’’ہم سندھ دھرتی کے وارث ہیں۔ ہم
ہزاروں سال پرانی تہذیب کے وارث ہیں، ہمیں اپنی ثقافت پہ ناز ہے……‘‘
یہ جملے کئی روز سے ہر خاص و عام کے کانوں میں مسلسل گونج رہے ہیں۔ ان کا
کچھ عملی اظہار گزشتہ دنوں موئن جودڑو کے کھنڈرات پر دنیا نے اس شکل میں
دیکھا کہ دن ڈھلتے ہی رنگا رنگ روشنیوں نے ہر طرف ایک عجب سماں باندھ دیا۔
ان روشنیوں کا تماشا دیکھنے کے لئے یہاں اندرون ملک اور باہر سے گنے چنے
مخصوص پانچ سو لوگوں کو آنے کی اجازت تھی جنہیں خصوصی جہازوں کے ذریعے
کراچی سے یہاں لایا گیا۔ سازندے اپنے کام میں مگن ہوئے تو سٹیج پر زرق برق
لباس پہنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نمودار ہونا شروع ہوئیں۔ پھر کبھی ان کا
ناچ گانا تو کبھی فیشن شو کے نام پر خوبرو لڑکیوں کے ادھ ننگے جسموں کی
نمائش…… ملک کے معروف گویے باری باری آتے رہے اپنے اپنے حصے کا کام دکھاتے
رہے یہاں تک کہ نصف شب بیت گئی۔
یہ موئن جودڑو کا ایک منظر تھا جسے دنیا بھر میں لوگ دیکھ رہے تھے جبکہ اس
سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک دوسرا رخ تھا جو ساری دنیا سے ہمیشہ کی طرح
اوجھل تھا۔ وہ منظر ان عام سندھیوں کا تھا جن کے نام پر اربوں خرچ کر کے
اور ان کے نام کی زبردست مہم چلا کر یہ سارا تماشا لگایا گیا تھا۔ علاقے کے
کچھ مقامی لوگوں نے جب یہاں آنے کی کوشش کی تو انہیں بہت دور ہی پولیس نے
روک لیا اور جب چند افراد نے اصرار کیا تو انہیں پولیس نے آڑے ہاتھوں لیا
اور ان کا ڈنڈوں، لاتوں، گھونسوں اور گالیوں سے سواگت کر کے ان کی خوب خبر
لی جس کے بعد انہیں یہاں سے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ دکھائی نہ دیا۔
’’سندھ فیسٹیول‘‘ کے نام پر یہ سلسلہ یہاں سے شروع ہوا تو آگے بڑھ کر کراچی
جا پہنچا جہاں ہر تماشے پر الگ سے ہزاروں کے ٹکٹ بھی لگا دیئے گئے۔ یہ سب
کچھ دیکھ کر کروڑوں سندھیوں کے ساتھ ساتھ ایک عالم ورطۂ حیرت میں ڈوبا ہوا
ہے کہ وہ سندھ جو دنیا کو موئن جودڑو کے کھنڈرات پر دکھایا گیا تھا، اس کا
عملی وجود آخر کہاں ہے؟ یہاں پروگرام چلانے والے مرد و خواتین ایسی انگریزی
بولتے کہ انگریز بھی پریشان ہو جائیں۔ کیا سارے سندھی ہی انگریزی بولتے ہیں۔
اس سارے تماشے میں کچھ دیکھا، کچھ سنا اور پڑھا تو معاً خیال سرزمین سندھ
کے ان مناظر کی جانب گھوم گیا جو ہم سندھ میں اکثر وپیشتر اپنی آنکھوں سے
دیکھتے ہیں۔
2010ء اور پھر 2011ء میں آنے والے تباہ کن سیلابوں کے بعد ہمیں انہی
سندھیوں کے پاس بار بار جانے کا موقع ملتا رہا…… ہم ایک ایسے ہی سفر میں
شکارپور پہنچے تھے۔ شہر کے ایک سکول میں امدادی کیمپ قائم تھا…… جہاں مٹی
اور کیچڑ میں لتھڑے، پھٹے پرانے کپڑے پہنے بھوکے اور پیاسے سندھیوں سے
سامنا ہوا تو ہمیں دیکھتے ہی انتہائی مسکینی اور لجاجت بھرے لہجے میں کہنے
لگے کہ سائیں! ہمارے بچوں کو پیسے نہ دینا۔ ہم نے پوچھا، وہ کیوں؟ تو وہ
کہنے لگے کہ ہمارے بچوں نے یہاں آنے سے پہلے نہ تو زندگی میں کبھی پیسے
دیکھے تھے اور نہ بازار…… اب یہاں آئے ہیں تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ بن
گیا ہے کہ جب ہم واپس جائیں گے تو ہمارے بچے بازار جانے پر اصرار کریں اور
ہم سے پیسے مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے؟ وہ سبھی لوگ بتا رہے تھے کہ ہمارے
پاس تو ایسا قیمتی کچھ تھا ہی نہیں کہ جو سیلاب میں تباہ ہوتا…… بس گھاس
پھونس کی جھونپڑیاں تھیں اور چند کپڑے اور برتن۔ سامان کچھ ساتھ لے کر آئے
اور پیچھے رہ جانے والا برباد ہو گیا، یہاں سے جب واپس جائیں گے تو دوبارہ
اپنی جھونپڑیوں کو تعمیر کر لیں گے کھیتوں میں محنت مزدوری اور جانور پال
کر گزر بسر کریں گے۔
یہی نہیں اندرون سندھ کے جس بھی علاقے میں ہمیں جب کبھی جانے کا موقع ملا،
یہاں کے لوگ آنے والے مہمانوں کو دیکھ کر غلاموں کی شکل میں ہاتھ جوڑ اور
سر جھکا کر پاؤں میں بیٹھ جاتے ہی دیکھے…… ان کی زبانوں سے ایک ہی لفظ سننے
کو ملتا ہے، سائیں…… سائیں اور بس سائیں…… اس کے بعد ان کا پھر مسکینی اور
محتاجی کا اظہار۔ ہمارے جیسے کتنے لوگ جب انہیں اس سب سے منع کرتے اور اپنے
ساتھ کرسی، گاڑی یا چارپائی پر بٹھاتے تو وہ یوں ساکت و جامد ہوجاتے جیسے
ان کے لئے یہ خوابوں کی دنیا ہو۔
2010ء کے سیلاب کے بعد ہم ٹھٹھہ کے علاقے میں تھے۔ لاکھوں سیلاب زدہ سندھی
یہاں پناہ گزین تھے، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف نے
ایک جگہ کھڑے ہو کر کہا کہ آپ میں سے جس جس کو کلمہ طیبہ آتا ہے، وہ ہاتھ
کھڑا کر کے سنائے تو ہم اسے سب سے پہلے امدادی سامان دیں گے۔ یقین مانئے کہ
تین سو سے زائد کا ہجوم تھا اور اٹھنے والے ہاتھ صرف تین تھے…… اور ان سے
بھی جب کلمہ سنا گیا تو انہیں درست نہ آتا تھا۔ ان لوگوں سے جب اتنا کہا
گیا کہ وہ ہم اور حکومت سے امدادی سامان حاصل کرنے کیلئے اپنے شناختی کارڈ
ہمراہ لائیں تو اکثر لوگ پوچھتے کہ یہ شناختی کارڈ کیا ہوتا ہے……؟ صرف
شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگ سرے سے کوئی سرکاری یا دیگر
اداروں سے امداد حاصل ہی نہ کر سکے۔ اندرون سندھ کا آج بھی دورہ کیجئے، آپ
کو لگ بھگ ایک کروڑ سندھی بغیر شناختی کارڈ کے ملیں گے۔جنہیں آج کی دنیا کے
بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔
ان لوگوں کی کل کائنات وہ جانور اور زمین ہے جو ان کے پاس ہے لیکن یہ اس کے
مالک نہیں بلکہ مزارعے اور ہاری ہیں۔ ان کا کام صرف جانوروں کو پالنا اور
کھیت کھلیان آباد کر کے اس سے صرف اپنے پیٹ پالنے کا حصہ وصول کرنا ہوتا
ہے۔ اس کے علاوہ وہ ساری آمدن اس سائیں کی ملکیت ہے جس کا ٹھکانا اور
آستانہ کراچی میں ہے اور وہ برسوں بعد کبھی سیر سپاٹے کے بہانے اپنی اولاد
کو یہ انوکھی مخلوق اور اپنی مملکت و رعایا دکھانے آتا ہے…… یہ پیپلزپارٹی
کو ووٹ کیسے دیتے ہیں؟ تحقیق و تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ اصل حکم تو سائیں
کا ہے، جو وہ کہے گا بلکہ سوچے گا، اس سے آگے پیچھے کچھ ہو ہی نہیں سکتا،
اور اس سائیں کی جس کے ساتھ بھی وابستگی ہے، ووٹ بھی اسی کا ہے۔
یقین نہ آئے تو آج ہی سندھ کا سفر کیجئے۔ رحیم یار خان سے جیسے ہی آپ کی
گاڑی صوبہ سندھ کی حدود میں داخل ہو گی، زبردست جھٹکوں اور جسم توڑ دینے
والے سفر کا آغاز ہو تو سمجھ لیجئے کہ سندھ شروع ہو گیا۔ اب ہر طرف ماحول
بھی پہلے سے یکسر مختلف ہے تو اندازو اطوار بھی…… ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،
کچی بستیاں، مٹی میں لتھڑے بچے، لوگ اور جھونپڑی نما ہوٹل ہر طرف استقبال
کریں گے۔ البتہ جگہ جگہ آپ کو مختلف مقامی و قومی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے
اور ان کے رہنماؤں کی قد آدم تصاویر آپ کو سارے ملک سے ہٹ کر الگ ہی منظر
پیش کریں گی۔ سارے اندرون سندھ کا لگ بھگ یہی حال ہے۔
اس سے یاد آیا کہ ملک میں کرپشن و بدعنوانی کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ ہر
جگہ ہی حال نرالا ہے لیکن سندھ کا حال دیکھئے کہ صوبہ سندھ کی آبادی پنجاب
کی نسبت ایک تہائی ہے یعنی پنجاب لگ بھگ 12کروڑ تو سندھ لگ بھگ 4کروڑ، لیکن
دونوں صوبوں کے بجٹ میں فرق بہت معمولی ہے۔2013-14 کے لئے پنجاب کا بجٹ 897
ارب روپے ہے تو سندھ کا 617 ارب روپے۔پھراتناسارا پیسہ آخر جاتا کہاں ہے……؟
سندھیوں کے نام پر سندھ فیسٹیول کی چکا چوند روشنیوں، رنگا رنگا پروگراموں
اور ان کے نام پر عیاشی و فحاشی نے سارا جواب دے دیا، جس کی بنیاد
پیپلزپارٹی کے بانی نے اقتدار کے حوالے سے یہ کہہ کر رکھی تھی کہ’’ کرنا
کیا ہے؟ عوام کو بے وقوف بنانا ہے اور حکومت حاصل کرنی ہے‘‘۔نانا کے بعد
نواسے نے اپنے بچپنے کا ثبوت سندھ فیسٹیول میں دیا۔ بچوں کے پسندیدہ کارٹون
’’سپر مین‘‘ کا لوگو اب سندھ اور سندھیوں کا لوگو ہے یعنی اس بار سندھی
عوام بچوں کے حوالے بھی ہو گئے ہیں۔ |