صحابہ کرام رضوا ن ا ﷲ علیہم اجمعین کا ذوق عبادت اور عبادات سے ہماری غفلت

خالق حقیقی اﷲ جل جلالہ کی اس خاکدان گیتی پر انبیا اور رسل کے بعد سب سے مقدس اور با برکت مخلوق صحابہ کرام رضی ا ﷲ تعالٰ عنہم کی پاکیزہ جماعت ہے۔ اس گروہ نے بحالت ایمان اﷲ کے رسول ﷺ کی زیارت یا آپ ﷺکی صحبت اختیار کی اور ایمان ہی پرخاتمہ با لخیر کی سعادت سے مالا مال ہوا (صحیح ا لبخاری ج 1 ص 512حاشیہ نمبر 4)منصب صحابیت اتنا بلند و بالا مقام و منصب ہے کہ دنیا کا کوئی بھی بڑا سے بڑا غوث و قطب ،ابدال اور ولی ان کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہونچ سکتا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے وابستہ صحابہ کرام عدل و انصاف کے منبع اورسر چشمہ ہیں ، ہدایت کے روشن و تابناک ستارے ہیں جن کی اطاعت و پیروی امت محمدیہ کے لئے مشعل راہ ہے۔(مشکواۃ ا لمصابیح ص554 مطبوعہ مجلس برکات )۔ اﷲ رب ا لعزت نے ہر ایک صحابی سے بھلائی کا وعدہ فرمایا (سورہ حدید آیت 10) جن سے عشق و محبت، خدا ور رسول ﷺ سے عشق و محبت ہے اور جن سے نفرت و عداوت اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے دشمنی اور بغض و عداوت کے مترادف ہے (مشکواۃ ا لمصابیح ،ص554 مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور ( ۔صحابہ کرام کی جماعت سے ان کا رب عزوجل دنیا اور آخرت میں راضی ہے اور وہ بھی اپنے خالق و مالک رب تعالیٰ کی مرضی پر راضی ہیں (سورہ توبہ آیت 100)۔

ان عظمت و فضیلت کے باوجود جب ان گروہ صحابہ نے مدنی سرکار ﷺ کی عبادت و ریاضت کا مشاہدہ کیا ،ان کا اپنے رب عز و جل کی بارگاہ میں گریہ وزاری دیکھا، اوقات نماز کی پابندی ، احکام مسائل کا اہتمام ملاحظہ کیاکہ آپ ﷺ فرائض و واجبات کے علاوہ کثرت کے ساتھ عبادت و ریاضت کرتے حتی کہ پائے مبارک ورم کرآتے(سوج جاتے ) ، اور کبھی کبھی تو شق ہوجاتے اورآپ ﷺ جب نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے تو آپ ﷺ کے سینہ اقدس سے ایسی آواز آتی جیسی آگ پر رکھی ہوئی جوش مارتی ہانڈی سے آواز آتی۔ ایک موقع سے ام ا لمومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا نے آپ ﷺ کی کثرت عبادت اور شدید محنت و مشقت دیکھ کر بارگاہ اقدس میں عرض کیا یا رسول اﷲ :آپ ﷺ تو رب کی عطاؤں سے بخشے بخشائیں ہیں پھر ا س قدر شدید محنت اور جاں سوزی کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں اپنے رب عز و جل کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (مقصد یہ ہے کہ رب کی عبادت صرف طلب مغفرت کے لئے ہی نہیں ہوتی بلکہ اپنے رب کی نعمتوں کے شکریہ کے لئے بھی کی جاتی ہے اس لئے میں شکر گزاری کے لئے کثرت سے عبادات کرتاہوں)( صحیح احادیث)۔

سرور کونین حضرت محمد عربی ﷺ کی ادائیں ، ان کا طرز عمل گروہ صحابہ کرام کے لئے ’’حرز جاں ‘‘ تھا،آپﷺ کی ایک ایک نشست و برخاست پر مرمٹنے کا جذبہ بے کراں ان کے سینے میں موجزن تھا،رسول ا ﷲ سے نماز کی مداومت (ہمیشگی )کا جو عملی نمونہ مشاہدہ کیا تھا وہ ان کی زندگی کا عزیز ترین سرمایہ تھا ،فرائض و واجبات پر سختی سے تو عمل پیرا تھے ہی نوافل کا بھی اہتمام اس قدر فرماتے کہ غیروں کے مقابلے بدرجہا فضیلت و بزرگی کا حامل عمل تھا، ان گروہ صحابہ میں نماز کا ایسا جذبہ اور ذوق عبادت سے ایسا گہرا لگاؤ تھا کہ عین خرید و فروخت کے وقت بھی اگر نماز کا وقت آجاتا ، موذن حی علی ا لصلاۃ (آؤ نماز کی طرف ) اور حی علی ا لفلاح(آؤ کامیابی کی طرف ) کی مسحور کن صدائیں لگاتا تو صحابہ کرام اپنے کار و بار کو چھوڑ کر موذن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا کے گھر مسجد کی جانب روانہ ہوجاتے چنانچہ صحابی رسول حضرت عبد ا ﷲ ابن عمر رضی ا ﷲ عنہما اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن بازار میں تھے کہ نماز کے لئے اقامت ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ بازار والے اٹھے اور دوکانیں بند کرکے مسجد میں داخل ہوگئے اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے ہی لوگوں کی اﷲ نے قرآن کی اس آیت میں تعریف کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے : اس مسجد میں کچھ مرد ایسے ہیں جو صبح و شام اﷲ کی تسبیح کرتے ہیں انہیں ا ﷲ کی یاد اور نماز قائم کرنے سے کوئی سودا اور کوئی خرید و فروخت غافل نہیں کرتا اور وہ اپنے رب کے حضور ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں خوف الٰہی سے دل اور آنکھیں پلٹ جائیں گی۔(تفسیر مظہری 541/6 سورہ نور آیت ؍37)۔

گروہ صحابہ کرام کے نزدیک نماز کی اتنی اہمیت تھی کہ نماز کو علامت ایمان اور ترک نماز کو علامت کفر سمجھتے (جامع ترمذی ، مشکواۃ ا لمصابیح ص95؍ مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور)کیوں کہ کوئی مسلمان اس عہد سعادت میں نماز ترک ہی نہیں کرتا تھا اس لئے صحابہ کرام کے نزدیک نماز چھوڑنا کفر کی علامت (نشانی )تھی، فقہ حنفی کے معروف عالم دین مولانا امجد علی اعظمی اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ بہار شریعت ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ترک نماز تمام صحابہ کے نزدیک علامت کفر تھی البتہ تارک نماز(نماز چھوڑنے والے )کو کافر کہیں گے یا نہیں ؟ تو اس میں صحابہ اور ائمہ کرام کا اختلاف ہے لیکن یہ کتنی ہی بڑی بات ہے کہ نماز چھوڑنے والا، بعض صحابہ کرام کے نزدیک کافر ہے۔(مفہوم بہار شریعت ج3؍ص 442مطبوعہ مکتبۃ المدینہ د،عوت اسلامی )۔

صحابہ کرام کے ذوق عبادت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ فرائض با جماعت ادا کرتے کیوں کہ جلیل ا لقدر صحابی حضرت عبد ا ﷲ ابن مسعود رضی ا ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم گروہ صحابہ نماز با جماعت سے (بلا عذر شرعی ) پیچھے رہ جانے والے کو منافق سمجھتے تھے کہ اس کا نفاق واضح ہو یا پھراس کو ایسا مریض سمجھتے کہ ودشخصوں کے سہارے چل کر نماز میں آتا آپ نے فرمایا کہ حضرت محمد عربی ﷺ نے سنن ا لہدیٰ (لازمی سنتوں )کی تعلیم دی ہے ان ہی میں سے اذان والی نماز میں با جماعت مسجد میں نماز ادا کرنا بھی ہے ۔مشکواۃ ا لمصابیح ص96؍ براویت مسلم ،مطبوعہ مجلس برکات مبارکپو)۔سرکار دو عالم ﷺ کے عہد پاک میں نا بینا صحابہ کرام جو مسجد کے قریب رہتے اور مسجد کی اذان سن سکتے تھے ان کی بھی حاضری مسجد میں لازمی تھی ( ما خوذ ،ماخذ سابق ص95/97؍ براویت مسلم)۔ قرون الیٰ میں اگر کوئی صحابی مسجد میں کسی وجہ سے حاضر نہ ہوتا تو دیگر صحابہ کرام پریشان ہوجاتے اور حال خیریت لیتے ، امیرا لمومنین عمر فاروق اعظم ایک موقع سے ایک تابعی سلیمان بن ابی حثمہ کے دولت کدہ پر تشریف لے گئے اور ان کی والدہ سے ارشاد فرمایا کہ کیا بات ہے میں سلیمان بن حثمہ کو نماز فجر میں نہیں پایا تو ان کی والدہ نے عرض کیا کہ وہ رات بھر عبادات میں مصروف تھے کہ اچانک ان کی آنکھ لگ گئی جس سے وہ مسجد نہیں جا سکے تو آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک صبح کی نماز با جماعت پڑھنا رات بھر نفل نماز سے بہتر ہے (ما خذ سابق ص؍ 97؍)۔صحابہ کرام کو نماز باجماعت اس قدر محبوب تھی کہ اگر کسی صحابی کا گھر مسجد سے دور ہوتا تو مسجد کے قریب گھر بسانا پسند فرماتے تا کہ ان کی نماز باجماعت نہ چھوٹے (ما خذ سابق68؍باب ا لمساجد)۔

ان صحابہ کرام کی عبادت و ریاضت کا یہ حال تھا کہ فرض ، واجب ، سنن کے ساتھ نوافل کا کثرت سے اہتمام کرتے ، اپنی رات کے بیشتر حصے عبادت الٰہی اور تلاوت قرآن کے لاحوتی نغمے میں گزارتے ، ذکر و عبادت میں مشغول رہ کر اپنے رب کی رحمتوں کے طالب رہتے اﷲ جل مجدہ نے ان کے ذوق عبادت و ریاضت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ’’وہ رات میں کم سویا کرتے ، پچھلی رات( استغفار کرتے ( توبہ کرکے اپنی مغفرت کے طالب رہتے ) اور ان(کی شان یہ ہے کہ عبادت الٰہی کے ساتھ ہی ان کے ) مال و منال میں منگتے اور بے نصیب کا حق ہوتا ہے ‘‘( ترجمہ سورہ ذار یٰت ، آیت 16تا 18) صحابہ کرام کے ذوق عبادت کا یہ حال تھا کہ کہ رات کی تاریکی میں جب دوسرے لوگ نرم و گداز بستروں پر محو استراحت ہوتے ، گہری اور میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے تو معرفت الٰہی کے طالب گروہ صحابہ اپنے پہلوں کو اپنے بستروں سے دور رکھتے اور اپنے رب عز و جل کی بارگاہ بے کس پناہ میں دست بستہ کھڑے ہوکر اس کی بارگاہ میں لو لگاتے ، کبھی سجود نیاز خم کرتے تو کبھی دامن مراد پھیلاکر اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتے جیساگہ ان کی عبادت و ریاضت اور ان کے جودو سخا کا ذکر کرتے ہوئے ارشادخدا وندی ہے ’’ ان کی کروٹیں ان کی خواب گاہوں سے جدا ہوتی ہیں اور اپنے رب کو پکارتے ہیں(خوف و رجا کے ساتھ)ڈرتے ہوئے ،امید کرتے ہوئے اور ہمارے دئے ہوئے میں سے کچھ خیرات کرتے ہیں(ترجمہ : سورہ سجدہ آیت 16)۔

یار غار امیر ا لمومنین سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی ا ﷲ عنہ کی شب بیداری ، کثرت عبادات ، ذوق تلاوت قرآن اور خوف الٰہی سے لرزہ بر اندام رہنے کی یہ حالت تھی کہ آپ اکثر دن میں روزہ رکھتے ،پوری پوری رات نوافل میں گزار دیتے نمازوں میں خشوع و خضوع کی یہ کیفیت تھی کہ بحالت نماز بے حس و حرکت لکڑی کی طرح نظر آتے اور روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی (خلفائے راشدین :ڈاکٹر عاصم اعظمی ص 159؍بحوالہ برکات نماز: از مولانا عبد ا لمبین نعمانی مصباحی مبارک پور اعظم گڑھ ) ۔خلیفہ رسول سیدنا امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی ا ﷲ عنہ عبادت و ریاضت میں کافی وقت صرف فرماتے آپ کے رگ و پے میں خوف خدا وندی سرایت تھا، خوف خدا کی وجہ سے کثرت سے اشکبار ہوتے ،قبر کی وحشت اور اس کی تاریکی اور میدان محشر کی ہولناکیوں کو یاد کر کے لرزہ بر اندام رہتے پوری پوری شب کثرت سے عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے ، عام طور پر ان ہی آیتوں کی تلاوت کرتے جن میں اﷲ کا خوف و خشیت اور اس کی عظمت و جلال اور قیامت کا کا ذکر ہوتا جن کے اثر سے آپ پر گریہ و زاری کی کیفیت طاری ہوجاتی ، اس قدر روتے کہ ہچکیاں بند ھ جاتی ، ایک مرتبہ آپ نماز میں سور ہ طور کی آیت کریمہ7تا8؍جس کا ترجمہ’’بیشک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ‘‘ کی بار بار تلاوت کرنے لگے اور اس قدر روئے کہ آپ کی آنکھیں سوج گئیں۔ (ماخذ سابق ص 327؍بحوالہ برکات نماز)۔ ایک مرتبہ آپ با جماعت نماز نہیں پڑھ پائے تھے تو ایک قطعہ زمین جس کی قیمت ایک لاکھ درہم (اس زمانے میں تھی ) آپ نے اسے اﷲ کی راہ میں صدقہ کردیا( نزہۃ ا لمجالس: از علامہ قصوری پاکستان، ج 1؍ ص 512)آپ اپنے گورنروں اور عمال کو خصوصی ہدایت لکھ کر بھیج تے کہ تمہارے سب کا موں میں سب سے اہم کام نماز کی محافظت اور اس کی باجماعت ادائیگی ہے جس نے نماز کی پابندی کی اس نے دین کی پابند ی کی اور جس نے نماز وں کو ضائع کردیا وہ تما چیزوں کوضائع و برباد کر چھوڑے گا ۔( مشکواۃ ا لمصابیح ص59؍مطبوعہ مجلس برکات )صحابی رسول حضرت عباس رضی ا ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر سے بہتر کسی پڑوسی کو نہ پایا کہ ان کی رات نماز میں، دن روزے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں گزرتی (حلیۃ ا لاولیا ج، 1ص 54؍بحوالہ برکات نماز)آپ جب شب میں نماز پڑھتے تو اپنے اہل و عیال کو بھی آخر شب میں نماز پڑھنے کے لئے اٹھا دیتے اور نماز پڑھنے کا حکم فرماتے پھر سورہ طہ، آیت132؍ کی تلاوت فرما تے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت قدم رہ ،ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے ، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور بہترین انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے ‘‘(موطا امام مالک، با ب ،ما جاء فی صلواۃ ا للیل )۔

امیر ا لمومنین سیدنا عثمان غنی ذو ا لنورین کے بارے میں عبد ا لرحمٰن تیمی کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات خانہ کعبہ میں واقع مقام ابراہیم پر نماز پڑھنے کا راداہ کیا تو ناگہاں (اچانک) ایک آدمی آیا اس نے میرے سینے پر ہاتھ مارا (مجھ کو ہٹادیا ) پھر میں نے دیکھا کہ وہ عثمان غنی تھے انہوں نے نماز پڑھنا شروع کیا تو پہلی ہی رکعت میں سورہ فاتحہ الحمد سے لے کر پورا قرآن پڑھ ڈالاپھر رکوع و سجدہ کیا اور نماز کے بعد تشریف لے گئے مجھے نہیں معلوم کہ اس شب میں پہلے بھی کچھ پڑھا تھا یا نہیں(حلیۃ ا لاولیا ج، 1ص 567؍بحوالہ برکات نماز)۔داماد مصطفیٰ ، شیر خدا ، حضرت علی کرم ا ﷲ وجہہ کی حیات طیبہ زہد و تقویٰ خلوص و ﷲیت اور پیکر رشد و ہدایت تھی ، ذوق عبادت و ریاضت کا یہ حال تھا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت علی قائم اللیل (را ت میں عبادت کرنے والے ) اور صائم ا لنہار (دن میں روزہ رکھنے والے ) تھے(خلفائے راشدین :ڈاکٹر عاصم اعظمی ص513 ؍بحوالہ برکات نماز)آپ کے خشوع و خضوع کا یہ حال تھا کہ ایک موقع سے آپ کے پنڈلی میں تیر پیوست ہوگیا تودرد کی شدت سے نڈھال ہوگئے مگرجب آپ نے نماز پڑھنا شروع کیا تو نماز کی حالت میں اسے نکال لیا گیا اور آپ کو احسا س بھی نہ ہوا ۔( برکات نمازص ، 14؍)۔جلیل ا لقدر صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی ا ﷲ عنہ خود بھی شب زندہ دار تھے اور اپنے اہل و عیال کو بھی نماز کی سخت تاکید فرماتے آپ نے رات کے تین حصے بنائے تھے اور گھر والوں میں سے ہر ایک ، ایک تہائی رات میں نماز پڑھتا اس طرح جب ایک فارغ ہوتا تو دوسرے کو اٹھادیتے اور وہ عبادت میں مصروف ہوجاتا (حلیۃ ا لاولیا 1؍383بحوالہ برکات نماز)۔

صحابی رسول حضرت سیدنا تمیم بن اوس داری رضی ا ﷲ عنہ کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیتے ۔ ایک رات تہجد کی نماز کے لئے بیدار نہ ہو سکے توصبح میں نفس کو یہ سزا دی کی ایک سال تک سوئے ہی نہیں۔(مشکواۃ ،الاکمال فی اسماء ا لرجال مع ا لمشکلات ص588 مجلس برکات مبارکپور) ابن اثیر اپنی کتاب ’’اسد ا لغابۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تمیم داری ایک رات تہجد میں مستقل ایک آیت پڑھتے رہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’کیا جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی زندگی اور موت برابر ہوجائے ، کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں (کنز الا یمان ، جاثیۃ آیت 21) ۔ صحابی رسول حضرت زبیر رضی ا ﷲ عنہ کی غایت درجہ خشوع و خضوع کا یہ عالم تھا کہ لوگ آپ کی عبادت کو ریا کاری سمجھتے اس لئے بغرض امتحان حالت نماز میں کسی نے آپ کے ’’رخ زیبا‘‘ پر کھولتا پانی ڈالدیا جس سے آپ کے چہرے کی خال اتر گئی اور نماز کے بعد آپ کو جب اپنی حالت کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اﷲ ان لوگوں کی مغفرت فرمائے (طبقات ا لکبرٰ مترجم ص 40؍ نفیس اکیڈمی پاکستان بحوالہبرکات نمازص15؍ )۔مندرجہ بالا آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان دین سے یہ بات روز روشن کی مثل ظاہر ہوچکی ہے کہ اﷲ رب ا لعزت کی بارگاہ میں گروہ صحابہ کا اتنا بلند بالا منصب ہے کہ ہر ایک صحابی سے بھلائی کا وعدہ فرمایا (سورہ حدید آیت 10) ان کے بارے میں گڑھے جانے والے الزامات سے انہیں بری قرار دیا(سورۂ نور آیت 26) انھیں اﷲ کی رضا چاہنے والا ، اﷲ اور اس کے رسول کی مدد کرنے والا ،سچا ایمان والا اور (دنیا اور آخرت میں )کامیاب بتایا(سورۂ حشر آیت 8تا 9) جن کی شان اقدس میں گالی گلوج اور بد تمیزی کرنے سے اﷲ کے رسول ﷺ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا صحابی راہ خدا میں اگر تھوڑا سا ’’جو‘‘ صدقہ کردے تو غیر صحابی کے راہ خدا میں ’’ احد پہاڑ ‘‘ کے برابر سونا خیرات کر نے سے بھی بہتر ہے (مشکواۃ ا لمصابیح ص 553مطبوعہ مجلس برکات)۔ ان سب کے باوجود مشاہیر صحابہ کے علاوہ عام صحابی کی بھی ذوق عبادت کا یہ حال تھا کہ فرائض ، واجبات اور سنن کے علاوہ کثرت سے راتوں میں اپنے بستروں سے علاحدہ ہوکر اپنے رب کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے ، اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کر نے کی تگ و دو کرتے اور پوری پوری رات عبادت و ریاضت ، میں مصروف رہتے اور قرآن کریم کی تلاوت کے وقت اﷲ کے غضب اور قہر سے اﷲ کی پناہ مانگتے ۔

لیکن افسوس صد افسوس : کہ ہم لوگ اپنی موت سے غافل ہوکر غفلت زدہ ماحول میں اﷲ والوں کی یاد سے ’’درس عبرت ‘‘نہیں حاصل کرتے ، نفل نماز اور دیگر اوراد و وظائف ، تسبیح و تہلیل تو در کنار فرائض و واجبات ، سنن وغیرہ کی بھی پابندی نہیں کرتے ، حالانکہ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا کفر پر ؟کیا ہمارے لئے غور و فکر کا مقام نہیں ہے کہ اﷲ کے رسول ،صحابہ کرا م اور دیگر اﷲ کے ولی نے اتنی کثرت اور شدت کے ساتھ نمازوں کی کیوں پابندی کی؟ کیا ہم فرائض و سنن وغیرہ کی پابندی سے اپنی مساجد کو اپنے سجدوں کا گواہ نہیں بناسکتے ؟کیا اتباع صحابہ کے پیروی کا دعویٰ ہم سے تقاضا نہیں کرتا کہ کہ کم ازکم ہم فرض ، و اجبات اور سنن وغیرہ کی ادائیگی کی سنجیدہ کوشش کریں ؟ کیا ہمارے لئے لازمی اور ضروری نہیں کہ خود بھی نمازوں کی پابندی کرنے کی حتی ا لمقدور کوشش کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی نماز کا حکم دے کر انہیں جہنم کی ہولناکیوں سے بچائیں ؟ کیا دنیاوی زندگی چند روزہ اور اخروی زندگی دائمی اور ہمیشگی کی نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم اپنے اور اپنے اہل خانہ عزیز و اقارب وغیرہ کے لئے دنیاوی فوز و فلاح کی فکر کرتے ہیں لیکن ان کی اخروی زندگی کی کبھی فکر نہیں کرتے کہ انہیں نماز کی تاکیدکریں؟ اور ان سب سے بڑھ کر مقام حیرت یہ ہے کہ دنیاوی کسی کام کے لئے تو ہم اس کی تحقیق و تفتیش کرتے ہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے؟ کس میں فائدہ اور کس میں نقصان ؟ لیکن نماز اور دیگر دینی معاملے میں کبھی کسی ذمہ دار عالم یا معتمد کتاب سے ہم نماز اور دیگر مسائل سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ کیا جب ہمارے سجدوں سے ہماری مساجدآباد نہیں رہیں گی تومساجد کی حفاظت ممکن ہوگی ؟ کیا مسجد ویران اور برباد کرنے میں ہم اور آپ کچھ حد تک ذمہ دار نہیں ہیں ؟ اگر ہیں تو آخر کیوں نہیں رزق حلال کھا کر، جھوٹ اور دیگر برائیوں سے حسب مستطاع ،بچ کر صحابہ کرام کے ذوق عبادت کی کچھ بھیک ہم اپنے رب سے نہیں طلب کرسکتے ؟ کہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات میں سے کچھ وقت اپنے خالق حقیقی اﷲ تعالیٰ کے لئے صرف کریں اورکم از کم فرائض ، واجبات اور سنتیں وغیرہ کی پابندی کرکے اپنی مساجد کو اپنے سجدوں سے آباد کریں ؟ ’ اور بقول امام احمد رضا محدث بریلوی ان اشعار ’دن لہو میں کھونا تجھے ،شب صبح تک سونا تجھے، شرم نبی خوف خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں‘ کا مصداق نہ بنیں ۔رب تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ بطفیل مدنی سرکار ﷺ ہم سبھی مسلمانوں کو درست اسلامی عقائد و نظریات کے ساتھ صحابہ کرام کے ذوق عبادت کا کچھ حصہ فرمائے(آمین)
Md Arif Hussain
About the Author: Md Arif Hussain Read More Articles by Md Arif Hussain: 32 Articles with 63924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.