مجھے ماضی کی تلاش ہے

موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی نے انسانی زندگی کو چمکدار اور زرق برق تو بنا دیا ہے لیکن اس کے بدلے میں انسان کی معاشرتی میراث بھی لٹ گئی ہے۔ آج انسان طرح طرح کی گاڑیاں ،عمدہ لباس، برقی قمقمے اورجدید آسائشوں کا عادی تو ہوگیا ہے۔ لیکن انسانیت کی آخری حد سے بھی نیچے گر گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ ترقی مادہ کی فراوانی کی مرہون منت ہے۔ سوسائٹی کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے اور معاشی نمو کیلئے مصنوعی دولت پیدا کی جاتی ہے۔ یہ دولت ساری دنیا میں بینکوں کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ دنیا میں جب بھی کسی ملک کی معاشی نمو رک جاتی ہے اور کساد بازاری شروع ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں صرف دو مستند اصولوں میں سے ایک پرعمل کیا جاتا ہے۔ (1) بیرونی ذرائع سے قرضہ لیا جاتا ہے جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے برطانیہ نے امریکہ سے قرضہ لیا (2) مصنوعی دولت پیدا کرکے جامد معیشت کو دھمکا دیا جاتا ہے۔ جیسا 1937ء میں کساد بازاری کو ختم کرنے کیلئے امریکہ نے کیا۔ بہرحال دنیا میں مروج اصول ہے کہ کوئی کام کرنے سے پہلے اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر خوب غور کیا جاتا ہے اور بعد میں پیش آمدہ نقصان دہ حالات کا مقابلہ کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ معاشرتی ڈھانچہ توڑ پھوڑ کا شکار نہ ہو جائے۔ آج دیکھا جا سکتا ہے کہ یورپی معاشرہ انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے کو گھور کر بھی دیکھے تو عدالت سے سزا ضرور پانا ہے۔ بیروز گاڑی کی صورت میں کوئی بھوکا نہیں مر سکتا۔ لیکن انتہائی بدقسمتی سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً مندرجہ بالا دونوں طریقے آزمائے گئے۔ لیکن ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے سوسائٹی کے اندر ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا ہے کہ جس کا سدھار اب شاید ممکن نہ ہو۔ ایک لمبے عرصے سے شکست و ریخت کا عمل جاری ہے۔ دنیا کے فلاسفروں کی متفقہ رائے ہے کہ سائنسی یا مادی ترقی اگر معاشرے میں بہتری کی بجائے بگاڑ پیدا کرے تو وہ ترقی نہیں بلکہ تباہی ہوتی ہے۔ اسی لئے اہل مغرب نے سائنسی ترقی کو بہتری کیلئے استعمال کیا۔ افسوس صد افسوس ہمارے ملک میں گزشتہ 66 برسوں سے ہر حکومت نے بیرونی ذرائع سے خوب قرضہ اور امداد لی۔ لیاقت علی خان سے لیکر آج تک ہمارا گداگری کا کشکول بڑھتا ہی گیا۔ علاوہ ازیں مصنوعی دولت بھی پیدا ہوتی رہی لیکن ہر دور میں حالات منفی سمت میں ہی چلتے رہے۔ معاشرتی بگاڑی بھی بڑھتا گیا اور انسان اقدار بھی دم توڑتی رہیں۔ بالادست طبقوں میں ہوس دولت گہری بڑھتی گئی اور آہستہ آہستہ وہ ملک کے تمام وسائل پر قابض ہوگئے۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ملک کے 80% وسائل اور دولت چند خاندانوں کے ہاتھ مرتکز ہوگئے ہیں ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کو پیسہ خرچ کرنے کے ذرائع نہیں ملتے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کو پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے پیسہ نہیں ملتا۔ اسی معاشرتی تفریق اور ناانصافی نے جرائم کے لامتناہی سلسلہ کو جنم دیا ہے۔ ہر مکتبہ فکر کا آدمی دولت کے حصول کیلئے بھاگ رہا ہے۔ قطع نظر کہ اس کا راستہ قانونی ہے یا غیرقانونی، ایسی انارکی میں معاشرے زندہ نہیں رہتے۔ یہ شاہد دنیا کے چند بدنصیب ملکوں میں ایک ہوگا۔ جہاں ہر امیر آدمی اپنی دولت بیرون ملک جمع کر رہا ہے۔ اسی سے امرا کا اس ملک پرایمان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ غریب اور درمیانہ طبقہ اپنی جان اور معاشی تحفظ کا ہی متفکر رہتا ہے۔ دونوں طبقات کیلئے اس ارض پاک میں سرچھپانے کی سکت نہیں رہی۔ مہذب ڈاکو چور اور لٹیرے غریبوں کے جذبات سے کھیل کر ان کی جیبوں میں بچی کچھی پونجی بھی لوٹ رہے ہیں۔آج سے 60 سال قبل مادی چمک دھمک نہ تھی۔ ملک کی 80فیصد آبادی دیہات میں رہتی تھی۔ شہروں میں بسنے والے 20فیصد بھی دیہاتی ماحول رکھتے تھے اگرچہ رسل و رسائل اور آمدورفت کے ذرائع کم تھے لیکن کسی آدمی کا اپنی منزل پر پہنچنا تکلیف دہ نہ تھا۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ پولیس چوکیاں اور تھانے لمبے فاصلے پر ہوتے تھے جبکہ پولیس کے پاس نقل و حرکت کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا تھا۔ کسی گائوں میں لڑائی جھگڑے کی خبر ملتی تو پولیس والے پیدل یا گھوڑے پر جاتے۔ قانون کی عملداری کا یہ عالم تھا کہ ایک نہتا سپاہی گائوں میں پہنچ کر چوکیدار سے اعلان کرواتا اور سارا گائوں اکٹھا ہوجاتا۔ کوئی ملزم بھاگنے کی کوشش نہ کرتا بلکہ ایک تنہا سپاہی پندرہ بیس لوگوں کو لیکر تھانے چلا جاتا۔ ایسے حالات میں ہر آدمی جرم کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتا کیونکہ معاشرتی دبائو کوبرداشت کرنا مشکل تھا۔ کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہوتی تو سارا گائوں مل کر ہر طرح کی مدد کرتا۔ بڑے سے بڑا چودھری بھی خود جا کر غریب کی بیٹی کو دعائوں کے ساتھ رخصت کرتا۔ شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کیلئے سونے کا بندوبست اہل دیہہ کرتے۔ یوں نہ تو کسی کو معاشی مجبوری کا احساس ہوتا اور نہ ہی احساس محرومی۔ غریب سے غریب آدمی بھی اپنی چھت کا مالک ہوتا۔ لیکن آج افراتفری کا یہ عالم ہے کہ بھائی بھائی کی مدد کو تیار نہیں۔ ہر آدمی دوسروں کی دولت ہتھیانے کی فکر میں ہے۔ ہرطرح کی سائنسی یا مادی ترقی معاشرے کی بہتری کیلئے ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو ترقی معکوس ہے۔ حالات نے لوگوں کو اس قدر ٹینشن زدہ کردیا ہے کہ ساری قوم Frustration کا شکار ہے۔ ذہنی سکون غارت ہے اور جاں کا تحفظ مفقود، لوگوں کو بیٹیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بوڑھی ہو رہی ہیں کیا اسی کا نام ترقی ہے۔ خدارا معاشرے کوماضی کو اخلاقی قدریں لوٹا دیں۔

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274729 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More