حکومت اور طالبان کے درمیان ہو
نے والے مذاکرات کے بارے میں خبریں ، تبصرے اور تجزئیے سنتے ہیں تو کبھی
مایو سی اور کبھی امید کی کرن پید ا ہو جا تی ہے ۔صورتِ حال بڑی گنجلک ہے
اور اس وقت با لکل صحیح اندازہ لگا نا ممکن نہیں مگر جو صورتِ حال اس وقت
ہمارے سامنے ہے اور جو صورتِ حال اس وقت اِ س خطہ کی ہے ، اس سے کچھ کچھ
اشارے ضرور ملتے ہیں جو ہمیں اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ مذاکرات کا اونٹ
آخر کس کروٹ بیٹھے گا ؟
بظاہر اس وقت دونوں کمیٹیوں کے ممبران کے بیانات حو صلہ افزا ہیں اور یو ں
محسوس ہو تا ہے کہ دونوں طرف امن کی خواہش مو جو د ہے اور دونوں فریقین چا
ہتے ہیں کہ جنگ کی نو بت نہ آئے اور امن کا راستہ تلاش کیا جائے ۔مگر ساتھ
ساتھ کچھ ایسے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ رو نما ہو رہے ہیں جو مذاکراتی عمل
کے لئے سپیڈ بریکر ثابت ہو رہے ہیں مثلا مذاکرات شروع ہو نے کے بعد پشاور
میں یکے بعد دیگرے طالبان طرز کے سولہ حملے ہو چکے ہیں جن میں درجنوں بے
گناہ مرد ، عو رتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں ۔ طالبان نے ان سے لا تعلقی کا
اظہار کر کے مذاکرات پر ان کے منفی اثرات زائل کرنے کی کو شش کی ہے مگر
کراچی میں تیرہ پولیس اہلکاروں کی شہادت اور 57کے زخمی ہونے کے سنگین واقعہ
کی ذمہ داری قبول کر کے اس اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے جو فریقین ایک دوسرے
پر مذاکرات کی کا میابی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ۔حکومتِ پاکستان نے ان
واقعات پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہو ئے صاف صاف کہہ دیا کہ مذاکرات اور
دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ملک کے عوام
نے حکومت اور طالبان کے مذاکرات کا خیر مقدم اس وجہ سے کیا تھا کہ ملک میں
خون خرابہ نہ ہو، بم دھما کے نہ ہو ں، سیز فا ئر ہو اور امن قائم ہو ۔اگر
چہ یہ مقصد کمیٹیوں کے درمیان پہلی ملاقات میں ہی حاصل ہو نا چا ہئے تھا
مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا، بحر حال دیر آید، درست آید کے مصداق اب بھی
اگر دونوں طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہو جا ئے، جس کا عندیہ کمٹی کے ممبران
نے دیا ہے ، تو یہ ایک مفید اقدام ہو گا۔
اب اصل با ت کی طرف آ تے ہیں یعنی یہ کہ انجامِ مذاکرات کیا ہو گا ؟اونٹ کس
کروٹ بیٹھے گا ؟ مذاکرات سے بندھی امیدیں پو ری ہو نگی یا اس کا انجام بھی
پہلے کیے گئے معا ہدوں جیسا ہو گا ؟ اس سلسلے میں میں کچھ مغربی ذرائع
ابلاغ میں پیش کئے گئے خیا لات و تجز یوں کا خلاصہ پیش کر وں گا ۔ جس سے یہ
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا ْ ۔ مغربی تجزیہ
کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے لئے
ضروری ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود طالبان کو کچل دیا جائے
مریکہ اور پاکستان کا پلا ن یہ ہے کہ آ پریشن کے لئے پاکستانی عوام کو ایک
نکتے پر جمع کیا جائے جو اس وقت دو حصوں میں منقسم ہیں۔ مغربی ذرائع کے
مطابق آپریشن اس لئے نا گزیر ہے کہ امریکہ اور اتحادی مما لک نے دسمبر 2014
تک نہ صرف بھاری اسلحہ و مشینری افغانستان سے منتقل کر نی ہے بلکہ فوجوں کی
ایک بڑی تعداد نے بھی واپس لو ٹنا ہے۔امریکہ نہیں چا ہتا کہ افغان اور
پاکستانی طا لبان مل کر ان کا وہی حشر کریں جو انہوں نے روس کا کیا تھا اس
لئے وہ شمالی وزیرستان کو کلیئر اور طالبان کا کمر تو ڑنا چا ہتے ہیں تاکہ
تحریکِ طالبان پاکستان کسی بھی صورت میں سرحد کے پار جا کر افغان طالبان کے
ساتھ مل کر امریکہ اور نیٹو افواج کو نقصان نہ پہنچا سکیں ۔مگر اس آپریشن
کے لئے ضروری ہے کہ پاک فو ج کے پیچھے پاکستانی عوام کھڑی ہو ،کیو نکہ کو
ئی بھی فو ج عوام کے تعاون کے بغیر کسی بھی مہم میں کا میاب نہیں ہو
سکتی۔‘‘یہ تو مغرب کی سوچ ہے جبکہ دوسری طرف طالبان کئی گروہوں میں بٹے ہو
ئے ہیں جسکی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو سکتے ہیں مثلا 23 ایف سی مغوی
اہلکاروں کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے ،جس نے مذاکراتی عمل کو تعطل میں ڈال
دیا ہے۔پاکستان دشمن عناصر بعض طالبان گروپوں کو مذاکرات ک ناکامی کے لئے
بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔لیکن سب سے اہم اورفیصلہ کن کردار ہمارے حکمرانوں
کی سوچ اور دوراندیشی کی قوّت ادا کرے گی ۔
اگر ہم اپنے حکمرانوں کے ماضی میں کئے گئے فیصلوں پر غور کریں تو پتہ چلتا
ہے کہ ہمارے حکمران ہمیشہ کسی اور کے مرضی و منشاء کے مطابق فیصلے کرتے چلے
آ رہے ہیں ، ہمارے حکمران کبھی بھی اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں رہے۔ہماری خا
رجہ پالیسی بھی کسی اور کی تا بع رہی ہے۔اسی لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر
طالبان سے حکومت کے مذاکرات کا میاب ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ملک
میں امن قائم ہو تا ہے تو یہ ایک معجزہ ہو گا ۔ہماری دعا ہے کہ یہ معجزہ
رونما ہو جائے کیو نکہ پاکستانی عوام خصوصا خیبر پختونخواہ کے عوام اپنے
پیاروں کی لا شیں اٹھا اٹھا کر اب تھک چکے ہیں ۔۔۔۔ |