او ر مخلص و دیانتدار
مشیروں کی ضرور ت ہے موجودہ مشیر انہیں مس گائیڈ اور مس لیڈ کر رہے ہیں اگر
برطرف کیے جانے والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کسی مالی کرپشن
میں ملوث ہیں ،انہوں نے میڈیکل کالج کو کوئی نقصان پہنچایا ہے ،انہوں نے
کسی سے رشوت لی ہے یا انہوں نے کوئی اور بد عنوانی کی ہے تو سیاہ اور سفید
سب کا سب عوام کے سامنے رکھا جائے جن کی خون پسینے کی حق حلال کی کمائی سے
اکٹھے کیے جانے والے بجٹ کے پیسے سے یہ میڈیکل کالجز قائم کیے گئے ہیں
بصورت دیگر ہم یہی سمجھیں گے کہ ’’ دال میں کچھ کچھ کالا ہے ‘‘ یا ’’ پوری
دال ہی کالی ہے ‘‘ ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری
عبدالمجید میڈیکل کالجز سے سو فیصد مخلص ہیں انہیں درست تصویر نہیں دکھائی
جا رہی او ر اپنی مرضی کی تصویریں ان کے سامنے پیش کر کے ایک خاص لابی اپنے
مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن یقین جانیے یہ معاملہ ایک ’’ ٹیسٹ کیس ‘‘ کے
طور پر نہ لیا گیا تو آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز میں پاکستان سے آنے والے
تمام پروفیسرزاور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تین ماہ کے اندر روٹھ کر چلے جائیں
گے اور یہ تینوں میڈیکل کالجز پی ایم ڈی سی فیکلٹی نہ ہونے کی وجہ سے بلیک
لسٹ کر دے گی امید ہے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اس ’’ برے فیصلے ‘‘ جسے
انگریزی زبان میں ’’Bad Decision‘‘کو واپس لے کر یہ ثابت کریں گے کہ وہ
اخلاقی جرات رکھتے ہیں ہمیں یاد ہے کہ جب وہ اپوزیشن لیڈر تھے تو تب بھی
میڈیکل کالجز کے قیام کے لیے انہوں نے کئی سال اکیلے جدوجہد کی تھی جناب
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ہم آج آپ سے درد مندانہ اور دوستانہ اپیل کرتے
ہیں کہ خد ارا اس فیصلے کو واپس لے کر آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز کو
بچا لیجئے ۔
آخر میں حسب ِروایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک بحری جہاز کھلے سمندر میں اچانک طوفان گھر گیا اور اس کے پیندے میں
سوراخ ہو گیا جہاز ڈوبنے لگا جہاز میں موجود ایک انگریز نے اپنے مسافر
سردار ساتھی سے پوچھا
’’ زمین یہاں سے کتنی دور ہے ‘‘
سردار نے جواب دیا
’’ دو کلومیٹر دور ‘‘
انگریز نے فوراً سمندر میں چھلانگ لگائی اور تیرتے ہوئے اگلا سوال پوچھا
’’ سردار صاحب کس طرف‘‘
سردار نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا
’’ نیچے کی طرف‘‘
قارئین وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو جو لوگ بھی موجودہ صورتحال برقرار
رکھنا کا مشورہ دے رہے ہیں دراصل وہ ڈوبتے ہوئے جہاز سے باہر چھلانگ لگانے
والے مسافروں کو نیچے کی طرف زمین کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ |