بھوکے مزدور اور معاشی ترقی کا خواب

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ اسی وجہ سے ملکی خزانے میں سب سے زیادہ پیسہ کراچی ہی سے جاتا ہیں۔ یقین سے کہا جاسکتا ہیکہ اگر خدانخواستہ کراچی کے انڈسٹریل زونز بند ہوجائے۔ تو ملک ایک ہفتہ بھی آگے نہیں چل سکتا۔ یہی وجہ ہیکہ کراچی ملک کا معاشی شہ رگ کہلاتا ہے۔ اس شہر میں 4 بڑے اہم صنعتی زون K.I.A کورنگی انڈسٹریل ایریا، S.I.T.E سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ، لانڈھی انڈسٹریل ایریا اور نیو کراچی انڈسٹریل ایریا کے نام سے قائم ہیں۔ اس کے علاوہ E.P.Z یعنی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون بھی کراچی کے علاقے لانڈہی میں واقع ہے۔ ان بڑے صنعتی زونز میں بلاشبہ لاکھوں افراد دن رات مختلف شفٹوں میں کام کرکے ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان بڑے صنعتی زونز کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے کارخانے گھریلو صنعت کے طور پر بھی روا دواں ہیں۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس پورے سسٹم کو بڑی محنت جانفشانی سے چلارہے ہیں۔ لیکن ایک اہم مسئلہ کہ جس کی طرف بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہیں۔ وہ یہ کہ جن کے دم سے یہ پورا نظام رواں دواں ہیں۔ وہ خود کس حال میں ہیں۔ کیا وہ لوگ جو ملک کو خوشحال رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی خوشحال ہیں؟ تو اسکا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ کہ وہ لوگ یعنی وہ مزدور طبقہ جنکے دم سے یہ سب کچھ زندہ ہے۔ خود اس حال میں ہیکہ وہ نہ زندہ ہے اور نہ مردہ۔ یعنی ان لوگوں میں بہت کم تعداد کو وہ سہولیات میسر ہے۔ جو پاکستان کے لیبر قوانین کے تحت ان کا بنیادی حق ہے۔ آج ہزاروں صنعتی یونٹس میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین میں سے صرف 20 تا 30 فیصد افراد کو EOBI اور SESSI کے سہولیات میسر ہیں۔ جبکہ اکثریت ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ یہ لاکھوں مزدور نہ تو اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اور نا ہی ان کو مستقل ملازمت کا کوئی ضمانت حاصل ہے۔ اور اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ جو ادارے ان مزدوروں کے حقوق کے محافظ ہیں۔ وہ بجائے مزدوروں کو ان کے حقوق دلانے کے ان کے مالکان کے ساتھ ملکر ان کے حقوق غصب کرنے کی منصوبے بنارہے ہوتے ہیں۔ جن کے بدلے ان کو مستقل بنیادوں پر ان سرمایہ داروں کی جانب سے لفافے مل رہے ہوتے ہیں۔ جن کے ناجائز کاموں مین یہ ادارے اور اس سے وابستہ لوگ ان کے معاون کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔

یہ وزارت محنت اور ان کے ماتحت اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہیکہ آج کئی ایسی فیکٹریاں موجود ہیں، جن میں محنت کشوں سے 8,8 گھنٹے ڈیوٹی لینے کی بجائے 12,12 گھنٹے کی ڈیوٹی لی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر فیکٹریاں ایسی بھی ہے۔ جو مقررہ حکومتی تنخواہ ’’جو کہ 8 گھنٹے ڈیوٹی کے حساب سے 10000 ہزار روپے مہینہ ہے،، نہیں دیتے۔ بلکہ ہر کمپنی میں انتظامیہ نے من چاہی تنخواہیں مقرر کر رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج ملکی معاشی پہیہ چلانے والے مزدور طبقہ شدید بے چینی کا شکار اور اذیت میں مبتلاء ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں اس وقت صورتحال یہ ہیکہ مزدور طبقہ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے سارا دن ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی اس کوشش میں ہوتا ہیں۔ کہ رات کے وقت میں بھی ان کو کہیں نہ کہیں پارٹ ٹائم کام مل جائے۔ تاکہ انکے گھر کا چولہا بجھنے نہ پائے۔ دو وقت کی روٹی کے حصول میں شدید مشکلات کا شکار یہ طبقہ خود یا گھر میں کسی کے بیمار ہونے کی صورت میں بھی دہرے تکلیف میں مبتلاء نظر آتا ہیں۔ وہ اس لیے کہ پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کے لیے ان کے پیسے نہیں ہوتے،جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں بد انتظامی و شدید رش کی وجہ سے زیادہ وقت خرچ ہونے کے باعث ان مزدوروں کو کام سے چھٹی کرنا پڑتا ہیں۔ جسکا خمیازہ انہیں تبخواہ میں کٹوتی کی صورت میں بگھتنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو معیاری تعلیم دلانا ان کے لیے کسی خواب سے کم نہیں۔ جبکہ بچیوں کی شادی یا دیگر غمی، خوشی کے مواقع پر جیب میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جو کچھ ان مزدور طنقے کے دلوں پر گزرتا ہیں۔ وہ یہ مزدور ہی بہتر جانتے ہیں۔ ایک خوشحال ادمی اس قسم کے حالات کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کا خواب ،خواب ہی ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔ لہٰذا ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے لازم ہیکہ حکومت وقت دیگر پہلووں کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی پہیہ چلانے میں ریڑھ کی ہڈی جیسے حثیت رکھنے والے ان لاکھوں مزدوروں کی فلاح و بہبود اور محفوظ مستقبل کے لیے فوری طور اقدامات کریں۔ کیونکہ مضبوط معیشیت خوشحال مزدور کے بغیر ممکن نہیں۔
 

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 115092 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More