آنکھوں دیکھے مشاہدات سے قبل جب سائنسدان کائنات کی وسعت
کا اندازہ ایک عام آدمی کو سمجھاتے تو ایک ریت سے بھرے میدان کی مثال
دیا کرتے تھے٬ کہ کروڑوں زرات میں جو حیثیت ایک زرے کی ہوسکتی ہے٬ وہی
ہماری زمین کی حیثیت اس کائنات میں ہے- اگر زمین کی حیثیت اس کائنات میں
ایک زرے کی سی ہے تو ان بڑے بڑے پہاڑوں٬ دریاؤں اور ریگستانوں کی حیثیت اس
کائنات میں کیا ہوگی؟
|
|
ان چیزوں کی حیثیت پھر شاید کچھ نہ کچھ ہو لیکن 5 یا 6 فٹ
کا آدمی یعنی ہماری اپنی حیثیت یا وقت اس عظیم الحبثہ کائنات میں کیا ہوگی؟-
اس کا اندازہ آپ بخوبی ان مشاہدات سے کرسکتے ہیں جو خلا میں موجود امریکی
ادارہ کی خلائی دوربین (Hubble) نے کیے ہیں-
|
|
ان مشاہدات کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ جب خلائی دوربین ہبل نے اپنے
مشاہداتی کیمرے کو خلا میں ایک چھوٹے سے ایریا پر مستقل مرکوز کردیا-
ہبل کے مرکوز ایریا کا سائز ہمیں نظر آنے والے چاند کا صرف دسواں حصہ تھا-
جہاں ایک انسان کی آنکھ کے عمومی مشاہدے میں سوائے اندھیرے کے کچھ دکھائی
نہیں دے سکتا- |
|
|
ہبل نے 4 ماہ تک اپنے کیمرے کو اس جگہ مرکوز رکھا تاکہ کائناتی روشنی میں
جتنا ممکن ہو وہ دیکھ سکے- ہبل نے کیا دیکھا آئیے ہم بھی دیکھتے ہیں-
|
|
ہر نقطہ اس تصویر میں ایک مکمل گلیکسی ( Glaxy) یعنی کہکشاں ہے-
ہر کہکشاں ایک ٹریلین ( 1,000,000,000,000) ستاروں پر مشتمل ہے-
ہر ستارہ ممکن ہے کہ نظامِ شمسی کی طرح اپنا ایک نظام لیے ہوئے ہو-
ہبل ٹیلی سکوپ کی مرکوز شدہ چھوٹی سی جگہ پر 10 ہزار سے زائد گلیکسی موجود
ہیں-
|
|
ان سب عجائبات کا فاصلہ 13 بلین روشنی کے سالوں ( Light Years ) سے دور ہے-
( یہاں انسانی عقل جواب دے جاتی ہے ) -
|
|
یہاں نظر آنے والی ایک بڑی گلیکسی ہمارے اپنے ملکی وے گلیکسی سے آٹھ گنا
زیادہ ستاروں پر مشتمل ہے- یہ سائز اتنا بڑا ہے جو کہ تکنیکی موجودہ فزکس
کی تھیوریوں میں موجود ہی نہیں-
|
|
یہ سب کچھ وہ ہے جو کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا- اب اندازہ کیجیے کہ باقی
سب کیا ہوگا-
|