کامیابی کی بنیادی طور پر چار قسمیں ہیں:
۱- انفرادی کامیابی، ۲- اجتماعی کامیابی،
۳-فانی کامیابی، ۴-ابدی کامیابی
یہ چاروں قسمیں آپس میں مل کر دو بھی بن سکتی ہیں۔ (۱) انفرادی کامیابی
فانی یا ابدی، (۲) اجتماعی کامیابی فانی یاابدی۔
تعبیر کوئی بھی ہو، ہمیں مذکورہ اقسام کی کامیابیوں سے بحث کرنی ہے۔ یہاں
ہم مذکورہ اجمال کی تفصیل بیان کریں گے۔
ابدی کامیابی
اس کا تعلق مذہب سے ہے۔ مذہب برحق چونکہ اسلام ہی ہے، اس لئے یہ کامیابی
اسلامی تعلیمات وارشادات پر عمل کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، لہٰذا اس
کامیابی کے لئے اولیاء اﷲ، بزرگانِ دین اور علمائے حق سے مرتبط ومتعلق ہو
کر قرآن وسنت کی سمجھ کی سبیل پیدا کی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں اس پر عمل پیرا
ہوکرہی آدمی فوز وفلاح اور نجات کی طرف گامزن ہوگا۔
فانی کامیابی
اس کا تعلق دنیا ومافیہا سے ہے، اس کا کوئی متعین نصب العین نہیں ہے۔ اس کے
کوئی خاص اصول و مبادی بھی نہیں ہیں۔ اسی لئے عام طور پر لوگ اس طرح کی
کامیابی کو قسمت کا کھیل کہتے ہیں۔ اگرچہ کچھ نہ کچھ خدوخال اس کے بھی ہیں،
مگر وہ یقینی نتائج نہیں دے سکتے، البتہ اکثر اور عمومی طور پر مفید بھی
ہوسکتے ہیں۔
موازنہ
ان دونوں میں اس طرح موازنہ کیاجاسکتا ہے کہ ابدی کامیابی کے اصول وضوابط
واضح ، متعین اور حتمی منتج ہونے کی وجہ سے اسے ’’شاہراہ کامیابی‘‘
کہاجاسکتا ہے۔
فانی کامیابی کے سبل متفرق ہیں۔ نصب العین مجرب، متعین اور حقیقی نتیجہ خیز
نہیں ہے ،اس لئے اسے کامیابی کی مختلف سروں والی ایک پرپیچ پگڈنڈی سے تعبیر
کیا جاسکتا ہے، جس کا کوئی سرا کامیابی تک پہنچاتا ہے اور کوئی نہیں بھی۔
اجتماعی کامیابی
بہ الفاظ دیگر ’’جماعتی کامیابی‘‘ کا عنوان اسے دیاجاسکتا ہے۔ اس کامیابی
کا تعلق فرد کی بجائے معاشرے سے ہوتا ہے، فرد یہ سمجھتا ہے کہ میری کامیابی
اس معاشرے کی کامیابی میں ہے اور میری ناکامی اس معاشرے کی ناکامی میں ہے۔
اجتماعی کامیابی دیرپا اور وسیع تر ہوتی ہے۔ اس کا حصول اگرچہ بظاہر مشکل
نظرآتا ہے، مگر اجتماعیت کا عمل کرکے اسے آسان بنایاجاسکتا ہے۔ گروپنگ سسٹم،
کمپنی شیئرز، پارٹیز، پارٹنرز وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ یہاں علامہ اقبال کا
یہ شعر ضرور ملحوظ خاطر رہے:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
انفرادی کامیابی
اس کا تعلق فرد سے ہے۔ کہ ایک فرد اپنے لئے فانی یا ابدی کامیابیاں کیونکر
دستیاب کرسکتاہے۔ دنیوی معاملات، گھر، کمپنی (ادارہ، ملازمت ، کاروبار)
اسکول، کالج وغیرہ کچھ بھی ہو انسان کامیابی ضرور چاہتاہے۔ ہردل میں
خواہشیں اور تمنائیں کروٹیں لیتی ہیں کہ وہ اپنے ہم مشربوں، ہم چشموں اور
ہم پیشہ لوگوں سے بڑھ جائے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پرسکون ، آسودہ
اور اطمینان بخش زندگی بسر کرے ،اس کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے علامہ
اقبال کا یہ کلام نہایت مختصر مگر تیر بہ ہدف نسخہ ہے:
نگہ بلند، سخن دل نواز ، جان پر سوز
یہی ہیں رخت سفر میر کارواں کے لئے
موازنہ
انفرادی کامیابی ایک تصور ہے، حقیقت میں ممکن نہیں ہے، کیونکہ جب تک انسان
کے متعلقین ومقربین بھی کامیابی سے ہم آغوش نہ ہوں، تنہا ایک فرد کی
کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی لئے جناب رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کا ارشاد گرامی ہے: تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے، اور ہر ایک سے اس کے
ریوڑ کے بارے میں مناقشہ ہوگا۔ نیز یہ بات کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے
کہ اجتماعی کامیابی بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک جماعت کی اکائیاں اس
سے مستفید نہ ہوں۔ گویا کہ انفرادی کامیابی اور اجتماعی کامیابی میں باہمی
تلازم ہے کہ ایک کے بغیر دوسری کا میسر آنا اگر محال نہیں تو دشوار ضرور ہے۔
چنانچہ ہم یہاں دونوں ہی پر ایک مرتبہ پھر ذرہ نئے انداز سے تھوڑی تھوڑی
روشنی ڈالیں گے۔
اجتماعی کامیابی
اجتماعیت کا سب سے بڑا مظہر چونکہ آج کے زمانے میں حکومتیں ہیں، اس لئے ہم
یہاں ایک حکمران کی وصیت جو اپنے جانشین کو کی گئی ہے، پیش کریں گے جس میں
ان کی کامیابی کے اہداف متعین کرکے واضح کردئیے ہیں:
خفیہ وصیت ظہیر الدین بابر بنام شہزادہ نصیر الدین ہمایوں برائے استحکام و
استقامت سلطنت:
’’اے پسر! سلطنتِ ہندوستان مختلف مذاہب سے پُر ہے، الحمدﷲ کہ اس نے اس کی
بادشاہت تمہیں عطا فرمائی ہے۔ تمہیں لازم ہے کہ تمام ترتعصباتِ مذہبی لوح
دل سے دھو ڈالو اور عدل وانصاف پانے میں ہر مذہب و ملت کے طریق کا لحاظ
رکھو، جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کرسکتے۔ ملک
کی رعایا مراحم خسروانہ اور الطاف شاہانہ ہی سے مرہون منت ہوتی ہے۔ جو قوم
یا امت قوانین حکومت کی مطیع اور فرمانبردار رہے، اس کے مندر اور مزار
برباد نہ کئے جائیں۔ عدل و انصاف کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے۔ ظلم وستم
کی نسبت احسان اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتا ہے۔ شیعہ سنی
جھگڑوں سے چشم پوشی کرو، ورنہ اسلام کمزور ہوجائے گا، جس طرح انسان کے جسم
میں چار عناصر مل جل کر اتحاد و اتفاق سے کام کررہے ہیں، اسی طرح مختلف
مذاہب کے رعایہ جات کو ملاجلا کر رکھو اور ان میں اتحادِعمل پیدا کرو ،تاکہ
جسم یعنی سلطنت مختلف امراض سے محفوظ ومامون رہے۔ سرگزشت تیمور کو جو اتحاد
و اتفاق کا مالک ہے، ہر وقت پیش نظر رکھو، تاکہ نظم و نسق کے معاملات پر
پورا تجربہ ہو‘‘۔ (تزک بابری)
اس وصیت کو کوئی بھی حکمراں، وزیر، منتظم، پارٹنر، ممبر یا کارکن اپنا نصب
العین بناکر اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
حضرتِ انسان اپنی کامیابیاں اور کامرانیاں اس طرح حاصل کرے کہ وہ اس دوران
کسی کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کئے بغیر اپنے مقصد حیات تک پہنچ جائے۔
اجتماعی زندگی میں کامیابیاں انتہائی نامساعد حالات کے باوجود جناب
سرورکونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیونکر حاصل کی تھیں؟ اس کی بھی
بنیادی طور پر تین وجوہ ہیں:
آقا کی سو فی صد اطاعت: یعنی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پوری کوشش فرماتے
رہے کہ پروردگار عالم کے سچے اور مطیع ہوکر ان کو اپنے سے خوش اور اپنے لئے
دونوں جہاں میں مددگار اور آقا بنالیں اور ان کی توجہ اور عنایت کو اپنی
طرف کھینچ لیں اور اس کے لئے پوری جماعت میں تعلقِ خلق باخالق پیدا فرماتے
رہے، جس کی بناء پرآیت نازل ہوئی، جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’یہ اس لئے کہ خدا
ایمان والوں کا آقا اور مددگار ہے، اور کافروں کاکوئی آقا اور مددگار نہیں
ہے‘‘ نیز ’’جان لو کہ خدا تمہارا آقا اور مددگار ہے، پس کیا ہی اچھا آقا
اور مددگار ہے‘‘۔ یہ اور اس کی امثال نازل ہوئیں جن میں پورا پورا یقین
دلایا گیا کہ خداوند کریم اہلِ ایمان واطاعت والوں کا مددگار اور معاون ہے۔
اخلاق: اخلاق کے ذریعے صرف اپنے متبعین ہی کی اخلاقی کیفیت درست نہیں کی
گئی، بلکہ جملہ ہمسایہ گان اور مخالفین کو اپنا محب اور مطیع بنایا گیا ،
بہت تھوڑی مدت میں پورب، پچھم، اتر، دکھن (مشرق و مغرب، شمال و جنوب) جہاں
جہاں وہم وگمان بھی نہ تھا، وہاں وہاں اسلام کا پرچم پوری آب و تاب سے
لہرانے لگا۔
مادی اورظاہری اسباب: یعنی ’’واعدوالھم‘‘ کے فارمولے کو مدنظر رکھ کر
اسلامی سلطنت کو ظاہری طور پر ہر طرح تقویت دی گئی، جس کی تفصیل یہاں طول
کا سبب ہوگی۔ مختصر یہ کہ ان تینوں صفات کی بناء پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کو وہ کامیابیاں ملیں، جن کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔ حتی کہ آپ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نُصرت بالرعب مسیرۃ شہر‘‘ یعنی میں ایک ماہ
کی مسافت تک رعب اور ہیبت سے مدد کیا ہوا ہوں۔
گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کی اجتماعی
کامیابی کے کچھ نکات یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں:
(۱)- نماز باجماعت کا اہتمام۔
(۲)- احکامِ شرعیہ کی سختی سے پابندی۔
(۳)-تعلیم کو جزوِ ایمان قرار دیاجائے۔ اعلیٰ تعلیم سے لے کر مکاتب تک جال
پھیلائے جائیں۔
(۴)-شادی وغمی کے لئے ایسے طریقے اختیار کئے جائیں جس میں فضول خرچیوں سے
بچت ہو۔
(۵)-مقدمہ بازی سے حتی الوسع احتراز کیاجائے۔
(۶)-جہیز کی لعنت سے ہٹ کر شریعت کے مطابق نوجوانوں کی شادیاں کرائی جائیں۔
(۷)-ہرقسم کے تجارتی شعبوں میں مسلمان آگے آئیں۔
(۸)-مسلمان جہاں ہوں، وہاں کی عسکری قوتوں پر اپنا وزن ضرور ڈالیں۔
(۹)-باہمی نفرتوں سے سخت گریز کیاجائے۔ عفو و صفح سے کام لیا جائے۔
(۱۰)-غیر مسلموں کی دست اندازیوں کو درگزر کیا جائے، یا پھر حکیمانہ انداز
میں بھرپور قوت سے مدافعت کی جائے۔
(۱۱)-بھٹکے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ نہایت نرمی، حکمت اور موعظ حسنہ کا برتاؤ
کرکے انہیں راہ راست پر لایاجائے۔
(۱۲)-اسلام کی اشاعت کی ہر سطح پر کوشش کی جائے۔ مختلف اقوام وملل میں انہی
کی زبانوں میں مؤثر دعوتی لٹریچر پہنچایا جائے۔
(۱۳) ۔عربی زبان عام وتام کرنے کی کوششیں کی جائیں۔
(۱۴)۔ میراث میں خواتین کے حقوق لازماً دئے جائیں۔
(معارف مدنی بہ اختصار واضافہ)
انفرادی کامیابی
آپ اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں ، رنج وغم کو مسرتوں میں،چیلنجز کو
چانسس میں، پریشانیوں کو بے فکری میں، بے عملی کو عمل کے سانچے میں کیسے
ڈھالیں؟ یہ گُر آپ نے سیکھ لیا ،تو آپ ایک ظفر مند اور بھرپور کامیاب انسان
بن سکتے ہیں۔ اس کی ابتداء یہاں سے ہوگی کہ آپ اپنے مستقبل کی کامیابیوں کی
منصوبہ بندی کے لئے سب سے پہلے اپنے ماضی وحال کا بے لاگ تجزیہ کریں اور
اپنے اندر ماضی اور حال کے جائزہ لینے کا ایک عظیم حوصلہ پیدا کریں۔ تب
جاکر آپ اپنے مستقبل کوکامیاب وکامران دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے لئے کچھ نکات
کی ہم یہاں وضاحت کئے دیتے ہیں:
ہمت: آپ میں ایک ولولہ انگیز اور ان تھک ہمت کاوجود ضروری ہے کہ ہمت مرداں
مدد خدا۔ حضرت امام شافعیؒ نے کیا ہی خوب فرمایاہے:
أنا إن عشت لست أعدم قوتاً
واذا مت لست أعدم قبراً
ھمتي ھمۃ الملوک ، ونفسي
نفس حر تری المذلۃ کفراً
واذا قنعت بالقوت عمري
فلما ذا أخاف زیداً وعمراً
’’اگر اﷲ نے زندگی دی تو رزق سے بھی محروم نہیں رہوں گا، اور اگر موت آئی
تو قبر بھی مل ہی جائے گی۔ میری ہمت بادشاہوں کی ہمت ہے، اور میرا نفس ایک
آزادمرد کا نفس ہے، جو ذلت کو کفر سمجھتا ہے، اور جب ساری عمر قلیل ترین
روزی (قوت لایموت) پر اکتفا کرسکتا ہوں، تو پھر مجھے زید عَمرو سے کیا ڈر
ہے؟‘‘۔
استقلال اور استقامت: کامیابی حاصل کرنے کا ایک اہم اور بنیادی عنصر
استقامت ہے۔ دین میں بھی استقامت ہی مطلوب ہے۔ قرآن وحدیث میں استقامت علی
الدین کے ثمرات ونتائج اور اس پر مرتب ہونے والا ثواب کا جابجا بیان کیا
گیا ہے۔ عربی کی ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ استقامت ہزار کرامتوں سے بہتر
ہے۔ پشتو زبان کے لا ہوتی شاعر رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے
لکہ ونہ مستقیم پہ أخپل مکان بیم
کہ خزان را باندے راشی کہ بہار
(ترجمہ)’’میں ایک مستقیم و مستقل شجر کی طرح اپنی جگہ قائم ہوں، خزاں آئے
یا بہار (گویا مجھے بہار کی کامیابی اور خزاں کی ناکامی کی کوئی پرواہ
نہیں)۔
محویت: اسے عام طور پر یکسوئی اور ارتکازِ توجہ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ
کوئی شخص اپنی پوری توجہ کسی کام کی تکمیل کے لئے لگادے اور اس کام میں اس
کی محویت کا یہ عالم ہو کہ جب تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہوجاتا، اس میں
مجنونانہ انداز میں مگن رہے۔
خود اعتمادی: اس قوت کے ذریعے آپ کچھ بنیادی مشکلات کے خوف سے اپنے دل کو
نکال سکتے ہیں۔ غربت و افلاس کا خوف، تنقید کا خوف، خرابیٔ صحت کا خوف،
ناکامی کاخوف، بڑھاپے اور موت کا خوف۔ یہ اور اس طرح کے مختلف خوف اکثر و
بیشتر انسان کو اپنے نصب العین اور ہدف کی طرف جانے کے سفر میں حائل ہوجاتے
ہیں، لیکن اگر خود اعتمادی کی سواری آپ کے پاس ہوگی ،تو تمام رکاوٹوں کے یہ
اسٹیشن آپ بہ آسانی پار کرسکیں گے۔
درگزر کرنے کی عادت: انسان تب کامیاب ہوسکتا ہے جب اس میں صبر، عفو ،چشم
پوشی اور درگزر کی صفات ہوں۔قرآن کریم میں ہے:﴿وجعلنا ھم أئمۃً یھدونا
بأمرنا لما صبروا﴾ ’’اور ہم نے انہیں اس وقت بڑا بنایا، وہ ہماری ہدایات کی
تعمیل کراتے ہیں، جب انہوں نے صبر کیا‘‘۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الادب العربی حضرت مولانا اعزاز علیؒ نے بھی کیا
دلچسپ بات فرمائی ہے:
ہل چل زمیں پہ مچ گئی افلاک ہل گئے
یا رب کسی کی آہ تھی یا نفح صور تھا
عفو و صفح سے نہ لیا آپ نے بھی کام
اعزاز ورنہ صاحبِ عقل و شعور تھا
اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں، جن کا استیعاب واحاطہ یہاں مشکل ہے ،لیکن
یہ بنیادی باتیں تھیں جو عرض کردی گئیں۔
انفرادی زندگی کے لئے تعینِ مقصد، لیاقت، قوت مخیلہ، جوش وخروش، معاوضے سے
زیادہ کام کرنے کی عادت، جاذب نظر شخصیت، درستیٔ فکر، دوسروں سے تعاون
لینا، رواداری، ناکامیوں اور کامیابیوں کاجائزہ…… اس سے آپ کے اندر ایسی
قوت پیدا ہوگی جو آپ میں آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو سدھارنے کا جذبہ پیدا
کرے گی۔ یہی جذبہ آپ کو کامیابیوں کے میدان میں فکر و عمل سے روشناس کرا کر
منزل تک پہنچادے گا۔ اﷲ تعالی ہم سب کو کامیاب ،کامران سربلند و سرخ رو
فرمائے، اﷲم آمین۔
(کامیابی ڈائجسٹ جولائی/اگست ۲۰۰۵)
(مظفریات) |