64سال پہلے ہمارے آباؤ اجدا نے دو قومی نظریے کی
بنیاد پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کرماؤں ،بہنوں بیٹیوں اور بہوؤں کی
عصمت دری اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر انگریزوں کی غلامی سے آزادی تو حاصل
کر لی تھی مگر ذہنی طور پر آج بھی ہم انگریز اور مغرب کے غلام ہیں ۔ہم
اُنکی اقدار ،انکی زبان،اُنکے لباس،اُنکے معاشرے کی نقل کر کے اپنی زندگی
بسر کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ہم اُنکے مذہبی تہوار بھی کسی نہ کسی طرح
سے نقل کر لیتے ہیں اور جدید معاشرے اور وقت کے تقاضے کا نام دے کر جدید
اسلام کے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں ۔ویلنٹائن ڈے بھی مغربی معاشرے کا ایک جزو
ہے جو کینسر کی طرح ہمارے ملک میں پھیل چکا ہے ۔جسکی اصل حقیقت سے بہت کم
لوگوں کو شناسائی ہے اور جن لوگوں پراس کی حقیقت عیاں ہے وہ بھی اپنے ملک
کے اسلامی معاشرے کو درست کر کے زہنی طور پرمغربی معاشرے کے تسلط سے آزاد
کرنے اور اپنے معاشرے کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھانے سے یہ کہہ کر راہِ فرار
اختیا ر لیتے ہیں کہ سو ظالموں میں ایک مظلوم کیا کرے؟دوسری صدی عیسوی میں
روم کے بادشاہ کلاڈیس دوم کے سر پر پوری دنیا فتح کرنے کا بھوت سوار تھااس
نے جنگ و جدل کا دور دورہ شرع کر رکھا تھا اس نے فتح کی تکمیل کے لیے اپنے
سارے ہمسایہ ممالک پر چرھائی شروع کر دی مخالف سمت سے زیادہ مزاحمت کا
سامنا کرنا پڑا اور جنگ طویل ہوتی چلی گئی ہزاروں کی تعداد میں فوج کے
سپاہی مارے گئے کلاڈیس دوم کے وزیروں اور سپاہ سالاروں نے فوج میں نئی
بھرتی کرنے کا مشورہ دیا لیکن روم کے لوگ خصوصاً نوجوان طبقہ عیش و عشرت کی
زندگی گزارنے کے عادی تھے اسلیے جنگ کے زمانے میں فوج میں بھرتی ہو کر دشمن
سے لڑنے اور موت سے پنجہ آزمائی کرنے سے دور رہتے تھے ۔بادشاہ نے بھی یہ
اعلان کر دیا کہ آئندہ کوئی بھی کنوارہ مرد شادی نہیں کر سکے گا صرف ان
لوگوں کو شادی کی اجازت ہو گی جو فوج میں بھرتی ہوں اور جنگ ختم ہونے کے
بعد واپس آئیں ۔لیکن روم کے ایک کیتھولک چرچ کے پادری سینٹ ویلنٹائن نے
بادشاہ کے اس حکم کی تعمیل نہ کی اور بغاوت کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں
لڑکیوں اور لڑکوں کو چرچ میں جمع کر کے انکی شادیاں کروانا شروع کر دیں
پادری سینٹ ویلنٹائن کی اس حرکت پر بادشاہ نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے
پابندِسلاسل کر دیا ۔جیل کی اسیری کے دوران سینٹ ویلنٹائن نے جیلر کی ایک
انتہائی خوبصورت بیٹی جو آنکھو ں کی بینائی سے محروم تھی کو دیکھا اور پہلی
ہی نظر میں اسکی محبت میں گرفتار ہو گیا ۔جیلر کی نابینا بیٹی کی ایک سہیلی
کے ذریعے اپنا پیغام اس تک پہنچایا اور پھر یہ سلسلہ اسی طرح سے رواں ہو
گیا ۔لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پادری سینٹ ویلنٹائن اور جیلر کی بیٹی کے عشق
کا راز فاش ہو گیا ۔جیلرکی بیٹی کے ساتھ عشق کے اس جرم کی پاداش میں پادری
سینٹ ویلنٹائن پر سنگین نوعیت کے جرائم کا مقدمہ درج ہو گیا۔ اور اس مقدمے
کی بنا پر جج نے اسے موت کی سزا سنا دی ۔اپنی سزا پر عملدرامد سے کچھ دن
قبل سینٹ ویلنٹائن نے ایک چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے پر ’’فرام یور ویلنٹائن‘‘
لکھ کر اپنی محبوبہ جیلر کی بیٹی کو بھجوا دیااس کے تھوڑے دن بعد 14فروری
کے دن سینٹ ویلنٹائن کو تختہِ دار پر لٹکا دیا گیا ایک سال گزرنے کے بعد
سینٹ ویلنٹائن کی برسی کے موقع پر روم کے نوجوانوں نے سینٹ ویلنٹائین کی
برسی کو ہر سال ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کے نام سے منانے کا اعلا ن کر دیا اور یوں
یہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے ۔90کی دہائی تک ’’ویلنٹائن ڈے‘‘صرف بڑے شہروں
اور امراء کے حلقہِ احباب تک محدود تھا مگر پچھلے چند سالوں میں ’’ویلنٹائن
ڈے ‘‘کی یہ لعنت گاؤں ،قصبوں ،اور پسماندہ علاقوں تک پہنچ چکی ہے فروری کا
مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے سارے بازار ویلنٹائن کارڈز،رنگ برنگے پھولوں اور
مختلف گفٹ پیکٹوں سے سج جاتے ہیں ۔مغرب مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہر
قسم کی چال چل رہا ہے اور ہم ہیں کہ مذہب اسلام کے اصولوں اور نبی پاکﷺ کی
سنت کو چھوڑ کر مغربی معاشرے کو اپنے معاشرے کا لازمی جزو بنا رہے ہیں ہم
اپنے آباؤ اجداد جنہوں نے اس ملک کئے قیام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش
کیا اور اس کے بدلے میں آج ہم ایک آزاد فضا ء میں سانس لے رہے ہیں انکی اور
اپنے دیگر قومی ہیروز کی برسی منانا تو درکنا ر یاد تک بھی نہیں رکھتے مگر
دوسری صدی عیسوی میں مرنے والے غیر مسلم ایک چرچ کے پادری سینٹ ویلنٹائن کی
برسی ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ کے نام سے منانے کے لیے ہفتوں پہلے تیاریاں شروع کر
دیتے ہیں۔ہم اپنے محسن قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جنہوں نے یہ ملک سونے کی
طشری میں رکھ کر ہمیں دیا،دوقومی نظریہ دینے والے اور پاکستان کا خواب
دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ ،بابائے اردو مولوی عبدالحق جنہوں نے
ہمیں ایک الگ زبان دے کر پوری دنیا میں متعارف کروایا،اور ان جیسے دیگر
ہیروز کی برسیاں اتنی شان و شوکت سے نہیں مناتے جتنی شان و شوکت کے ساتھ’
ویلنٹائن ڈے ‘کے نام پر دوسری صدی عیسوی میں مرنے والے غیر مسلم ایک چرچ کے
پادری سینٹ ویلنٹائن کی برسی مناتے ہیں شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہاں
گئی وہ غیرت جو آقائے دوجہاں محمدﷺ ہمیں دے کر گئے تھے؟ ۔ کہاں گئی وہ وفا
جو صدیق اکبرؓ ہمیں دے کر گئے تھے؟کہاں گئی وہ حیا ء جو علی ؓ ہمیں دے کر
گئے تھے؟ کیا ہو گیا ہماری غیرت کو؟ کیا ہو گیا ہے ہماری حیاء کو؟ یہی وجہ
ہے کہ ہمارا ہر آنے والا دن بد سے بد تر ہوتا چلا جا رہا ہے اﷲ تبارک
وتعالیٰ غیر مسلموں کو کافروں کو معاف کر سکتا ہے لیکن اگر یہی سلسلہ چلتا
رہا تواﷲ تعالیٰ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے
انبیاء کے ذریعے ،قرآن مجید کے ذریعے،اپنے آخری نبی آقائے دو جہاں محمد ﷺ
کے ذریعے سنت نبوی کے ذریعے ہمیں زندگی کے تمام راستے بتا دیئے ہیں اچھائی
کا راستہ بھی اور بُرائی کا رستہ بھی ۔اچھائی کی منزل جنت بھی بتا دی برائی
کی منزل جہنم بھی بتا دی اب ان میں سے اپنے لیے ہمیں کون سے راستے کا تعین
کرنا ہے یہ سب خود ہمارے اوپر منحصر ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس لیے بھی
معاف نہیں کر ے گا کیونکہ اس نے ہمارے لیے توبہ کہ دروازے بھی کھلے رکھے
ہیں مگر ہم ہیں کہ اس توبہ کے دروازے قریب بھی نہیں جا رہے ہیں ۔ہماری قوم
نہ صرف اسلامی اور مذہبی اقدار و اخلاقیات سے دور ہو رہی ہے بلکہ اپنے قومی
اور ملکی ہیروز کو بھول کر غیر مسلم اور مغربی نام نہاد ہیروز کے قول و فعل
کواپنا شعار بنا رہے ہیں ہم دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والے ایک
اسلامی جمہوری ملک پاکستان میں مغربی معاشرے کو پروان چڑھا کر دو قومی
نظریے کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کے محسن اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر
قیامِ پاکستان کا نظریہ دینے والے علامہ اقبالؒ کے اس قول کی نفی بھی کر
رہے ہیں کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
ہم روز بروز زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مغر ب اسلام کا
دشمن ہے لیکن ہم اسکے اصولوں اور اسکے معاشرتی رہن سہن ،لباس ،زبان ،عادات
واطوار کو اپنے معاشرے کا حصہ بنا رہے ہیں -
آج قائد اعظم کے پاکستان کی نظریاتی اور اسلامی معاشرے کی روح چیخ چیخ کر
کسی ٹیپو سلطان ،کسی محمد بن قاسم کسی سلطان محمود غزنوی کو پکار رہی ہے کہ
ان جیسا کوئی آئے اور یہاں آکر کسی انقلاب کے ذریعے ایک خالص اسلامی معاشرے
کا قیام عمل میں لائے، کوئی آئے اور قائد اعظم کے پاکستا ن کا قانون قائد
اعظم کے فرمودات کی روشنی میں بنائے ،کوئی آ ئے اور دوقومی نظریہ اور
پاکستان کا خواب دینے والے علامہ اقبالؒ کے پاکستان کے نوجوانوں کو یہ
بتائے کہ علامہ اقبال ؒ نے کس لیے یہ کہا تھا کہ
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائیُ
دو نیم انکی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذتِ آ شنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی |