رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا پر احسان ہے کہ آپ
نے اسے جہالت سے نکالا اور علم کی روشنی عطا کی۔آپ نے علم کی اہمیت ہی واضح
نہیں کی، بلکہ اسے دینی رخ عطا کیا ،اس کی فضیلت بیان کی اور اس کو فلاح
دارین کا ذریعہ قرار دیا۔ اگر علم کو دینی رخ نہ ملے تو آدمی خدائی ہدایت
سے محروم ہوتا ہے اور ضلالت میں بھٹکتا رہتا ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعض ارشادات پیش کیے جارہے ہیں ،جن سے علمِ دین کی اہمیت اور
فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ یہ ارشادات مشکوٰةالمصابیح کی کتاب العلم سے لیے گئے
ہیں۔
۱- عن معاویہؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین و
انما انا قاسم و اللہ یعطی(بخاری)۔
(حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی جس کسی کے
ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں بصیرت عطا کرتا ہے اور میں تو صرف
تقسیم کرنے والا ہوں،دینے والا اللہ ہے)۔
یہ حدیث واضح طور پر بتا تی ہے کہ اللہ جب کسی کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا
چاہتا ہے تو اسے فہمِ دین سے نوازتا ہے۔ لفظ ’خیر‘ عربی میں عموماً دو
معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اس کے ایک معنیٰ ہیں مال و دولت اور جائیداد۔ا س
کا ثبوت قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے۔
و انہ لحب الخیر لشدید(العادیات:۸)
(اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے)
’خیر‘ کا دوسرا مفہوم بھلائی اور سعادت ہے۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت
کریمہ اس مفہوم کو واضح کرتی ہے:
و من یو ¿ت الحکمة فقد اوتی خیراً کثیراً (البقرة:۹۶۲)۔
اور جسے حکمت عطا ہوئی درحقیقت اسے بڑی بھلائی دی گئی۔
اس حدیث میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔دوسرا لفظ ،جس کی یہاں
اہمیت ہے ،وہ ہے تفقہ فی الدین ۔ اس کے معنیٰ ہیں فہمِ دین اور دینی امور
میں سوجھ بوجھ اور بصیرت ۔ قرآن و احادیث کی معنویت کو سمجھنا، اس کی
گہرائی میں اترنا، دین و شریعت کے احکام کی علت اور اس کے منشا کو ٹھیک
ٹھیک سمجھنا، حالات پر ان کا انطباق کرنا اور قرآن و حدیث سے صحیح اخذ و
استنباط کرناتفقہ فی الدین ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کو اپنی رحمتِ خاص سے نوازنا چاہے، اس کے ساتھ
بھلائی اور نیکی کا معاملہ کرنا چاہے تو اس کے دل و دماغ کے بند دروازے کو
کھول دیتا ہے،اسے دین کے معاملے میں باریک بینی،سوجھ بوجھ اور قرآن و سنت
کے احکام کو حالات پر منطبق کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔اللہ تعالی اپنے
پیغمبروں کو علم کے ساتھ فہم اور فقہ و بصیرت سے بھی نوازتا ہے۔ اس میدان
میںجو ان کے وارث ہوتے ہیں انہیں بھی اللہ تعالی حسبِ توفیق اس کا ایک حصہ
عطا کرتا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہو تی ہے کہ قرآن کی حکمتوں اور باریکیوں سے
واقف ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے معانی و مطالب کی تہہ میں پہنچ کر
حالات پر انہیں منطبق کر سکیں۔
اسلامی تاریخ میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن
حنبل جیسی شخصیات کی اہمیت یونہی نہیں ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان ہستیوں
نے دین کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنے آپ کو مٹا دیا،بر سہا برس حصولِ علم ،
غور و فکر اور تدبر میں لگے رہے، تب کہیں جا کر اللہ نے انہیں تفقہ فی
الدین یعنی سوجھ بوجھ کی نعمتِ عظیم سے نوازا۔فقیہ وہ ہے جو حالات کے مطابق
اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا انطباق کر سکتا ہو۔
اس حدیث میں دوسری بات جو کہی گئی ہے وہ بھی بہت اہم ہے۔رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: میں تو محض اس خیر کا اوراس بھلائی کا تقسیم کرنے والا ہوں جو اللہ
نے مجھے دیا ہے۔ذرا غور کیجئے، ان الفاظ میں کس قدر بے نفسی اور خاک ساری
کا اظہار ہے۔ہمارا اور آپ کا یقین ہے کہ بنی نوع آدم میں سب سے زیادہ تفقہ
فی الدین رسول اللہ ﷺ ہی کو حاصل تھا۔ان کی ہم سری کا تصور تو کوئی کر ہی
نہیں سکتا، ان سے آگے بڑھنے کا دعوی تو دور رہا ۔لیکن رسول اللہ ﷺ کو اپنی
اس عظمت پر، اپنی اس حکمت پر ،اس فہمِ دین پر کوئی غرہ نہیں ہے، بلکہ وہ
صاف طور پر اس کا اقرار کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ یہ علم و فہم میرا
اپنا کمال نہیں ہے ،بلکہ اللہ کا عطا کردہ ہے۔اور اسی کی عطا کو میں اس کے
بندوں تک منتقل کر رہا ہوں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ علم و فہم
دونوں ایسے سرمایے ہیں جن کے حاصل ہونے پر استکبار،غرور و پندار میں آدمی
کے مبتلا ہونے کا سخت اندیشہ رہتا ہے۔شیطان بھی علمِ دین حاصل کرنے والے کو
ہر طریقے سے،ہر جہت سے اور ہر پہلو سے شکست دینے کی کوشش میں لگا رہتا
ہے۔لیکن اس وقت وہ مایوس ہوجاتا ہے جب طالب علم شیطان کی وسوسہ اندازیوں کو
نظر انداز کر کے اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ اب آخری تیر جوشیطان کے ترکش
میں رہ جاتا ہے وہ ہے ریا اور استکبار کا۔عالم یا فقیہ مارے گئے اگر انہوں
نے اپنے کھلے ہوئے دشمن کے اس تیر کی زد سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں
رکھا،کیوں کہ کوئی اگر فقیہ ہے تو یہ اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی نوازش
ہے۔ اسی نے اس کو دینی بصیرت عطا کی ہے۔ اس نے دیا ہے تو اس کو کسی بھی وقت
چھین سکتا ہے۔غرور اس چیز پر کیوں ہو جو کسی دوسرے کی عطا کردہ ہو اور جس
کے ہمیشہ باقی رکھنے پر وہ قادر نہ ہو۔
۲- عن ابن مسعود قال: قال رسول اللہﷺ لاحسد الا فی اثنین رجل اٰتاہ اللہ
مالاًفسلّطہ علی ھلکتہ فی الحق و رجل اٰتاہ الحکمة فھو یقضی بھا و
یعلّمھا(متفق علیہ)
(حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:قابل رشک صرف
دو خوبیاں ہیں ۔ایک یہ کہ اللہ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہو اور وہ
اسے حق کی راہ میں صرف کرتا ہو۔دوسری خوبی یہ ہے کہ آدمی کو اللہ نے حکمت
عطا کی ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہواور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا
ہو)
حدیث میںلفظ’حسد‘ آیا ہے ۔یہ ہماری زبان میں جلن کے معنی میں مروّج ہے،
لیکن ظاہر ہے ،یہاں اس کا یہ مفہوم نہیں ہے،بلکہ رشک مراد ہے۔ حسد اور رشک
دونوںمیں فرق ہے۔حسد میں یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی خوبی
ضائع ہو جائے۔ اس کیفیت میں محسود کو نقصان پہنچانے کا پہلو ہی غالب رہتا
ہے۔ لیکن رشک میں نقصان پہنچانے یا برا چاہنے کا کوئی پہلو نہیں ہوتا،بلکہ
خواہش یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص کی فلاں خوبی میرے اندر بھی پیدا ہو جائے ۔
حسد کو دین میں گناہ اور فسق کہا گیا ہے اور رشک مطلوب اور پسندیدہ شئے
ہے۔صحابہؓ، تابعینؒ، ائمہ کرام اور بزرگانِ دین تونہ صرف رشک کرتے تھے،بلکہ
باقاعدہ دعائیںمانگا کرتے تھے کہ مجھے فلاں شخص کی خوبیاں عطا کر دے۔اسی
پسندیدہ اور مطلوب جذبے کی تائید اس حدیث میں کی گئی ہے ۔فرمایا گیا کہ
قابل رشک ہی نہیں ، بلکہ انتہائی قابل رشک (کیوں کہ قابل رشک تو ساری
خوبیاں ہیں)دو خوبیاں ہیں:
ایک یہ کہ اللہ نے کسی کو مالِ کثیر عطا کیا ہو اور وہ حق کی راہ میں، جہاد
میں، غریبوں پر، محتاجوں پر، یتیموں پر،بیواؤں پر، یعنی ہر ضرورت مند پر اس
کو بے دریغ لٹاتا ہو، اس کے دل میں مال کی محبت جاگزیں نہ ہو، بلکہ اس لیے
ہو کہ دین کی جب اور جہاںکوئی ضروت پیش آئے بس اس کے خزانوں کے منھ کھل
جائیں۔وہ صرف واجبات ہی کی ادائیگی اپنے مال سے نہ کرتا ہو، بلکہ اس سے ہٹ
کر بھی ہر کارخیر میں اپنا مال لٹانے پر آمادہ ہو۔اگر زکوة کی ادائیگی کوئی
شخص پورے اہتمام کے ساتھ کرتا ہے تو یہ کوئی رشک کی بات نہیں ہے ، رشک کی
بات تو یہ ہے کہ اس کے علاوہ خرچ کرتا ہو اور بے پناہ خرچ کرتا ہو۔قرآن
مجید نے اس طرح انفاق کرنے والوں کی تعریف کی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بے
خوف اور غم سے پاک زندگی کا وعدہ فرمایا ہے۔الذین ینفقون اموالھم بالیل و
النھار سرا و علانیة فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم
یحزنون(البقرة:۴۷۲)
قرآن و حدیث میں حق کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت کا ذکر ہے۔یہاں وہ فضول
خرچیاں مراد نہیں ہیں جو شادی بیاہ، ختنوں،دعوتوںاور محتاجوں پر اپنی ساکھ
اور رعب داب کو قائم رکھنے کے لیے کی جاتی ہیں،بلکہ یہ لٹانا تو معصیت اور
گناہ میں داخل ہے۔دوسراشخص، جس پر رشک کرنا چاہئے، وہ ہے جو اللہ تعالی کی
عطا کردہ حکمت کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرتا اور تعلیم دیتا ہے
۔ لوگوں کے معاملات کا صحیح فیصلہ تو وہی کر سکتا ہے جسے اللہ نے حکمت سے
نوازا ہو، جسے دین میں درک حاصل ہو ، جس کی قرآن و سنت کی گہرائیوں پر نظر
ہو اور جو اللہ اور رسول کے احکام کا ٹھیک ٹھیک منشا جانتا ہو۔ احادیث میں
عدل و انصاف کرنے والوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے
روز سات قسم کے لوگ عرش کے سایے میں ہوں گے۔ ان میں ایک امام عادل بھی ہو
گا،یعنی وہ امیر یا قائد یا حاکم وقت جو عدل کرتا ہو۔اور عدل وہی کر سکتا
ہے جو دین کا علم و فہم رکھتا ہو، بلکہ اسے دوسروں تک کمال درجہ حکمت اور
بصیرت کے ساتھ منتقل کرتا ہو۔ ایک ہوتا ہے علم سکھانااور دوسرا ہوتا ہے علم
کو حکمت کے ساتھ بتانا۔یہی دوسری صفت قابلِ رشک آدمی کی ہوتی ہے۔ وہ صرف
علم کو اس کی تفصیلات کے ساتھ بتاتا ہی نہیں ،بلکہ اس کی باریکیوں اور
مصلحتوں کو بھی سکھاتا اور سمجھاتا ہے۔
۳- عن الحسن مرسلاً قال: قال رسول اللہ ﷺ من جاءہ الموت و ھو یطلب العلم
لیحیی بہ الاسلام فبینہ و بین النبیین درجةً واحدةً فی الجنة(رواہ الدارمی)
حضرت حسن بصری سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس شخص کو موت
اس حالت میں آئے کہ وہ اسلام کو زندہ کرنے کے لیے علم حاصل کر رہا تھا تو
جنت میں اس کے اور انبیاءکے درمیان صرف ایک درجے کا فرق رہے گا ۔
کتنی قابلِ رشک ہے وہ موت جو علم دین حاصل کرنے کی راہ میں آئے۔ یہاں محض
علم دین حاصل کرنے کی فضیلت نہیں ہے،بلکہ اس علم دین کی فضیلت ہے جو اس لیے
حاصل کی جائے کہ اس سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنی ہے۔آج بے شمار لوگ پڑھ
تورہے ہیںدینی مدارس میں، لیکن انہیں اپنے مقصد کا علم بھی نہیں ہے اور
فراغت حاصل کرنے کے بعد عام لوگوں کی طرح وہ بھی دنیا کی طلب میں لگ جاتے
ہیں۔ ایسا علم کس کام کا؟اللہ کے یہاں قدر اس علم کی جستجو اور تلاش کی ہے
جو اسلام کو زندہ کرنے کی غرض سے کی جائے ،جو قرآن و سنت کی پیروی عام کرنے
کے مقصد سے کی جائے، جو لوگوں کے معاملات دین و شریعت کے مطابق فیصل کرنے
کے لیے کی جائے اور جو دین کی تفہیم و تلقین کی خاطر کی جائے۔اس بلند مقصد
کی خاطر حصول علم میں اگر کسی کو موت آجائے تو جنت میں انبیاءکے بعد سب سے
زیادہ بلند مرتبہ اسی کا ہوگا۔حدیث کے الفاظ ہیں ’ایسے طالب علم اور
انبیاءکے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا‘۔ا س سے مراد یہ ہے کہ اس کا
مرتبہ بہت بلند ہوگا۔ اللہ کے رسولوں کے مقام کو تو کوئی بھی شخص بڑی سے
بڑی قربانی اور اعلیٰ سے اعلیٰ جد و جہد کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتا،البتہ
جو شخص علم حاصل کر کے احیاءدین کی کوشش کرتا ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا
ہے ، اس لیے پیغمبروں کے بعد اس کا مرتبہ و مقام ہوگا۔
۴-عن انس ؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ
حتیٰ یرجع(رواہ الترمذی و الدارمی)
(جو شخص علم کی طلب میں نکلے وہ اللہ کے راستے میں ہے جب تک کہ وہ لوٹ نہ
آئے)
اس حدیث میں طلبِ علم میں وقت ضرورت سفر کی ترغیب ہے اور اسے ’فی سبیل
اللہ‘ یعنی جہاد کہا گیا ہے۔ جہاد اصلاً اللہ کے دین کو سربلند کرنے، دنیا
سے فتنہ و فساد کو ختم کرنے ، امن و مان اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے
ہوتا ہے۔ یہی مقصد طالب علم کا ہونا چاہئے ۔ جو شخص اس کے لیے سفر کرے وہ
راہِ خدا میں ہے۔ جب وہ علم سے آراستہ ہو کر لوٹے گا تو اسی مقصد کو بہتر
طریقہ سے پورا کرے گااور اس کے ذریعہ دینی فکر وعمل کا دائرہ وسیع سے وسیع
تر ہوگا۔
۵- عن انس بن مالکؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ ھل تدرون من اجود جوداً؟ قالواا
للہ و رسولہ اعلم فقال اللہ تعالی اجود جوداً ثم انا اجود بنی آدم و اجودھم
من بعدی رجل علم علماً فنشرہ یاتی یوم القیامة امیراً وحدہ او قال امةً
واحدةً(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
(حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا لوگ جانتے
ہو کہ سب سے زیادہ سخی کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر
جانتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ سخی اللہ ہے ، پھر میں ہوں
اور میرے بعد وہ شخص سخی ہے جو علم حاصل کرے اور اسے پھیلائے۔ ایسا شخص
قیامت کے روزامیر بن کر اٹھے گا، یا فرمایا ایک امت کی حیثیت سے اٹھے گا)
صحابہ کا یہ انداز تھا کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی سوال فرماتے تو وہ ہمہ تن
گوش ہوجاتے اور کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے ۔صحابہ
اپنی سمجھ کے مطابق سوال کا جواب دینے کی کوشش نہیں کرتے تھے ، بلکہ وہ یہ
محسوس کر کے کہ اب کچھ بتایا جانے والا ہے ،اپنی لا علمی کا اظہار کرتے
تھے۔ خیال رہے کہ اپنی علمی کم مائیگی کا احساس ہی وہ وصف ہے جو کسی عالم
کے علم میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔کسی نے جس دن اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ
لیا اس نے مزید حصول علم کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لیا۔
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سب سے بڑا سخی اور فیاض اللہ ہے۔ اس کے جود و
سخا کے خزانے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ وہ سب کو دیتا ہے اور بھر پور دیتا
ہے۔زندگی دیتا ہے، صحت دیتا ہے، جوانی دیتا ہے، مال و دولت دیتا ہے، عزت
اور شہرت دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی میں کوئی کمی ہو تو اس کے
اسباب دوسرے ہو سکتے ہیں ، اس کی فیاضی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کے بعد
اللہ کے آخری رسول ﷺ سب سے زیادہ سخی ہیں ۔اللہ نے آپ کو جو کچھ دیا اسے دل
کھول کر بانٹتے ہیں، جس طرح رسول اللہ کو بے پناہ علم کا خزانہ اللہ سے
ملتا تھا، اسی طرح آپ بے حد و حساب اپنے لوگوں پر لٹا دیتے تھے۔کبھی آپ نے
اسے پوشیدہ نہیں رکھا۔ اسی کانتیجہ ہے کہ آج پورا عالم اس کے علم و حکمت سے
روشن ہے ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی علم کے اثرات دکھائی دیتے ہیں وہ سب آپ
ہی کا طفیل ہے۔آپ نے علم کی تقسیم میں یہ سخاوت نہ دکھائی ہوتی تو علم کا
یہ دور دورہ ممکن نہ ہوتا۔
اللہ کے رسول ﷺ کے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے جو علم حاصل کرے اور اسے
پھیلائے، یعنی علم کی دولت حاصل ہونے کے بعد اسے لوگوں میں بانٹتا پھرے ۔
علم حاصل کرنا بھی کمال ہے، لیکن اس سے بڑا اور اہم کمال یہ ہے کہ عالم میں
اسے پھیلائے۔جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے اسے دوسروں کو دے دے اور اسے عام کر
دے۔علم دین بہت لوگ حاصل کرتے ہیں ،لیکن اس کی اشاعت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں
۔ ان لوگوں کی حیثیت بخیل کی سی ہے، جو اپنے علم پر سانپ بن کر بیٹھے رہتے
ہیں اور کسی کو مستفید ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ حالاں کہ اس طرح وہ اپنے
علم کو ضائع کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف علم کو پھیلانے سے علم نہ صرف محفوظ
رہتا ہے، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایسا عالم قیامت کے روز سردار بن کر اٹھے گا۔ چاہے دنیا میں فقیروں کی
زندگی بسر کرتا رہا ہو،پھٹے بوریے پر سوتا رہا ہو، فاقہ کرتا رہا ہو اور
دنیا میںاس کی کوئی حیثیت نہ رہی ہو اور لوگ اسے مولوی،ملا، مولانا کہہ کر
اس کا مذاق اڑاتے رہے ہوں۔کیا یہ کوئی معمولی اعزاز ہے؟اور پھر آخرت کی
بادشاہت اور سرداری کا کیا کہنا۔ وہ تو لازوال اور پائیدار ہو گی۔راوی کے
مطابق شاید رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایسا شخص قیامت میں امت واحد بن کر
اٹھے گا۔ ان الفاظ میں بڑی معنویت ہے ۔ وہ شخص امت واحد کی حیثیت رکھتا ہے
جو دین کی اشاعت کا یا اس کی تجدید کا سبب بنتا ہے اور اس ایک شخص کے ذریعے
اس کے بعد بھی علم کا چراغ روشن رہتا ہے اور لوگ فائدہ اٹھاتے رہتے
ہیں۔قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کو امتِ واحدہ کہا گیا ہے ،اس لیے کہ ان کے
ذریعے پوری دنیا میں وحدانیت کا عَلم بلند ہوا ، آج تک بلند ہے اور قیامت
تک بلند رہے گا۔
۶- عن ابی الدردائؓ قال انّی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: من سلک طریقا یطلب فیہ
علماً سلک اللہ بہ طریقاً من طرق الجنة و انّ الملٰئکة لتضع اجنجتھالطالب
العم و ان العالم یستغفر لہ من فی السمٰوات و من فی الارض و الحیتان فی جوف
الماءو ان فضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلة البدر علیٰ سائر الکواکب
و ان العلماءورثة الانبیاءو ان الاانبیاءلم یورّثوا دینا راً و لا درھماً و
انّما ورثوا العلم، فمن اخذہ اخذ بحظٍّ وافر(رواہ احمد و الترمذی و ابوداود
و ابن ماجہ و الدارمی)
(حضرت ابودردائؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے
سنا: جس نے علم کی طلب میں راستہ طے کیا اللہ نے اس کے لیے جنت کے راستوں
میں سے ایک راستہ کھول دیا اور فرشتے طالب علم کے راستے میں اپنے پر بچھاتے
ہیں اور زمین و آسمان کی ساری چیزیں حتیٰ کہ پانی میں رہنے والی مچھلیاں
بھی علم کے حق میں مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح
ہے جس طرح چودھویں کے چاند کی فضیلت ستاروں پر ہے اور علماءانبیاءکے وارث
ہیں۔ انبیاءکو درہم و دینار کی وراثت نہیں دی گئی ہے، بلکہ علم کی وراثت دی
گئی ہے۔ جس نے اس ورثہ کو پا لیا اس نے حصہ ¿ وافر پایا)۔
اس حدیث میں کئی باتیں بیان ہوئی ہیں :
پہلی بات علم دین کے طالب کی اہمیت ہے ۔ جو شخص علم دین کی طلب میں دوڑ
دھوپ، محنت اور وقت صرف کرتا ہے اور جو مال خرچ کرتاہے وہ جنت سے اسے قریب
کرتا ہے۔ اللہ اس کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جنت کا صلہ اس
کے لیے تیار ہے اور فرشتے اس کی راہ میں پر بچھاتے ہیں ،یعنی اسے ہر قسم کی
آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے فرشتے ہی ساری دنیا کا نظم و نسق
چلاتے ہیں۔ فرشتے طالب علم کے لیے سازگار حالات پیدا کرتے ہیں اور نظامِ
کائنات کو اس کے حق میں معاون بناتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ علم دین سے
زمین و آسمان کی ہر شئے کا ایک قلبی تعلق ہوتا ہے۔ اسی تعلق کی بنا پر تمام
اشیاءیہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتی
ہیں۔سوچنے کی بات ہے ،جس کے حق میں پوری کائنات استغفار کرے اللہ کی رحمت
اس کی جانب کیوں نہ متوجہ ہو گی!
تیسری بات عابد پر عالم کی فضیلت کی ہے۔ عابد کی عبادت، اس کے زہد اور
تقویٰ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن اس کے باوجود وہ عالم کے مقام کو
نہیں پہنچ سکتا۔ یہ فضیلت یونہی نہیں ہے۔ عملی دنیا اسے اس کا مستحق بناتی
ہے۔مثال کے طور پر زید ڈرائیور ہے اور بکر مسافر ہے۔ اس میں اہمیت زید ہی
کو حاصل ہے ۔ اس لیے کہ گاڑی چلانے کا کام بہر حال زید ہی انجام دیتا ہے۔
بکر میں بہت سی خوبیاں ہو سکتی ہیں ،لیکن اپنی ان خوبیوں کے باوجود وہ موٹر
کی اسٹیرنگ نہیں تھام سکتا۔اگر ایسا کرے گا تو خود ہی نہیں،بلکہ سارے
مسافروں کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔یہی اہمیت عالم کی ہے۔ امت کی رہ
نمائی،سربراہی اور قیادت وہی کرے گا۔کسی مسئلے کا حل وہی بتائے گا۔قرآن و
سنت کے احکام وہی سنائے گا، اللہ اور اس کے رسول کا مقصد و منشا وہی واضح
کرے گا۔نزاعی معاملات کا فیصلہ وہی کرے گا۔جو شخص محض عابد و زاہد ہے اس کے
بس کی بات نہیں ہے کہ وہ لوگوں کا مرجع بن جائے اور دین کے معاملے میں
لوگوں کی رہ نمائی کرنے لگے۔اگر بالفرض اپنے تقوی اور عبادت و ریاضت کے اثر
سے عوام کے اندر وہی منصب سنبھالتا ہے جو عالم کا ہے تو اس کااور اس کے
پیرووں کا وہی حال ہوگا جو بکر اور بس کے مسافروں کا ہوگا۔ آج جو لوگ صوم و
صلوٰة کے پابند ہو جاتے ہیں اور اذکار و نوافل کا اہتمام کرنے لگتے ہیں
عوام ان کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں اور انہیں رہ نما تصور کرنے لگتے ہیں۔
حالاں کہ ایک شخص جو قرآن کی محض تلاوت کرتا ہو اوردوسرا وہ جو قرآن کے
معنی و مفہوم سے نہ صرف واقف ہو، بلکہ اس کی باریکیوں تک اس کی رسائی ہو
،دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟قرآن کی آیات کا مطلب وہ بتائے گاجو اس کو
جانتا ہو، یا وہ جو محض تلاوت کرتا ہو اور اس کو نہ جانتا ہو؟جو پورے دین
پر عبور رکھتا ہو وہی ہمیں دین سکھا سکتا ہے ۔ یہ کام زاہد و عابد کا نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ستا روں کی چمک سے بھی لوگوں کو راستہ مل
جاتا ہے، لیکن بہر حال وہ ایک جھلملاتا ستارہ ہی ہے، عالم کی طرح آفتاب و
ماہ تاب نہیں ہے۔ چوتھی بات عالم اور انبیاءکے تعلق کی ہے۔انبیاءکو اللہ
تعالی علم کے خزانے عطا کرتا ہے، وہ اس خزانے کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔
اور علماءجو اس دولت کو حاصل کرتے ہیں وہ انبیاءکے وارث ہیں۔ دنیا میں
وراثت مال و دولت ،جائیداد کی چلتی ہے، لیکن انبیاءعلم کا ورثہ چھوڑتے ہیں
اور علماءاسی ورثے کے وارث ہوتے ہیں۔ مال و دولت کا ورثہ تو آخر کار ختم ہو
جاتا ہے اور وہ کتنا ہی زیادہ ہو،کم ہے ،لیکن علم کی وراثت ہمیشہ باقی رہنے
والی ہے۔ علماءکو انبیاءکا وارث اس لیے کہا گیا ہے کہ جو کام انبیاءکا ہوتا
تھا وہ اب علماءکے سپرد ہے۔ لوگوں کی رہ نمائی کرنا، اللہ کے قوانین کی
تشریح کرنا، لوگوں کو صحیح راستہ بتا نا انبیاءکا کام تھا اور اب یہی کام
علماءکا ہے۔
۷-عن ابی امامة الباھلیؓ قال: ذکر لرسول اللہ ﷺ رجلان، احدھما عابد و الآخر
عالم، فقال رسول اللہ ﷺ فضل العالم علی العابد کفضلی علی ا ¿دناکم، ثم قال
رسول اللہ ﷺ ان اللہ و ملائکة و اھل السمٰوات و الارض حتی النملة فی حجرھا
و حتی الحوت لیصلّون علی معلّم الناس الخیر(رواہ الترمذی)
حضرت ابوامامہ باہلی ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دو آدمیوں کا ذکر کیا
گیا ، ان میں سے ایک عابد ہے اور دوسرا عالم۔(ان میں سے کسے فضیلت حاصل
ہے؟)آپ نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہے جس طرح مجھے تم میں
کے ایک عام آدمی پر ہے۔ بے شک اللہ تعالی ، اس کے فرشتے، آسمان اور زمین
میں رہنے والے، یہاں تک کہ چونٹیاں اپنی بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں اس
شخص کے لیے دعا کرتے ہیں جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے ۔
اوپر والی حدیث میں ’ العلماءورثة الانبیائ‘ کہا گہا ہے ۔ اس حدیث میں اس
کی مزید تشریح ہے۔حدیث میں دو آدمیوں کا ذکر، ہو سکتا ہے بطور مثال ہو، اس
کا بھی امکان ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کبھی پیش آیا ہو ،لیکن یہ ایک
سوال ہے جو عام طور پر ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ ایک شخص عابد ہے، دین کی
بنیادی باتوں سے واقف ہے، لیکن اس کی اصل توجہ عبادت پر ہے۔اسی میں اس کے
شب و روز صرف ہوتے ہیں ۔دوسرا شخص فرائض و واجبات کا اہتمام تو کرتا ہے،
لیکن انسانوں کے درمیان نیکی اور بھلائی کو عام کرنے میں مصروف ہے، ان میں
سے کس شخص کو فضیلت حاصل ہے؟ اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا:
’فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم‘
تم میں سے ایک عام آدمی کی بہ نسبت مجھے جو فضیلت اور برتری حاصل ہے ،وہی
برتری عالم کو عابد پر حاصل ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے یہ مقدس الفاظ علم اور تعلیم کو آسمان کی رفعت عطا کرتے
ہیں۔ آپ نے فرمایاجو شخص انسانوں کے درمیان خیر کو عام کر رہا ہے اسے تو
اللہ تعالی کا لطف و عنایت حاصل ہے اور زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کے
لیے دعا کرتی ہے۔
|