پاکستان کرکٹ بورڈ چڑیا کے ھاتھ میں

اس ’’سانپ اور سیڑھی‘‘کے کھیل سے نجات کب ملے گی ************** ایسوسی ایشنز کے الیکشن کی جلد از جلد تکمیل کے بعداب یہ مرحلہ بھی متفقہ طور پر حل ہو جانا چاہئے ورنہ کوئی بعید نہیں کہ آئندہ ہفتے کوئی اور اٹھ کر نیا مقدمہ ٹھونک دے اور نجم سیٹھی کو اچانک کئی خانے نیچے واپس آنا پڑے **************** آئی سی سی اجلاس میں پاکستانی کرکٹ حکام نے کون سا گل کھلایا ،وہ خالی ہاتھ رہ گئے یا انہوں نے موقف پر قائم رہ کر ملک کا نام روشن کر دیا، وہ تو ایک الگ بحث ہے مگر کیا اس بات سے ایک بار بھی انکار کیا جا سکتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور عالمی کرکٹ میں موجود دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز نے پی سی بی کے نمائندوں کو سنجیدگی سے لینے کی کوشش بھی چھوڑ دی ہے۔حالیہ معاملات کے بارے میں بات چیت ہو یا مستقبل کی پلاننگ پی سی بی کی بات سنی ہی نہیں جاتی اور اگر سنی بھی جائے تو اس پر عمل کا موقع ہی نہیں آتاکیونکہ ایک اجلاس سے لے کر اگلے اجلاس تک عہدہ وہی رہتا ہے مگرچہرے بدل جاتے ہیں، آئی سی سی میں پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پکا ہو چکا ہے کہ کرکٹ کے بارے میں کسی بھی موضوع پر پاکستانی کرکٹ حکام سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں کہ آئندہ ملاقات تک وہ شخص اپنے عہدے پر قائم رہے گا جس سے بات کی جا رہی ہے ۔پاکستان کرکٹ میں سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل برسوں سے کھیلا جا رہا ہے،پی سی بی کے چیئرمین حضرات کی تقرری اور تنزلی ایک معمول کی بات بن کر رہ گئی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ’’لوڈو‘‘کی پشت پر موجود خانوں کے درمیان پانسہ پھینکنے والوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے جو کبھی اوپر اور کبھی اچانک ایک ہی جست میں نیچے آن پڑتے ہیں۔ اس ’’کھیل‘‘کے منفی اثرات کرکٹ پر بھی پڑ رہے ہیں لیکن افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی اقدام نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر وہی کسی ایک فریق کی پشت پر کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہے۔ ہمیں ہی کیا کسی کو بھی اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کسے ہونا چاہئے کیونکہ عام افراد کو صرف اس بات کا اطمینان درکار ہوتا ہے کہ کھیل کے معاملات بہتر انداز سے چلتے رہیں اور ٹیم کامیابی کا سفر طے کرتی رہے۔قومی کرکٹ ٹیم وہ آئینہ ہے جس میں ہر چیئرمین کو اپنا چہرہ واضح طور پر دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے اور وہی ان کی کامیابی کا عکس بھی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس آئینے کو بھی سیاسی دیوار پرٹانگ دیا گیا ہے جہاں ہر کوئی اس میں اپنی پسندیدہ صورت ہی دیکھنا چاہتا ہے ۔موجودہ سربراہ نجم سیٹھی اگر حکومت وقت کی حمایت سے اس عہدے پر براجمان ہوئے ہیں تو ذکاء اشرف کی تقرری میں اس وقت کے صدر آصف زرداری کا ہاتھ تھا جنہوں نے اپنی پارٹی کے ایک فرد کو اس کی محنت کا انعام دے دیا مگر کیا کسی کو اس بات پرغور کرنے کا موقع بھی ملا ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین کی سابقہ اور موجودہ تقرری میںکیا فرق ہے۔نجم سیٹھی کا ایک چینل پر یہ کہنا کہ ذکاء اشرف نے جو آئین تیارکرایا وہ کرکٹ کی نہیں اپنی بہتری کیلئے تھا اور اسے اس انداز سے تشکیل دیا گیا کہ وہ خود کو الیکشن کے بجائے سلیکشن کے عمل سے گزار کر چار سال کیلئے عہدے پر براجمان ہو جائیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب نجم سیٹھی کو جس آئین کی تیاری کا ٹاسک دیا گیا ہے اس میں کون سی جمہوریت کا ’’گوٹا کناری‘‘ لگایا جائے گا کہ اسے پہلے سے کہیں زیادہ جمہوری قرار دیا جا ئے اور اس کے تحت ہر کا احتساب بھی ممکن ہو سکے۔چند ماہ پہلے تک یہی چیئرمین حضرات جس الیکٹورل کالج کے نامکمل ہونے کی باتیں کرتے ہوئے خود کو الیکشن کے انعقاد کیلئے بے بس ظاہر کر رہے تھے وہ اب اس سلسلے میں کوئی مثبت اقدام کیوں نہیں کرتے اور براہ راست الیکشن کا اعلان کر کے اس نشست کے جمہوری وارث کیوں نہیں بن جاتے لیکن شاید اس صورت میں ان کیلئے اس پوزیشن پر قدم جمانا ممکن ہی نہیں رہے گا لہٰذا وہی پران سلیکشن کا نظام جاری ہے اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے تحت تمام مسائل کا حل نکالا جا رہا ہے ۔ آئی سی سی کی جانب سے یہ ہدایات بارہا آچکی ہیں کہ پی سی بی کو حکومتی اثرات سے پاک رکھتے ہوئے اسے جمہوری انداز سے چلایا جائے لیکن پاکستان میں ناک کو ہاتھ سے گھما کر پکڑنے کا عمل ماضی کی طرح جاری ہے جہاں طاقت کا سرچشمہ بدل گیا مگر معاملات اسی طرح چل رہے ہیں۔ذکاء اشرف نے اپنا گورننگ بورڈ تشکیل دے کر خود کو سربراہ کے عہدے پر فائز کر لیا تھا کیونکہ ان کے اپنے تخلیق کردہ عہدیداروںنے انہیں اپنی حمایت فراہم کر د ی تھی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ چیئرمین کو بورڈ کی ’’اوپری منزل‘‘تک پہنچانے کیلئے بھی تو وہی سیڑھی استعمال کی گئی بس فرق یہ ہے کہ اس بار گیارہ رکنی کابینہ کی تشکیل حکومت نے کی اور اسے چیئرمین ’’سلیکٹ‘‘کرنے کا حکم دے دیا۔اس سے زیادہ دلچسپ بات اورکیا ہوگی کہ چند اضافی افراد کے سوا اس بار بھی مینجمنٹ کمیٹی میں وہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے ذکاء اشرف کو نہ صرف سلیکٹ کیا بلکہ دوبارہ خوش آمدید بھی کہا اور ان کیلئے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہے کہ کون سربراہ کی نشست پر براجمان ہوتا ہے۔وہی کورٹ ایک چیئرمین کو اس کے انتخاب کے طریقہ کار کے سبب سائیڈ لائن کر دیتی ہے اور دوسرے کو غیر آئینی اور غیرقانونی کہتے ہوئے اسے اختیار سے محروم کر دیتی ہے لیکن جب حکومت کی حمایت سے ایک بار پھر وہی شخصیت سامنے لائی جاتی ہے تو عدالت کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔یہ تمام معاملات ایسے ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بیرون ملک نہ صرف پاکستان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے بلکہ بہت سارے معاملات کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔پاکستان میںانٹرنیشنل کرکٹ سے محرومی کی پانچویں سالگرہ قریب آ رہی ہے مگر ان پانچ سال کے دوران پی سی بی کے کئی چیئرمین اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان کی جانب سے سوائے دعوے کرنے کے کوئی اور بات سامنے نہیں آ سکی کیونکہ ان کی کوششیں ابھی جاری ہوتی ہیں کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے قالین سرکا دیا جاتا ہے۔بورڈ میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح تبدیلیاں کر کے تماشہ لگایا جا رہا ہے اس پر سابق چیئرمین حضرات بھی اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مینجمنٹ کمیٹی میں شامل سابق چیئرمین شہریار ایم خان نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک بری مثال قرار دیا ہے لیکن کسی کو اس بات کی فکر ہی نہیں ہے کہ عالمی کرکٹ میں اکیلا کھڑا پاکستان کیا اب اس طرح کے اندرونی مسائل اور مشکلات کا متحمل ہو سکتا ہے جسے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور فیصلوں کے لحاظ سے طاقتور سربراہ کی ضرورت ہے۔ اگر چیئرمین کے اختیارات کو صرف یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ سلیکشن کمیٹی کی تشکیل ،ہیڈ کوچ کی تقرری اور دیگر اسٹاف کو اوپر نیچے کرنے تک محدود ہے تو معذرت کے ساتھ اس کیلئے کوئی نامور فرد لازمی نہیں کیونکہ یہ کام کوئی معمولی شخص بھی کر سکتا ہیء جس نے صرف اسکول اور کالج کی سطح کی کرکٹ کھیل رکھی ہو لیکن جب بات انٹرنیشنل معاملات کی آئے تو ایک بھرپور معلومات کا مالک ایک ایسا تعلیم یافتہ شخص ہونا چاہئے جسے انتظامی امور کے ساتھ ہی انٹرنیشنل کرکٹ کی اونچ نیچ سے بھی آگاہی ہواور جب سلیکشن کا یہ نظام چل ہی رہا ہے تو اس میں ایسے فردکو لانا ناممکن نہیں ہے۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پی سی بی کی سربراہی کس کے ہاتھ میں ہو ، اگر نجم سیٹھی درست کام کرتے ہیں تو ان کی موجودگی پر کسی کو اعراض نہیں ہو سکتا اور یہی فرائض کسی اور کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو اسے بھی اتنا ہی موثر ہونا چاہئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پی سی بی کے معاملات مسلسل کئی ماہ سے عدالتوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں اور اس سسٹم کو درست کرکے جمہوری راہ پر ڈالنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔تمام ایسوسی ایشنز کے الیکشن کی جلد از جلد تکمیل کے بعداب یہ مرحلہ بھی متفقہ طور پر حل ہو جانا چاہئے ورنہ کوئی بعید نہیں کہ آئندہ ہفتے کوئی اور اٹھ کر نیا مقدمہ ٹھونک دے اور نجم سیٹھی کو اچانک کئی خانے نیچے واپس آنا پڑے کیونکہ اس بساط پر اپنے اپنے مہرے سجا کر چالیں چلنے والے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل اب ختم ہو جائے تو بہتر ہے جس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو سوشل ویب سائٹس پر کامیڈی کرکٹ بورڈ کا عنوان دے دیا ہے اور یہ تاثر درست کرنے کی ذمہ داری پی سی بی چیئرمین کی ہی نہیں بلکہ حکومت وقت کی بھی ہے جس کے ہاتھ میں تمام تر اختیار ہے ۔یہایک دوسرے پر الزام لگا کر اس کے کارنامے سامنے لانے کے بجائے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کا وقت ہے اور شاید پی سی بی میں عہدے کی جنگ میں مصروف افراد یہ حقیقت جان لیں۔

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274502 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More