دنیا کرکٹ میں سیاست کا چلن تیز
تر ہوگیا ہے، تین بڑے، بگ تھری کے روپ میں کرکٹ کے بادشاہ گر ٹہرے ہیں۔ اب
نجم سیھٹی کے آنے کے بعد پی بی سی پھر نئے پر تول رہی ہے۔ ذکا اشرف کی بطور
چیئرمین برطرفی کے بعد پی سی بی نے بگ تھری معاملے پر یوٹرن لے لیا ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ آئی سی سی کے اگلے اجلاس میں اس منصوبے کی حمایت کردی
جائیگی۔ شائد نجم سیھٹی کو پنتیس پنکچر کے صلے میں ملنے والی پی بی سی کی
چیئرمنی کا یہی سب سے بڑا ٹاسک ہو۔ کر کٹ پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس کا
اندازہ دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کی سطح کو جانچنے والے بین الاقوامی
ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ سے ہوجاتا ہے، جس میں اس نے کہا
ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں تین ممالک کی اجارہ داری کرکٹ میں کرپشن کے
فروغ کا باعث بنیگی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سنگاپور میں آئی سی سی کے ’بگ
تھری‘ کو عالمی کرکٹ کا عملی طور پر منتظم بنانے سے متعلق ہونے والی
اصلاحات پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کو اچھی انتظامیہ کی
ضرورت ہے نہ کہ طاقت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے
کرکٹ کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئی سی سی میں اصلاحات سے متعلق وولف
کمیشن پر اپنا باضابطہ ردعمل ظاہر کرے۔ آئی سی سی نے 2011 میں انگلینڈ اور
ویلز کے سابق چیف جسٹس لارڈ وولف سے آئی سی سی میں اصلاحات سے متعلق ایک
رپورٹ بنوائی تھی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کی مجوزہ
اصلاحات ان اصولوں سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتیں جو وولف کمیشن میں تجویز
کیے گئے تھے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ سنگاپور میں منظور ہونے
والی تجاویز اچھی حکمرانی اور جمہوریت کے اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے
اور اصلاحات کی مجوزہ دستاویز میں کرکٹ کے کھیل سے بدعنوانی کے خطرے سے
نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیاگیا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ نئے
منصوبے کے تحت کرکٹ کھیلنے والے کئی ممالک کو حق رائے دہی سے بھی محروم کر
دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ کونسل انتظامی سطح
پر کرکٹ میں بدعنوانی کے خطرات سے کیسے نمٹے گی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے
کہا کہ آئی سی سی کی تمام طاقت کا تین بورڈوں میں ارتکاز کا بظاہر مقصد
اختیارات کا ناجائز استعمال اور ذاتی فائدے معلوم ہوتی ہے۔ٹرانسپیرنسی
انٹرنیشنل نے کہا کہ ان اصلاحات سے طاقت ان چند ہاتھوں میں چلی جائے گی جو
کسی کو جوابدہ نہیں ہوں گے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ کرکٹ میں میچ
فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ جیسی کرپشن ابھر رہی ہے لیکن ان اصلاحات میں کرپشن سے
نمٹنے کے کوئی اقدامات تجویز نہیں کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب نو منتخب
چیئرمین نجم سیٹھی آتے ہی اپنے اہداف کو پانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان
کا کہنا ہے کہ ہمارا پہلا ہدف جمہوری اورآئینی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے
تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایسا نیا آئین بنانا ہے جس میں پروفیشنل
ازم اور کرکٹ کی بہتری ہو،دوسرا اہم کام آئی سی سی میں پاکستان کو تنہائی
سے نکالنا ہے، بدقسمتی سے عالمی فورم پر بعض لوگوں نے پاکستان کا کیس مس
ہینڈل کیا۔ذرائع کے مطابق عوامی دباؤ کی وجہ سے جو کام سابق چیئرمین نہ
کرسکے اب نئی انتظامی کمیٹی کرے گی، حکومت کی جانب سے گرین سگنل ملتے ہی بگ
تھری سے بغلگیر ہونے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، توقع کی جارہی ہے کہ نجم سیٹھی
اگلے آئی سی سی اجلاس میں اس کا اعلان کردیں گے،انتظامی کمیٹی بھارت کے
ساتھ سیریز اور دیگر ایشوز پر بات چیت بھی کریگی، سنگاپور کی میٹنگ میں
پاکستان کا ساتھ دینے والے واحد ملک سری لنکا کی جانب سے ہتھیار ڈالے جانے
کے بعد پی سی بی کو عوامی طور پر غیر مقبول فیصلہ کرنے کا معقول جواز بھی
ہاتھ آ گیا ہے ۔ ادھر سری لنکا نے بھی مفادات کی خاطر بگ تھری کے معاملے پر
پٹری بدلنے کی تیاری کرلی، بورڈ سیکریٹری نشانتھا رانا ٹنگا کا کہنا ہے کہ
نئی تجاویز سے ہمارے تحفظات دور ہوگئے۔
آئی سی سی میں بگ تھری کیخلاف پاکستان، سری لنکا اور جنوبی افریقہ میں
اتحاد بنا تھا۔ لیکن یہ بیل منڈھینہ چڑھ سکی۔کیونکہ عین وقت پر جنوبی
افریقی بورڈ پلٹی کھا گیا جبکہ اب سری لنکا نے بھی اس معاملے پر بگ تھری کا
ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، ایس ایل سی کے سیکریٹری نشانتھا رانا ٹنگا اب
کہتے ہیں کہ آئی سی سی کی نئی تجاویز ہماری پوزیشن کے لیے خطرہ نہیں ہیں،ان
پر اعتراض کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بطور ٹیسٹ ملک
سری لنکا کو جو کچھ مل رہا ہے اس میں کمی ہو، اب جن نئی تجاویز کی منظوری
دی گئی اس میں کئی چیزیں زیادہ واضح ہوگئی ہیں، پہلے پیپر میں یہ تھا کہ
کرکٹ کونسل پر صرف تین بڑے ممالک کی حکمرانی ہوگی، مگر اب کہا جا رہا ہے کہ
پہلی مرتبہ اہم عہدوں پر بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے آفیشلز موجود ہوں
گے اس کی وجہ نئی نشریاتی ڈیل ہے، اس کے بعد بورڈ میں شامل دیگر ممبران
اپنی مرضی کا چیئرمین منتخب کرپائیں گے۔دوسری جانب بھارتی بورڈ کے صدر این
سری نواسن نے بھی سری لنکا کو اپنے موقف پر نظر ثانی کا مشورہ دیا ہے،
انھوں نے کہاکہ سری لنکا کرکٹ ایک خود مختار باڈی اور اپنے فیصلے خود کرنا
جانتی ہے، اسے سمجھنا چاہیے کہ کھیل کے مفاد میں کیا ہے۔ادھر جنوبی افریقی
بورڈ کے صدر کرس نینزانی نے کہاکہ بگ تھری کی حمایت کسی ڈیل کے نتیجے میں
نہیں کی، انھوں نے کہا کہ ہم نے آخری وقت پر فیصلہ تبدیل نہیں کیا بلکہ یکم
فروری کو ہی مجھے اپنے بورڈ نے اس فیصلے کا اختیار دے دیا تھا، ہم نے میٹنگ
سے پہلے پاکستان اور سری لنکا کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کردیا تھابین
الاقوامی کرکٹ کونسل کی اصلاح کے لیے 'تین بڑوں' آسٹریلیا، انگلستان اور
بھارت کی جانب سے پیش کردہ سفارشات اب قانون کا درجہ پانے والی ہیں اور تین
چوتھائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد صرف پاکستان اور سری لنکا ہی وہ ملک
ہیں جنہوں نے اب تک اس کی مخالفت میں نہ سہی لیکن حق میں بھی ووٹ نہیں دیا۔
دونوں ممالک نے آئی سی سی کے گزشتہ اجلاس میں ترمیم شدہ سفارشات پر غور کے
لیے مزید وقت طلب کیا تھا اور پاکستان تو ایک مرتبہ پھر انتظامی بحران کا
شکار ہوچکا ہے اور کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہا۔کرکٹ کی عالمی تنظیم
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ادارے کے مالی اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں
کرتے ہوئے بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کھیل اور ادارے پر پہلے سے زیادہ
کنٹرول کی منظوری دے دی ہے۔بی سی سی آئی کے صدر سری نواسن نے انگلینڈ اور
آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کے ساتھ مل کر ایک ایسا مسودہ آئی سی سی میں پیش کیا
تھا جس کے تحت ان تینوں ممالک کو آئی سی سی کے انتظامی اور مالی معاملات
میں غلبہ حاصل ہو جائے گا۔آئی سی سی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سنیچر کو
ہونے والے اجلاس میں آئی سی سی کے دس میں سے آٹھ ارکان نے ان تجاویز کی
حمایت کی۔آئی سی سی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ
’قرارداد کو سنگاپور میں ہونے والے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ اس قرارداد کو
دس ممبران میں سے آٹھ کے ووٹ ملے جبکہ پاکستان اور سری لنکا نے ووٹنگ میں
حصہ نہیں لیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس ترمیم شدہ قرار داد کی
جانچ پڑتال کے لیے مزید وقت درکار ہے۔‘آئی سی سی کی جانب سے منظور کردہ
مسودے کے مطابق آئی سی سی کے ایگزیکٹیو اختیارات اور مالی کنٹرول ای سی بی،
کرکٹ آسٹریلیا اور بی سی سی آئی کے ہاتھ میں رہے گا، جو بالترتیب انگلستان،
آسٹریلیا اور بھارت کے کرکٹ بورڈ ہیں۔اس کے علاوہ یہ تینوں کرکٹ بورڈز آئی
سی سی کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے مستقل رکن ہوں گے جبکہ چوتھا رکن دیگر سات
ممالک میں سے کوئی ایک نامزد ہوگا۔عالمی کرکٹ کی آمدنی کا بڑا حصہ انھی تین
کرکٹ بورڈز کو ملے گا جبکہ ٹیسٹ میچوں میں ترقی اور تنزلی کے طریق کار میں
بھی یہ تینوں کرکٹ بورڈز تنزلی سے مبّرا ہوں گے۔ "بی سی سی آئی کے سری
نواسن جولائی سنہ 2014 سے آئی سی سی کے بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالیں
گے۔ آئی سی سی کا بورڈ فیصلہ سازی کے مرکز کے طور پر کام کرنا جاری رکھے
گا۔ ایک نئی ایگزیکٹیو کمیٹی بنائے جائے گی جو بورڈ کو رپورٹ کرے گی۔
ابتدائی طور اس کمیٹی کے چیئرمین کرکٹ آسٹریلیا کے وولی ایڈورڈ ہوں گے جبکہ
ای سی بی کے گائلز کلارک فنانس اور کمرشل افیئر کے کمیٹی کے چیئرمین ہوں
گے۔ یہ دونوں افراد جولائی سنہ 2016 تک ان عہدوں پر کام کریں گے۔"بگ تھری
پلان‘ یعنی کرکٹ کے تین بڑے ممالک انگلینڈ، آسٹریلیا اور بھارت کی
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر اجارہ داری کے مسودے کی پاکستان، سری لنکا اور
جنوبی افریقہ کھل کر مخالفت کر رہے تھے۔لیکن جب ووٹنگ ہوئی تو جنوبی افریقہ
نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔بگ تھری‘ کے منصوبے کی کامیابی کے لیے انہیں
پاکستان، جنوبی افریقہ اور سری لنکا میں سے کسی ایک ممبر کا ووٹ درکار تھا۔
ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، زمبابوے، اور بنگلہ دیش بگ تھری کے منصوبے کے پہلے
ہی حامی ہیں۔آئی سی سی کی جانب سے منظور کردہ قرارداد کے تحت ٹیسٹ کھیلنے
والی ٹیموں کے لیے سنہ 2023 اپنے ملک میں ٹیسٹ پروگرام کو یقینی بنانے کے
لیے ایک ٹیسٹ فنڈ متعارف کیا جائے گا۔یہ فنڈ کرکٹ آسٹریلیا، بی سی سی آئی
اور ای سی بی کے علاوہ تمام ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے لیے ہوگا۔اس کی بھی
تصدیق کی گئی ہے کہ فل ممبران آپس میں دو طرفہ معاہدے کریں تاکہ مستقبل کے
دوروں کے نظام الاوقات کی تصدیق ہو سکے جس کی سنہ 2023 توسیع کی جائے
گی۔عالمی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کی جگہ 2017 اور 2021 میں آئی سی سی چیمپیئن
ٹرافی متعارف کی جائے گی۔ یہ ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جس کے لیے ٹاپ ایسوسی
ایٹ ممبران کے بشمول کوئی بھی آئی سی سی کا ممبر ایک روزہ کرکٹ میں اپنی
کارکردگی بہتر کرکے کوالیفائی کر سکتے ہیں۔فل ممبران کو کھیل کے فروغ کے
لیے کام کرنے، خاص کر مالی معاونت، آئی سی سی کی تاریخ اور میدان میں
کارکردگی کی بنیاد پر زیادہ مالیاتی فوائد ہوں گے۔ "عالمی ٹیسٹ چیمپیئن شپ
کی جگہ 2017 اور 2021 میں آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی متعارف کی جائے گی۔ یہ
ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جس کے لیے ٹاپ ایسوسی ایٹ ممبران کے بشمول کوئی بھی
آئی سی سی کا ممبر ایک روزہ کرکٹ میں اپنی کارکردگی بہتر کرکے کولیفائی کر
سکتے ہیں۔" نئے ماڈل کی ساخت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ فل ممبران مالی
طور اپنے موجودہ حالت سے بہتر ہوں۔ایک نئی ایگزیکٹیو کمیٹی بنائے جائے گی
جو بورڈ کو رپورٹ کرے گی۔ ابتدائی طور اس کمیٹی کے چیئرمین کرکٹ آسٹریلیا
کے وولی ایڈورڈ ہوں گے جبکہ ای سی بی کے گائلز کلارک فنانس اور کمرشل افیئر
کے کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے۔ یہ دونوں افراد جولائی سنہ 2016 تک ان عہدوں
پر کام کریں گے۔جب یہ عبوری مدت پوری ہو جائے گی تو آئی سی سی بورڈ کے
چیئرمین کو آئی سی سی بورڈ کے ممبران میں سے چنا جائے گا جس میں فل ممبر
ڈائریکٹر انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔مندرجہ بالا میں سے کئی فیصلوں کو
عملی جامہ پہنانے کے لیے اب بھی آئی سی سی کے فل کونسل کی توثیق درکار
ہے۔آئی سی سی کے صدر ایلن آئزک کا کہنا ہے کہ بورڈ نے بعض اہم فیصلے کیے
ہیں جس سے ہمیں مستقبل میں گورننس اور مالی معاملات کو مستحکم کرنے میں مدد
ملی ہے۔معروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق سری لنکا کرکٹ کے سیکرٹری
نشانتھا راناتنگا نے کہا ہے کہ ترمیم شدہ سفارشات بین الاقوامی کرکٹ میں
سری لنکا کے لیے اب سنگین خطرہ نہیں لگتیں۔ ہمارا اعتراض یہی تھا کہ ہم
ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کی حیثیت سے جو کچھ حاصل کرچکے ہیں وہ نہ گنوا
بیٹھیں۔ لیکن اب ترمیم شدہ دستاویزات پر غور کرنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ
بیشتر معاملات واضح ہوچکے ہیں۔اجلاس سے ایک ہفتہ قبل سری لنکا کرکٹ کے
اراکین، سابق کھلاڑیوں، منتظمین اور کپتانوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں
بالاتفاق رائے سفارشات کی مخالفت کی گئی تھی اور بورڈ کے صدر جیانتھا
دھرماسینا نے آئی سی سی کے وکلاء کو ایک خط بھی لکھ بھیجا تھا جس میں
سفارشات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے گئے تھے ۔ جنوبی افریقہ نے ان
سفارشات کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی تھی اور کہا تھا کہ یہ تجاویز بین
الاقوامی کرکٹ کی روح کو نقصان پہنچائیں گی۔ جنوبی افریقہ آئی سی سی کے
گزشتہ اجلاس میں بھی پاکستان اور سری لنکا کے شانہ بشانہ کھڑا تھا لیکن چند
روز قبل بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان رابطوں اور آئی سی سی کے نئے
انتظامی ڈھانچے میں کرکٹ ساؤتھ افریقہ کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ کو اہم
عہدہ دینے کا ’’دانہ‘‘ ڈالا، جسے پروٹیز بورڈ نے آنکھیں بند کرکے
’’چْگ‘‘لیا۔ یوں جنوبی افریقہ کی حمایت کے بعد ’’بگ تھری‘‘ کی تجاویز کی
منظوری کے لیے مطلوبہ ووٹ بھی مکمل ہوگئے اور پاکستان اور سر ی لنکا کے
کرکٹ بورڈز منہ تکتے ہی رہ گئیاور ’’انکار‘‘ کا ووٹ تک نہ ڈال سکے۔آئی سی
سی اجلاس میں جنوبی افریقہ کا مضبوط برج بھی ’’تین بڑوں‘‘ کے سامنے گر گیا
لیکن اس صورتحال میں پاکستان اور سری لنکا کے بورڈز اپنے موقف پر ڈٹے رہے
اور اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ’’بگ تھری‘‘ کی
مخالفت کو ذکا اشرف کا جذباتی پن قرار دے رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ
ذکا پی سی بی کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضد پر اڑے رہے اور
پاکستان کرکٹ کے لیے گڑھا کھود ڈالا۔لیکن پاکستان کے لیے اب کچھ سوچنے
سمجھنے کا وقت گزر چکا ہے اوربھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی
مخالفت کرنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اپنی کشتیاں جلاچکا ہے، اس کے پاس
واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہاجسے ہر حال میں اپنے موقف پر قائم رہناہے
کیونکہ اپنا موقف تبدیل کرنے اور ’’بگ تھری‘‘ کی حمایت کرنے کے باوجود
پاکستان کو کچھ حاصل نہ ہوتا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی صورت میں
پاکستان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔ذکا اشرف کو اب تنقید کا نشانہ بنایا
جارہا ہے اس لیے بالفرض اگر پی سی بی بھی’’بگ تھری‘‘ کے مطالبات مان لیتا
تو سوشل میڈیا پر ذکا اشرف کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ’’موسمی تجزیہ
کار‘‘ پی سی بی کے سربراہ پر پھر بھی تعریف کو ڈونگرے نہ برساتے بلکہ ایسا
کرنے کی صورت میں بھی ذکا اشرف کو کڑی تنقید کا نشانہ ہی بنایا جاتا اور
کہا جاتا کہ انہوں نے ’’بگ تھری‘‘ سے خوفزدہ ہوکر اپنا ووٹ دیا ہے یا بھارت
کے ساتھ پی سی بی کی کوئی خفیہ ڈیل ہوچکی ہے۔احسان مانی کا کہنا ہے کہ بگ
تھری کا اقدام آئی سی سی کے آئین کی خلاف ورزی ہے اور اسے عدالت میں چیلنج
کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا انحصار سری لنکا اور پاکستان پر ہے۔احسان مانی نے
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ آئی سی سی میں تین ملکوں نے
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ صریحاً آئی سی
سی کے آئین کے خلاف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان فیصلوں کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اسی
وقت ہو سکتا ہے جب کوئی اس معاملے کو آگے بڑھائے۔احسان مانی نے کہا کہ
انھیں نہیں معلوم کہ پاکستان اور سری لنکا میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ اس
معاملے کو عدالت میں لے جائیں۔احسان مانی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور فیفا میں اراکین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے
پرکشش پیشکشوں کے معاملات پر گرفت ہوئی ہے لیکن آئی سی سی میں ایسا نہیں
ہے۔ "آئی سی سی کے اجلاس سے قبل سری لنکا اور جنوبی افریقی کرکٹ بورڈز نے
ان سے رابطہ کیا تھا جنھیں انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ تینوں ممالک اس
اجلاس کو ایک ہفتہ آگے بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ دباؤ دوسرے ممالک کی جانب
منتقل ہو سکے اور اس دوران تینوں ممالک قانونی طور پر پابند ہوکر مفاہمت کی
یادداشت پر متفق ہوں اور اپنا ایک ترجمان بنائیں جو بگ تھری سے بات کر
سکے"احسان مانی نے ان اطلاعات پر بھی سخت حیرانی ظاہر کی کہ سری نواسن آئی
سی سی کی صدارت سنبھالنے کے بعد بھی بی سی سی آئی کے صدر کا عہدہ نہیں
چھوڑیں گے۔احسان مانی نے سوال کیا کہ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟ کیا سری
نواسن ہی مستقبل میں میچز اور پیسے کی تقسیم کو کنٹرول کرینگے اور جس نے ان
کا ساتھ دیا ان پر ہی نظر کرم رہے گی۔انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ تینوں ممالک
اکٹھے رہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن جنوبی افریقہ نے کرکٹ کا نہیں اپنے
فائدے کا سوچا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے ’’بگ تھری‘‘ تجاویز کا ساتھ نہ دینا پی سی بی کی
بے وقوفی ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پی سی بی کے ہاتھ کچھ نہیں
آیا جبکہ جنوبی افریقہ نے آخری وقت میں پینترا بدلتے ہوئے کچھ فوائد حاصل
کرلیے ہیں۔آئی سی سی کے پچھلے اجلاس میں ذکا اشرف کو آئی سی سی کی صدارت کی
پیشکش کی گئی تھی جبکہ بھارت اور انگلینڈ نے پاکستان سے سیریز کھیلنے کی
زبانی کلامی بات کی تھی۔ اس بات کا کیا ضمانت تھی کہ متنازع تجاویز قبول
کرنے کی صورت میں کیا واقعی بھارت اور انگلینڈ کی ٹیمیں پاکستان کے ساتھ
سیریز کھیلتیں۔پانچ سال سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہورہی لیکن
دبئی میں ہونے والے آئی سی سی کے اجلاس میں پاکستان کا قیمتی ووٹ خریدنے کے
لیے بھی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا جھانسہ تک نہ دیا گیا۔ا یشین
کرکٹ کونسل میں پاکستان اپنی حمایت کھو چکا ہے جہاں بنگلہ دیش جیسا ملک بھی
پاکستان کو آنکھیں دکھاتا ہے اور ’’بگ تھری‘‘ کا بھارت خاموشی سے تماشا
دیکھتا رہتا ہے۔ایسی صورتحال میں اگر پاکستان ’’بگ تھری‘‘ کی متنازع تجاویز
کی حمایت کرتا تو اس کی حالت ’’شامل باجا‘‘کی سی ہوتی جس کا ’’ساز‘‘بڑے
سازندوں کی آواز میں دب کر رہ جاتا۔’’بگ تھری‘‘ تجاویز کی مخالفت کرکے یا
کم از کم ان کے حق میں ووٹ نہ دے کر پی سی بی نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے
کیونکہ’’بگ تھری‘‘ کی یہ متنازع تجاویز دیرپا ثابت نہ ہوں گی جن میں صرف
تین بڑے ممالک کا مفاد وابستہ ہے اور چند سکوں پر بہل جانے والے چھوٹے
ممالک کو اس وقت اپنی غلطی کا احساس ہوگا جب عملی نفاذ کے بعد یہ تجاویز
عالمی کرکٹ کے لیے زہر قاتل ثابت ہوں گی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کم از کم جنوبی
افریقہ کی طرح ’’تھالی کا بینگن‘‘ نہیں بنا بلکہ عالمی کرکٹ میں اپنی کمزور
پوزیشن کے باوجود غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ دکھایا ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں
’’بگ تھری‘‘ کی مخالفت کرنے سے پاکستان عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار
ہوجائے گا تو ان کے لیے یہ عرض ہے کہ پاکستان پہلے ہی تنہائی کی انتہائی
سطح پر ہے جہاں پانچ سال سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوئی اور چار سال سے
پاکستان ’’بگ تھری‘‘ میں شامل ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی ٹیسٹ سیریز
نہیں کھیل سکا۔اس سے زیادہ پاکستان مزید کتنی تنہائی کا شکار ہوگا۔لیکن یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے مقابلے میں سیاست ہو یا کھیل پاکستان ہمیشہ
کمزور ہی رہا ہے۔ |