گوانتا نامو (جہاں جنیوا کنونشن کا جنازہ نکالا گیا)

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک، جنیوا معاہدے اور ایٹمی اسلحے پر پابندی کے معاہدے C.T.B.T & N.P.Tصرف مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کی جنگی چالیں ہی نہیں بلکہ مکروفریب کے وہ جال ہیں جو امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کو شکارکرنے کے لئے بڑی ہوشیاری سے بچھائے گئے ہیں۔ ان کے کانفرنس، ایجنڈے اور معاہدے دھوکہ دہی، سراب او رعیاری کے سوا کچھ بھی نہیں، اس کی تائید بڑی طاقتوں کے بین الاقوامی معاہدوں، تجاویز اور اقوام متحدہ کے منشور کی سراسر مخالفت سے ہوتی رہتی ہے، جیسے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بہت پہلے ارشاد فرمایا: ﴿یقولون بأفواھھم مالیس في قلوبہم﴾․

کشمیر، چیچنیا، فلسطین، بوسنیا اور افغانستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں، یہاں خون کے سیلاب اور ظلم و ستم کی کتنی آندھیاں چل رہی ہیں؟ اور ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ کتنی عورتوں کی بے حرمتیاں کی گئیں؟ کتنے معصوم بچوں اور ضعیف بوڑھوں پرظلم کے پہاڑ توڑے گئے؟ اور کتنے مردوں اور پردہ نشین عورتوں کے حقوق کو برباد کیا گیا ، جن کا کسی بھی قسم کے جرم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا؟ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تمام تر ظلم وستم کے باوجود بھی وہ دشمنوں کے پنجے سے آزادی حاصل نہ کرسکے اور نہ ہی بین الاقوامی کسی قانون نے ان کو حق خود ارادیت دیا۔ اس کے برعکس آپ مشرقی تیمور کو دیکھیں کہ انہوں نے بغض و عداوت کی بنا پر ایک مسلم ملک (انڈونیشیا) سے آزادی کی آواز بلند کی ہی تھی کہ کفریہ طاقتیں سرگرم ہوگئیں اور دوسرے ہی دن دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور بااختیار نصرانی مملکت وجود میں آگئی۔

آپ اسرائیل کو لیجئے کہ جس کا ارض فلسطین کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا، جی ہاں وہ فلسطین جو پاک پیغمبروں کی سرزمین ہے، جو معراج کی سرزمین ہے، جس کو دنیا کے اندر ارض مقدس کے نام سے پکارا جاتا ہے، مگر جب ان کفریہ طاقتوں نے چاہا کہ وہاں پر شیاطین الانس یہودیوں کو آباد کرائیں تو ان کی آشیر باد سے ارض مقدس پر اسرائیل کے نام سے ایک یہودی مملکت وجود میں آگئی، ان طاقتوں نے اپنے آپ کو یہودیوں کے فطری شر وفسادسے بچانے کے لئے یہ کیا کہ دنیا کے مختلف نصرانی ممالک میں منتشر یہودیوں کو لاکر یہاں آباد کرانا شروع کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ یہودی فلسطین کے اندر جو بھی فتنہ فساد کرتے رہیں وہ ملکی سلامتی کے زمرے میں آتا ہے اور اگر فلسطین کے مسلمان کوئی آواز اٹھائیں تو پوری دنیا اس کو دہشت گردی کا نام دے دیتی ہے، حالانکہ یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینی مسلمان نہتے ہیں، وہ یہودیوں کے میزائلوں، ٹینکوں، توپوں اور بموں کا مقابلہ غلیلوں اور پتھروں سے کرتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی عالمی سطح پر امن و آشتی کے نام پر چیخنے چلانے والوں کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔

آج فلسطین کے بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کو قتل کیا جارہا ہے، ان کے مکانات مسمار کئے جارہے ہیں، ان کی بستیوں کو اجاڑا جارہا ہے، ان کی مساجد کوشہید کیا جارہا ہے، اور ان کو اپنے آبائی وطن سے دیس نکالا دے کر ان کی نسلی تطہیر کی جارہی ہے۔

دوسری طرف بوسنیا میں جو وحشت و بربریت کا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا، مسلمانوں پر مختلف انواع کے مظالم ڈھائے گئے، باپردہ مسلمان خواتین کی جو عزتیں لوٹی گئیں، اس پر مستزاد یہ کہ مظلوم مسلمانوں سے نفرت اور ظالم عیسائیوں کے ساتھ مل کر یو این او کی افواج نے جو نہایت جانب دارانہ رویہ اختیار کیا، اسے تاریخ کی آنکھ نے لمحہ بہ لمحہ محفوظ کرلیا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ ماضی میں بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین نے امت مسلمہ کو کبھی بھی ذرہ برابر فائدہ نہیں پہنچایا، ہم مستقبل میں ان سے فائدے کی کیسے امید رکھ سکتے ہیں، جب کہ قرآن حکیم نے ہمیں آج سے چودہ سو سال پہلے بتادیا تھا: ﴿فقاتلوا أئمۃ الکفر إنھم لا أیمان لھم﴾․

آج بھی ان کے غیر معتبر ہونے کی واضح مثال کیوبا کے جزیرے گوانٹانامو کے قیدی ہیں، جہاں بین الاقوامی معاہدوں، دساتیر اور مہذب و ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک کے قوانین کو ایسے ہی پامال کیا گیا ہے، اور کیاجارہا ہے، جیسا کہ امریکی اور اتحادی افواج نے افغانستان میں مظلوموں کے حقوق بالخصوص بے گناہوں کے حقوق کو روندا ہے۔

یہاں ہم جنیوا معاہدے کی چند دفعات کا ذکر کرتے ہیں جو جنگی قیدیوں کے متعلق ہیں تاکہ ان کا قولی وفعلی تضاد واضح ہوجائے:
دفعہ نمبر۴: دوران جنگ یا بعد تک حربی قوتوں کے شکنجے میں قید کوئی شخص جنگی قیدی کہلائے گا۔ محدود معنوں میں: وہ شخص جو منظم طور پر فوج سے تعلق رکھتا ہو، وسیع معنوں میں: وہ گوریلے اور عام شہری جو دشمن کے خلاف مسلح انداز میں برسرپیکار ہوں، جنگی قیدی کے زمرے میں آتے ہیں۔
دفعہ نمبر:۱۲: جنگی قیدی کو تحویل میں رکھنے والی قوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔
دفعہ نمبر:۱۳: جنگی قیدی کے ساتھ نرمی اور شائستگی کا رویہ رکھا جانا چاہیے۔
دفعہ نمبر:۱۵: اگر جنگی قیدی بیمار یا زخمی ہو تو تحویل میں رکھنے والی قوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اخراجات پر اس کا علاج کرائے۔
دفعہ نمبر:۱۶: علاج اور دیگر امور کے حوالے سے ناروا سلوک نہ رکھا جائے بلکہ اسی نوعیت کی تکنیکی اور طبی سہولتیں فراہم کرنی ناگزیر ہوں گی۔ جو تحویل میں رکھنے والی قوت اپنے فوجیوں کو فراہم کرتی ہے۔
دفعہ نمبر:۲۲: کے لحاظ سے قیدیوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے رہنے کے لئے صاف اور کشادہ جگہ فراہم کی جانی چاہیے۔ اور انہیں کوٹھڑیوں میں ہرگز نہیں رکھنا چاہیے۔
دفعہ نمبر:۲۵: اگر ہوسکے تو ان کو رہائش کے باقاعدہ کوارٹر مہیا کئے جائیں۔
دفعہ نمبر:۲۶: کے تحت جنگی قیدیوں کو مناسب مقدار میں غذا دی جانی چاہیے، اور تمباکونوشی کے عادی قیدیوں کو اس کی اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ تمباکو نوشی کرسکیں۔
دفعہ نمبر:۲۷: کے مطابق دیگر بنیادی ضرورتوں میں جنگی قیدیوں کے کپڑوں، جوتوں اور زیرجامہ کا خیال رکھنا چاہیے۔
دفعہ نمبر:۲۸: کے مطابق جنگی قیدیوں کے ہر کیمپ میں کینٹین کی سہولت مہیا ہونی چاہیے۔
دفعہ نمبر:۴۱: کے مطابق ہر قیدی کیمپ میں جنیوا کنونشن کا متن، ضمیمے اور کوئی دوسرا معاہدہ جو قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے ہو، قیدیوں کو سمجھ میں آنے والی زبان میں موجود ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنے لئے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین کا مطالعہ کرسکیں۔
دفعہ نمبر:۷۷: کے تحت جنگی قیدیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدمات کے سلسلے میں وکلاء سے بالمشافہ ملاقات کریں اور تحویل میں رکھنے والی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے، کہ قیدیوں کو یہ سہولت فراہم کرے۔

مذکورہ بالا تمام دفعات معاہدہ جنیوا کا حصہ ہیں، جو اقوام متحدہ کے دستور میں شامل ہے۔ امریکہ اور اس کے تمام حلیف ہمیشہ اس تنظیم کے قوانین، معاہدوں اور فیصلوں کو رکن ممالک میں نافذ کرنے کے لئے ڈھنڈورے پیٹتے رہتے ہیں، مگر خود عمل کے لحاظ سے صرف صفر ہی نہیں، بلکہ انہیں روند ڈالنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے!! ان دفعات میں سے ایک ایک کو لے کر پڑھئیے اور پھر میڈیا میں کیوبا کے قیدیوں کے احوال کا مطالعہ و مشاہدہ فرمائیے، اندازہ ہوجائے گا کہ ان استعماری قوتوں کے قول وعمل میں کتنا بڑا زمین وآسمان کا تفاوت ہے!!۔

موجودہ حالات میں ہم نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے دھماکوں کے بعد کے واقعات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ امریکہ پر اپنے تکبر اور غرور کے زعم میں ایک جنون سوار ہوچکا ہے۔ اس نے افغانستان جیسے پسماندہ، مصیبت زدہ اور زخموں سے چور چور ملک پر بغیر کسی دلیل کے حملہ کیا اور ہر قسم کے ہتھیار چاہے وہ کیمیاوی ہوں یا غیر کیمیاوی، استعمال کئے اور دورانِ جنگ بنی نوعِ انسان میں کوئی بھی تمیز نہ کی اور نہ ہی عسکری مقامات اور مساجد اور اسپتالوں میں کوئی فرق ملحوظ خاطر رکھا بلکہ اندھا دھند بمباری جاری رکھی۔ دورانِ جنگ تسلیم ہونے والے افراد کو جنگی قیدی بنایا اور تین سو کے لگ بھگ قیدیوں کو انتہائی بدتر حالت میں گوانٹانا مو جزیرے میں منتقل کردیا۔ امریکیوں نے ان قیدیوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈالیں ان کی ڈاڑھیوں کو مونڈھا اور ان کے ہاتھوں کو پشت کی طرف سے باندھ دیا، ان کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ کر ان پر کالی عینکیں چڑھا دیں ان کے کانوں کو روئی سے بھردیا اور پھر ان کو ایسے پنجروں میں رکھا جو طول وعرض میں بھی ان سے چھوٹے ہیں۔

کیا یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی صریح خلاف ورزی نہیں؟ بالخصوص جنیوا کنونشن کے، لیکن غصہ جنون میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں عقل کی کوئی قیمت نہیں رہتی، اور پاگل پنے کی دہلیز پر تمام قاعدے کلیے اخلاقی اقدار بین الاقوامی قوانین، معاہدے اور دساتیر ذبح کردئیے گئے ہیں اور ان تمام معاہدوں کی دفعات اور شقیں کسی بھی معنی اور مقصد سے کھوکھلی ہوکر رہ گئیں ہیں، آئے دن انسانی حقوق کی رٹ لگانے والا آج انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سب پر سبقت لے گیا ہے، جو نہ تو انسانی حقوق کی ابجد سے واقف ہے اور نہ ہی رحم و نرمی جیسے الفاظ اس کی لغت میں ہیں، گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد اس دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے، جہاں جو جتنا خون خوار ہوتا ہے، اسی کا راج ہوتا ہے۔ فإلی اﷲ المشتکی(۱)․
(’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک صفر المظفر، و’’الفاروق‘‘ کراچی صفر ۱۴۲۳ھ)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877936 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More