”انکل! ذرا سائیڈ پر ہو
جائیں....“
ہم نے ’ذرا‘ سائیڈ پر ہوتے ہوئے مخاطب کی طرف دیکھا تو خون کھول اٹھا۔ پچاس
کے سن کے آس پاس وہ صاحب خود ہمارے ’انکل‘ بننے کے مستحق تھے۔ بے شک انہوں
نے جوان نظر آنے کے لیے ہزار جتن کر رکھے تھے مگر ہر طرح کے رنگ و روغن کے
باوجود دیوار کی بوسیدگی اِدھر اُدھر سے جھلکی پڑتی تھی۔ ان کے نیلے رخسار
بتا رہے تھے کہ بہت گہرائی میں رگڑ رگڑ کر شیو بنائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ
بالوںکا غیر فطری’ انتہائی ‘سیاہ رنگ اور چہرے پر پھیلی آڑی ترچھی
لکیریں.... ہم نے فوراً غالب سے معذرت کی اور زیر لب کہا
یہ بڑھاپا ہے یا معصوم بچے کی ہنسی
جو روکے نہ رکے اور چھپائے نہ چھپے
ہم سنجیدگی سے سوچنے لگے کہ کہیں ہماری جوانی کو چپکے چپکے گھن تو نہیں لگ
رہا کہ اکثر بابے بھی ہمیں انکل کہنے لگے ہیں! مگر پھر یہ کہہ کر اپنے دل
کو تسلی دی کہ چونکہ ہم کلین شیو نہیں ہیں، ہم مروجہ فیشن کے مطابق فیشل
اور بلیچ بھی نہیں کرواتے اور ’نزلے ‘ اور ’دھوپ‘ کے بد اثرات کی وجہ سے
(سچی مچی)ہمارے لاکھوں میں سے پندرہ بیس بال بھی سفید ہو چلے ہیں، اس لیے
ہمیں انکل کے مرتبے پر فائز کر دیا جاتا ہے (شکر ہے کوئی ماموں نہیں
بناتا)!!
تھوڑی دیر بعد ہی ہمیں بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔ ہمارے سامنے والی سیٹ پر
سے ایک صاحب اپنا اسٹاپ آنے پر کھڑے ہوئے تو ہم نے آس پاس کسی بزرگ کو
دیکھا ، ان صاحب کے علاوہ سب کڑیل جوان تھے۔ پہلے تو ہم نے خود بیٹھنے کا
ارادہ کیا، پھر خیال آیا کہ یہ مناسب نہیں ہو گا، صاحب اپنا بڑا پن کتنابھی
چھپائیں، ہیں تو بڑے، اس لیے ان کو ہی سیٹ آفر کرنی چاہیے۔ ہم نے اپنی خدا
ترسی میں کچھ شرارت کی بھی ملاوٹ کی اور کہا:”انکل! آپ بیٹھ جائیں....“
اور ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اس وقت انہوں نے نہ انکل کہنے پر کچھ
برا منایا اور نہ تکلفاً ہی سیٹ پر بیٹھنے سے منع کیا۔’ شکریہ بھائی ‘کہا
اور بیٹھ گئے ۔ واہ یعنی جب چاہیں آپ ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ کے مصداق اپنے
سے دس بیس سال چھوٹوں کو انکل کہیں اور جب مخصوص بزرگوں والی سہولیات اور
احترام حاصل کرنا ہو تو بڑے بن جائیں۔ خیر یہ ہمارے کراچی کا ایک خاص
اسٹائل بن چکا ہے۔ یہاں آپ کو کوئی بھی، کبھی بھی انکل یا ’ماموں‘ بنا سکتا
ہے، البتہ دونوںمیں سے کون سا خطاب آپ کو کب دیا جائے گا یہ حالات اور موقع
محل پر منحصر ہوتاہے۔
عمر گزرنے کے ساتھ بچپن کا جوانی میں اور جوانی کا بڑھاپے میں تبدیل ہونا
ایک ابدی حقیقت ہے کہ یہاں صرف ثبات تغیر کو ہی ہے۔ اگر آپ کو خوش قسمتی سے
عمر کی پونجی زیادہ ملی ہے تو جوانی ضرور جا کر رہے گی اور بڑھاپاضرور آ کر
رہے گا۔ ہاں البتہ فی زمانہ بے شمار ایسے حیلے ضرور ایجاد ہو چکے ہیں جو آپ
کے بڑھاپے کو ذرا موخر کر سکتے ہیں یا کچھ عرصہ چھپا سکتے ہیں۔کاسمیٹکس کی
اربوں ڈالر کی بین الاقوامی صنعت میں بڑھاپے کو روکنے یا چھپانے کے طریقوں
کے لیے ایک الگ شعبہ قائم ہے۔اس مقصد کے لیے کاسمیٹکس بھی ہیں اور دوائیں
بھی، جن کے انتہائی ضمنی اثرات کے باوجود دنیا بھر کے فیشن زدہ متمول بڈھے
بڈھیاں اپنی عمر بھر کی کمائی ان چیزوں پر خرچ کر کے گزری جوانی کو آواز
دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک دوا بوٹوکس کو لے لیجیے جس
کا استعمال چہرے کی جھریاں مٹانے کے لیے روز بروز بڑھ رہا ہے۔ یہ دوا دراصل
’بوٹولینم ٹاکسن‘ نامی زہر ہے جسے دنیا میں دریافت ہونے والا سب سے
زہریلااور مہنگا مادہ قرار دیاگیا ہے۔ماہرین کے دعوے کے مطابق اس کے دو
کلوگرام سے زمین پر انسان کی پوری آبادی ختم ہو سکتی ہے۔اس زہرکی انتہائی
قلیل مقدار کو انجکشن کے ذریعے جھریاں پیدا کرنے والے اعصاب میں داخل کیا
جاتا ہے تا کہ یہ اعصاب تباہ ہو جائیں اور جلد جوان اور سبک نظر آئے۔ مگر
یہ طریقہ بے حد خطرناک ہے، اس میں0.001 کی غلطی بھی بھیانک موت سے دوچار کر
سکتی ہے مگر ہائے جوانی.... جوانی کی آس میں ہر خطرہ مول لیا جاتا ہے۔
خیر ہمیں کیا....بڈھی گھوڑی ہو یا بڈھا گھوڑا،لال لگام لگانے سے نہ ہی
لرزتے پیروں میں وہ جان آ سکتی ہے جو کبھی جوانی کے جوش میں زمین پر پٹخ کر
مارے جاتے تھے اور نہ ہی آنکھوں کے وہ بجھتے دیے دوبارہ جگمگا سکتے ہیں ،
جو کبھی نرگس سے تشبیہ دیے جاتے تھے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جوانی میں آپ نے
کیا کیا اور بڑھاپے میں آپ کتنے کارآمد ہیں؟ اپنے خاندان کے لیے اور اپنے
معاشرے کے لیے!
پھر مغرب یاد آگیا۔مشہور ہے کہ وہاں بوڑھوں کے لیے اولڈ ہومز بنائے جاتے
ہیں،جہاں وہ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہوئے زندگی کے بچے کھچے لمحات گزار
دیتے ہیں،بے شک یہ حقیقت بھی ہے لیکن مغربی معاشرے میں بے شمار بوڑھے ایسے
بھی ہیں، جن کا بڑھاپا انتہائی قابلِ رشک ہے اورجواسی نوے سال کی عمر میں
بھی معاشرے اور اپنے خاندان کے لیے نہایت کارآمد ہیں۔یوں تو کئی مثالیں
یہاں دی جا سکتی ہیں لیکن جگہ کی کمی کے باعث صرف ایک مثال کینیڈا کے شہر
مسی ساگا کی نوے سالہ مئیر ہیزل مکالین کی لیجیے۔ گھر گرہستی سے شہر گرہستی
تک ان کی ایک کامیاب کہانی ہے۔ نوے سالہ یہ بزرگ خاتون مسلسل پچھلے بتیس
سال سے شہر مسی ساگا کی مئیر ہیں۔ کسی زمانے میں مسی ساگا ٹورنٹو کے نواح
میں محض ایک معمولی سا قصبہ تھا۔ اس بوڑھی عورت نے اپنی چالیس سالہ سیاست
میں اس قصبے کو کینیڈا کے ٹاپ کے شہروں کے مقابل لا کھڑا کیا۔ مقبولیت کا
یہ عالم ہے کہ ماضی قریب میں نوے فیصد ووٹوں سے منتخب ہوتی رہی ہیں۔ اس کے
بہت سے حاسدین اس کی موت کا انتظار کرتے کرتے خود قبروں میں اتر گئے، لیکن
بڑھیا ہے کہ وہیں کی وہیں ہے۔ اورمزے کی بات تو یہ ہے کہ صرف شہر ہی
نہیںبچے اور پوتے بھی سنبھالتی ہے، گھر کا سودا سلف بھی لاتی ہے۔ استغناءکا
یہ حال ہے کہ میئر ہونے کے باوجود ایک ڈرائیور بھی رکھنے کو تیار نہیں۔ابھی
چند برس پہلے ڈرائیونگ کرتے ہوئے حادثہ پیش آ گیا تو شہری انتظامیہ نے
منتیں ترلے کر کے ایک ڈرائیور رکھوا دیا، ورنہ تو یہ خاتون اپنی کسی بھی
ذمہ داری سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔ مزید یہ کہ ایک ترقی یافتہ ملک
کے ماڈرن شہر کی میئر ہونے کے باوجودہیزل بہت سادگی پسند خاتون ہیں۔ ان کا
چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا ہے (آپ وکی پیڈیا پر ہیزل میکالین کو سرچ کر کے
دیکھ لیں) مگر انہوں نے کبھی کاسمیٹک سرجری کے ذریعے انہیں چھپانے کی کوشش
نہیں کی۔
دیکھا آپ نے ؟نوے سالہ عمر اور یہ کارکردگی! .... ہمارے ہاں بڑے بڑے تیس
مار خاں اس عمر میں منجی پر لیٹے موت کو تک رہے ہوتے ہیں ، بلکہ ساٹھ ستر
برس کی عمر میںہی ان کے ہاتھ پیر کانپنے لگ جاتے ہیں، خدمت خلق تو بہت دور
کی بات ہے۔ ان کے برعکس جو کچھ فیشن زدہ ماڈرن بوڑھے ہوتے ہیں ، وہ کریم
پوڈر اور سرجری کے ذریعے جوانی کو لوٹانے کی کوشش میں مسخرے تو بن جاتے ہیں
لیکن خاندانی اور معاشرتی سطح پر ان کی خدمات کچھ نہیںہوتیں( خیال رہے یہ
اکثریت کی بات ہے ورنہ استثنا تو بہرحال سب جگہ ہوتا ہے)۔چلیں چھوڑیں چونکہ
ہمارے بھی چند بال سفید ہو گئے ہیں (چاہے دھوپ میں ہی سفید ہوئے ہوں) اس
لیے عمر ِرفتہ کو آواز دیتے ہوئے حفیظ جالندھری کے الفاظ گنگناتے ہیں، آپ
بھی ہمارا ساتھ دیں
ہوا بھی خوش گوار ہے....گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنمِ ہزار ہے....بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا....اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ کیا گماں ہے بد گماں....سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیالِ زہد ابھی کہاں....نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں! |