لغت کے اعتبار سے علم کا معنی آتا ہے’’جاننا‘‘کسی بھی
چیز کے متعلق آپ نے جانکاری حاصل کرلی ہو تو گویا اس چیز کا علم آپکو
حاصل ہو گیا۔لیکن اصلاح میںعلم کہا جاتا ہے ان امور کے جاننے کو جن کے
ذریعے سے اللہ رب العزت کی معرفت و پہچان حاصل ہواور اپنی زندگی کو اس کے
مرضیات کے مطابق ڈھالی جا سکے جس کا حاصل کرنا حدیث کی رو سے ہر مسلمان مرد
اور عورت پر لازم ہے۔
لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو علم کی دو قسمیں بنتی ہیں(۱) علم دین (۲) علم
دنیاوی۔علم دین وہ ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے احکام کے
پیروی اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ معلوم ہو۔
علم دنیا وی وہ علم ہے جو دنیاوی علوم وفنون کے بارے میں رہنمائی کرے جیسے
ڈاکٹری انجینئرنگ وغیرہ جو صرف ان کی دنیاوی زندگی تک محدود ہیں آخرت میں
ان فنون سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن و
حدیث میں علم کی جو فضیلت اور ضرورت بیان ہوئی ہے اس سے مراد صرف علم دین
ہے۔دنیاوی فنون نہیں۔
علم دین کے زریعے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت کو پہچان سکتا ہے اور اللہ
تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔علم دین حاصل کرنے والوں پر الل تعالیٰ کی
رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں اور دنیامیں بھی اللہ تعالیٰ ان کو عزت و
مرتبہ عطا فرماتا ہے۔علم دین حاصل کتنے والوں کی فضیلت کے بارے میں حدیث
مبارکہ میں ہے کہ جو شخص علم دین ْھاصل کرنے کے لئے راہ خدا میں نکلتا ہے
تو فرشتے اس کے پائوں کے نیچے اپنے پر بچھادیتے ہیں۔
اسلام نے سب سے زیادہ علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ارشاد ربانی ہے’’میری
نشانیوں کو صرف اہل علم سمجھ سکتے ہیں۔رسول مقبول ﷺ کا ارشاد ہے کہ مہد
(گہوارہ ) سے لے کر لحد (قبر) تکعلم کی طلب میں لگے رہو اور ایک جگہ ارشاد
فرمایا کہ حکمت اور دانائی کی بات مومن کی گمشدہ متاع ہے جہاں سے ملے وہ اس
کا زیادہ حقدار ہے۔علماء امت نے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز علاقوں کا
سفر کیا اور اس راستہ میں ایسی ایسی تکلیفیں برداشت کیں جن کا تصور کرنا
بھی مشکل ہے۔لیکن ان سب کے باوجود ان کی حوصلے بلند رہے اور ان کے ارادوں
میں کبھی تزلزل نہیں آیا۔
انسان کی پیدائش کا مقصد کا بھی اللہ رب العزت کی معرفت اور اس کی عبادت
اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔یہ تینوں مقاصد علم ہی کے ذریعے حاصل ہوسکتے
ہیں۔الغرض علم ہی وہ دولت ہے جو انسان کو پستی سے بلندی تک پہنچا دیتی
ہے،اور ذلت و تاریکیوں سے نکال کر اپنے حقیقی مقصد سے رشناس کراتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سرور کائنات ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’ہر چیز کا ایک
ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون علم ہے‘‘۔سرور دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’جس
کو موت اس حال میں آگئی کہ وہ علم دین سیکھ رہا تھا کہ اس کے ذریعے اسلام
کو زندہ کر ے تو اس کے اور انبیاء علیہم السلام کے درمیان جنت میں صرف ایک
درجہ فرق ہوگا لیکن یہ فضیلتیں اس وقت حاصل ہونگی جب انسان اس علم کو حاصل
کر کے اور اس کے مطابق عمل پیرا بھی ہو ورنہ علم اس کے لئے وبال بن جائے گا
خواہ وہ زندگی بھراسے حاصل کرتا رہے۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں
علم چنداں کہ پیشتر خوانی
چو عمل در تو نیست نادانی
نہ محق بود نہ دانش مند
ناچار پائے بر و کتاب بے چند
آں تہی مغز راچہ علم و خبر
کہ برو ہیزم است یا رفتہ
اسی طرح جس شخص نے علم دین اس لئے حاصل کیا کہ وہ علماء حق لے ساتھ مقبلہ
یا مناظرہ کرے تو ایسے شخص کا علم اس کو کچھ نفع نہ دے گا بلکہ ایسا شخص
جہنم رسیدہ کیا جائے گا۔
حدیث میں ہے ’’من طلب العلم لیجاری بہ العلماء ویماری بہ السفھاء ادخل اللہ
النار‘‘
ترجمہ: جس نے علم اس لئے حاصل کیا کہ وہ علماء سے مناظرہ کرے اور اس کے
ذریعے بیوقوفوں سے جھگڑا کرے اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل فرمائیں گے۔علم
دین حاصل کرنے کے بعد اسے دوسروں کو جو حصول دین کا طالب ہو،پہچانا ضروری
ہے۔اگر کسی نے علم دین سیکھنے کے بعد اسے دوسروں کو نہ سکھایا اور چھپایا
تو ایسے لوگوں کے متعلق سراور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن
اسے آگ کا لگام پہنایا جائے گا۔اسی طرح آپ ﷺ کا پاک ارشاد ہے ’’جو علم
خود اپنے لئے حاصل کرنے والے کو نفع نہ دے تو اس علم سے اللہ اپنی پناہ میں
رکھے۔
علم ایسی دولت ہے جس کو خرچ کرنے سے بھی کم نہیں ہوتی بلکہ اس کو جتنا ہی
خرچ کیا جائے گا اسی قدر اس میں جلا پیدا ہوگا اور علم سکھانے والے کے علم
میں مزید اضافہ ہوگا اسی سے کامیابی وکامرانی وابستہ ہے۔
عمل زندھی سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ ناری نہ نوری |